1857 میں مغل سلطنت کا خاتمہ ہوا تو اس کے ساتھ ہی اردو ادب کے زمین وآسمان بھی بدلے گئے۔ کہاں داستانوں کی شہزادیاں اور پرستان کی پریاں تھیں اور کہاں ڈپٹی نذیر احمد نے’مراۃالعروس‘ میں ایک نئی عورت کی چھب دکھائی۔ اصغری نام کی ایک کم سن لڑکی ہے جو بیاہ کر آتی ہے اور ایک بے ڈھب، بے ڈھنگے اور بے شعور خاندان کو ایک شائستہ اور خوشحال گھرانے میں بدل دیتی ہے۔ آس پاس کی عورتیں تو ایک طرف رہیں مرد بھی اس کی عقل کو سلام کرتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گھر کا تمام انتظام و انصرام مردوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ غلہ اور دوسری ضرورت کی چیزیں، حد تو یہ ہے کہ عورتوں کے لیے کپڑے اور جوتیوں کا انتخاب اور دام کی ادائیگی بھی گھر کے مرد براہ راست کرتے تھے۔
بزازے سے لے کر پنساری، قصائی، حلوائی اور غلہ فروش کے یہاں ادھار چلتا تھا جسے مرد ادا کرتے تھے اور گھر میں بیٹھی ہوئی متوسط طبقے کی شریف عورت کلدار روپے یا نوٹ کو اپنے ہاتھوں سے چھونے کی حسرت ہی رکھتی تھی۔ ایسے میں 1869 میں چھپنے والے قصے ’’مراۃ العروس‘‘کی ہیروئن اردو ادب کے منظر نامے پر ایک معجزے کی صورت طلوع ہوئی۔ اس نے گھر میں مکتب کھول کر محلے کی بچیوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ہی اپنے لیے روزگار کی صورت نکالی اور گھر بھر کا نقشہ بدل دیا۔ شوہر نے سیالکوٹ میں سرکاری نوکری پر رہتے ہوئے پر پرزے نکالے تو دلی سے سیالکوٹ روانہ ہوگئی۔ جہاں اس نے اپنے شوہر کو راہ راست پر لاکر چھوڑا۔ حد تو یہ ہے کے بیروزگار سسر کی ملازمت کا انتظام بھی کر ڈالا۔
’’مراۃ العروس‘‘ کے فوراً بعد کئی قصے شایع ہوئے جن میں ایسی ہیروئنیں نظر آتی ہیں لیکن رشیدۃ النساء 1894 میں ہمیں برابری کا موقعہ یعنی مرد اور عورت کے درمیان مساوی مواقعے کی بات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس بات کا رشتہ عورت کی تعلیم سے جوڑتی ہیں اور عورت کے برسر روزگار ہونے کی ترغیب دیتی ہیں۔
ترقی پسند تحریک کی بنیاد گزاروں میں رشید جہاں تھیں جنھوں نے عورت کے جنسی اور ازدواجی استحصال پر قلم اٹھایا اور عورتوں کے لیے آزادی کی راہ نکالی۔ ان ہی کے نقش قدم پر عصمت چغتائی چلیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے انھوں نے بے دھڑک عورتوں کے کردار تراشے۔ یہ وہ بات تھی جس نے قدامت پسندوں کو اس حد تک مشتعل کیا کہ ان پر فحاشی کا مقدمہ چلا۔ فحاشی کا مقدمہ منٹو پر بھی چلاکیونکہ انھوں نے طوائف کو اگر مظلوم اور بے اختیار دکھایا تو اس کے ساتھ ہی بااختیار طوائفیں بھی ہمارے سامنے لاکھڑی کیں۔ اس زمانے میں تحریک آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کا معاملہ بھی زور و شور سے چل رہا تھا۔ یہی وہ دور ہے جب ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، ممتاز شیریں اور دوسرے افسانہ نگار مرد اور عورتیں سامنے آئیں جن کی تحریروں میں غربت سے جھنجھلائی ہوئی، جنسی محرومیوں کی مار کھاتی ہوئی اور تقسیم کے خنجر سے ذبح ہونے والی عورت ملتی ہے۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد 50 کی دہائی سے ہمارے ادب میں سماجی اور سیاسی بغاوت کی چنگاریاں اڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ فرخندہ لودھی اپنے ارد گرد بے بس، مجبور ِمحض اور انصاف کو ترستی ہوئی عورتیں دیکھتی ہیںاور ان کے دکھ، ان کی بربادیاں، تباہیاں کاغذ پر اتار دیتی ہیں۔ انھیں اپنے اس اختصاص کا احساس شدت سے تھا ۔ تب ہی انھوں نے اپنی لکھت کے بارے میں کہا تھا کہ ’’میں نے ہمیشہ عورتوں کے پرُ اثر کردار تخلیق کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
’’منی کیسے مرے‘‘ فرخندہ بخاری کا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں نچلے متوسط طبقے کی ایک نہایت ذہین لڑکی ہمیں اپنی چھب دکھاتی ہے۔ سخت گیر مذہبی باپ اور دل کی گہرائیوں سے شوہر پرست ماں کی بیٹی۔ قل اعوذی استانیوں اور جھوٹ بولنے والی ہم جماعتوں میں گھری ہوئی۔ منی سوال اٹھاتی ہے اور جواب میں جھڑکیاں اور جھانپڑکھاتی ہے۔ اسے اپنے ہونے پر اصرار ہے۔ ہماری لڑکیوں کی اکثریت جیسی زندگی گزارتی ہے اس کی عکاسی فرخندہ بخاری کے اس افسانے میں بے مثال ہے۔
شمیم اکرام الحق کا افسانہ ’’اندھا قانون‘‘ پڑھتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کے لائے ہوئے نئے اسلام کی اور اس نابینا صفیہ بی بی کی یاد آتی ہے جس کے ساتھ زنا بالجبر ہوا اور جب وہ حاملہ ہوئی تو اسے ’’زانیہ‘‘ قرار دے کر سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس افسانے میں شمیم نے 15 کوڑوں اور 5 سال قید بامشقت کی سزا سن کر باشو کی زبان سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ’’ ظالمو اس جرم میں شریک شخص کو بھی تو تلاش کرو‘‘ شمیم کا یہ جملہ ہمارے افسانے اور سماج میں تادیرگونجتا رہے گا کہ ’’میں نعوذباللہ مریم تو نہیں کہ اللہ کے حکم سے بغیر مرد کے ماں بن گئی۔‘‘
فرخندہ لودھی اپنی کہانی ’’دوسرا خدا‘‘ میں ہمیں یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ ’’ہوش سنبھالتے ہی اسے معلوم ہوگیا تھا کہ معاشرے میں عورت کا کوئی دوسرا کام نہیں سوائے اس کے کہ وہ شادی کرے اور ہرحال میں شوہر کی خوشنودی حاصل کرے۔‘‘
قرۃ العین حیدر کے ناول گردش رنگ چمن، چاندنی بیگم، سیتا ہرن اور ’پت جھڑ کی آواز‘ اور ان کی دوسری کہانیوں میں تقدیر کی کروٹ سے طوائف بن جانے والی شریف زادیاں‘ کنبے کی اور اپنی بھوک کی مار سہتی ہوئی عزت سے چار پیسے کمانے کیلیے اپنا تارِ نظر کڑھت کے ٹانکوں میں اتار دینے والیاں‘ تار پر چلنے اور میم صاحباؤں کے گھروں میں برتن دھوتی اور فرش چمکانے والی بہادر عورتیں ہیں‘ حالات کی لہروں پر تنکوں کی طرح ڈولتی ہوئی‘ یہ فریاد کرتی ہوئی سنائی دیتی ہیں کہ ’ اب جو کیے ہو داتا‘ ایسا نہ کیجو‘ اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو۔‘‘
آمریت کی سرپرستی میں ہمارے یہاں انتہا پسند عقیدہ پرستی کا سیلاب جس طرح امڈا اس نے روشن خیال لکھنے والیوں اور لکھنے والوں کیلیے سنگین مسائل پیدا کیے۔ اب سالہا سال سے ہم ایک ایسے عقیدہ پرست سماج میں رہتے ہیں جہاں وہ آزادیاں اور گنجائشیں ختم ہوگئی ہیں جو برطانوی سامراج کے سائے میں رہتے ہوئے ہمیں حاصل تھیں۔
پاکستانی سماج میں عورت کی پسپائی کی نہایت دل دوز اور سچی تصویر خالدہ حسین نے اپنے افسانے ’’دادی آج چھٹی پر ہیں‘‘ میں بیان کی ہے۔ دادی سے پوتی تک زمانہ پاکستانی عورت کیلیے جس طرح الٹے قدموں چلا ہے، اس کی عکاسی بے مثال ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دادی جو کالج میں پروفیسر ہے۔ وہ اپنے بد باطن شوہر اور عقیدہ پرست بیٹے کے ہاتھوں جو صدمے اٹھاتی ہے، پوتی سے جس کا تعلق اور محبت کا رشتہ ممنوع ٹھہرتا ہے، وہ آج کے ان بے شمار گھروں کی کہانی ہے جہاں مذہب کے نام پر بیٹوں نے ماں سے اس کا اختیار چھین لیا۔ جنھیں ان کے بیٹے کافر کہتے ہیں اور دوزخ میں جانے کا مژدہ سناتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنی ماں کے ولی ہیں۔
مراۃ العروس کی ہیروئن ’’اصغری‘‘ جس کی پیدائش 1869 میں ڈپٹی نذیر احمد کے قلم سے ہوئی اور 1881 میں رشیدۃ النسا نے جس اشرف النسا کو تخلیق کیا وہ اگر آج زندہ ہوکر ہمارے درمیان آجائیں تو جیلانی بانو، واجدہ تبسم، پروین عاطف، خالدہ حسین، فرخندہ بخاری، ام عمارہ اور دوسری لکھنے والیوں اور لکھنے والوں کے بے اختیار اور بے بس نسائی کرداروں کو دیکھ کر شاید غش کھا جائیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ برٹش راج کی عطا تھی جس نے ہمارے لکھنے والوں اور لکھنے والیوں سے بااختیار عورتوں کے کردار تراشوائے؟ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ملک کی تقسیم نے اردو ادب اور عورتوں کی کردار نگاری پر کیا اثرات مرتب کیے اس کا جائزہ آج شاید بہت ضروری ہوگیا ہے۔
ہمارے یہاں کئی دہائیوں سے عورت کے بااختیار ہونے کی لڑائی سیاست، سماج اور ادب کے صفحوں پر شدت سے لڑی جارہی ہے۔ ادب زندگی کا آئینہ دار ہے، اس میں جھوٹے کردار نہیں تراشے جاتے۔ آج کے اردو افسانے اور ناول میں باغی عورتوں کی آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ وہ ازدواجی زندگی میں جبری جنسی تعلق پر بر افروختہ ہے، اپنی کوکھ پر اپنے اختیار کا سوال اٹھاتی ہے، اس کا بااختیار شوہر گھر میں بیٹیوں کی طرح رہنے والی کم عمر لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر کرے تو وہ گٹر کھولنے کے لیے رکھا ہوا تیزاب اس کے نچلے دھڑ پر لوٹ دیتی ہے۔
ایسی عورتیں ہیں جو نامرد بیٹوں کی ماؤں سے اپنی محرومیوں پر سوال اٹھاتی ہیں، ایسی عورتیں ہیں جو اپنی نسل چلانے کیلیے اپنی بہوؤں کو ان کے دیوروں کے تصرف میں دے دیتی ہیں۔ ہمارے ادب کے صفحوں پر سانس لیتے ہوئے یہ نسائی کردار عقیدے، قانون اور رسم و رواج کے بارے میں ایسے تیکھے اور کڑوے سوال اٹھاتے ہیں کہ جبہ و دستار اور میزانِ عدل کے سائے میں بیٹھے ہوئے صاحبان عدل کی پیشانیوں پر پسینہ آجاتا ہے۔ سماج، رواج، سیاست، نظامِ عدل اور ادب میں عورت کے سوال اٹھانے کا سفر جاری ہے۔