تحریر : شاہد شکیل
خواتین پر تشدد صرف ترقی پذیر ممالک میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور خواتین کے حقوق اور تحفظ پر پروپیگنڈا کرنے والے ممالک میں بھی کیا جاتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کئی ممالک میں میڈیا کھلے عام کسی کی دھونس میں آئے بغیر ان واقعات کو اوپن کرتا ہے اور کئی ممالک میں میڈیا کو اس قدر کنٹرول کیا گیا ہے کہ جب تک لوگ سڑکوں پر واقعہ کے خلاف نہیں نکلتے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی،کئی ممالک میں خواتین کو جسمانی تشدد کی بجائے ذہنی طور پر اذیت دے کر اتنا مفلوج کر دیا جاتا ہے کہ ان کی باقی ماندہ زندگی کسی نفسیاتی کلینک میں گزرتی ہے اور اگر عورت کمزور ہو تو خود کشی کر لیتی ہے،ترقی پذیر ممالک میں قوانین ،تحفظ اور حقوق نہ ہونے پر عورت کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں نہایت سوفٹ طریقے سے گھریلو تشدد کے علاوہ جاب پر اور بھرے بازار میں بھی ذہنی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں آج کل انٹر نیٹ پر آسان اور سادہ طریقے سے خواتین کی پامالی کی جارہی ہے شکاری جانتا ہے کہ شکار کیسے تیر کی زد میں آئے گا اور اگر بچ نکلا تو کیسے دنیا بھر میں شکار کو شاہکار بنانا ہے۔یورپین خواتین کی بنیادی حقوق کی ایجنسی ایف آر اے نے ایک سروے میں واضح طور پر بتایا کہ دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر نہ صرف بالغ خواتین کے ساتھ بلکہ کم عمر نوخیز لڑکیوں کو بھی جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ادارے کے ڈائریکٹر مورٹین کجیرم کا کہنا ہے خواتین کے خلاف کسی قسم کا تشدد جسمانی ،جنسی یا نفسیاتی ناقابل قبول ہے اور قطعاً نظر انداز نہیں کرنا چاہئے یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
ادارے نے کئی خواتین سے انٹرویو کئے جس میں خواتین نے اپنے اوپر ہونے والے ناروا سلوک مثلاً گھریلو تشدد جس میں جسمانی ،جنسی اور نفسیاتی تشدد کے تجربات شامل ہیں کے بارے میں بتایا کہ ایسے حالات میں وہ نہ جی سکتی ہیں اور نہ مر سکتی ہیں کیونکہ کبھی معصوم بچوں کی خاطر سب کچھ برداشت کرتی ہیں یا کبھی کوئی دیگر اہم معاملات آڑے آتے ہیں ،خواتین پر تشدد کے بارے میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ خواتین کو پندرہ سال کی عمر سے ہی جسمانی تشدد اور جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اعدا وشمار کے مطابق دنیا بھر میں ایسی خواتین کی تعداد باسٹھ فیصد تک ہے بائیس فیصد خواتین اپنے دوست یا لائف پارٹنر کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں پانچ فیصد کو پندرہ سال کی عمر سے قبل ہی ریپ کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ دنیا بھر میں شادی شدہ خواتین سے انکے مرد ریپ کرتے ہیں ،چوالیس فیصد خواتین جسمانی ،ذہنی اور نفسیاتی تشدد سے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو چکی ہیں کیونکہ انہیں تشدد کرنے اور جنسی زیادتی کے بعد گھروں میں نظر بند کر دیا جاتا ہے کئی واقعات میں خواتین کا کہنا ہے انہیں زبردستی فحش فلمیں دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بعد ازاں وہی کھیل کھیلنے کیلئے کہا جاتا ہے۔
انکاری کی صورت میں تشدد آمیز رویہ اور برتاؤ کیا جاتا ہے ۔جبکہ دوسری طرف ایک عربی ملک کے فیملی تھیراپسٹ کا کہنا ہے عورت کی پٹائی لازمی ہے،عورت کی مناسب طریقے سے پٹائی کی جانی چاہئے۔امریکا اور برطانیہ میں دکھائی گئی ایک ویڈیو فلم سے نہایت مایوسی کا رد عمل دیکھنے کو آیا ۔ میڈیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی طرف سے انگریزی ٹائٹل سے نشر کی جانے والی ویڈیو میں عربی تھیراپسٹ کو ایک جنگل میں بیٹھا دکھایا گیا جو ناظرین کو اپنے شو میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہتا ہے میرے شو کا نام ہے اپنی بیوی کی پٹائی کیسے کی جائے۔
خالد ال ساگابی نامی عربی تھیراپسٹ نے واضح طور پر اپنے شو میں بیوی کو پیٹنے کی کئی ٹرکس ،ٹپس اور معقول تجاویز پیش کیں اسکا کہنا ہے خواتین کی پٹائی کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مرد دنیا کے جھمیلوں سے اکتا کر یا اپنے مسائل حل نہ ہونے پر بیوی کی پٹائی کرتا ہے یا چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ عورت کو ڈسپلن سے ازدواجی زندگی کو درست رخ اور طریقے سے گزارنے کی تلقین کرتے ہوئے وارننگ دیتا ہے کہ انسانوں کی طرح زندگی بسر کرے اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے۔
خالد کا کہنا ہے بیوی کی پٹائی کرنے کیلئے گھریلو آلات یعنی چاقو چھری کی قطعاً ضرورت نہیں بلکہ مسواک کرنے والی چھڑی یا ٹہنی ہی کافی ہے یا ایک آدھ ہلکی چپت بھی سر پھری خواتین کا دماغ درست کرنے کیلئے کافی ہے تاکہ اسے احساس ہو جائے کہ وہ اپنے لائف پارٹنر کے ساتھ بدتمیزی ،بدا خلاقی سے پیش نہ آئے لیکن مردوں کو چاہئے کہ پٹائی کرنے سے پہلے اپنی بیوی کو ان کے فرائض اور حقوق سے لازمی آگاہ کرے اور نافرمانی کی صورت میں ہاتھ اٹھانا عین اسلامی قوانین میں شامل ہے ،خالد کا کہنا ہے کہ دنیا میں ایسی بھی خواتین ہیں جو مردوں کے ساتھ نازیبا گفتگو کرنے کے علاوہ بے وجہ ایسا گھٹیا رویہ اختیار کرتی ہیں یا انہیں اپنے جلے کٹے الفاظ سے بھڑکاتی اور اکساتی ہیں کہ مجبوری میں پٹائی لازمی ہو جاتی ہے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کئی خواتین مردوں کے ساتھ برابر حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں۔
حالانکہ انہیں ایک بیوی یا عورت کے باقاعدہ حقوق حاصل ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی من مانی پر تُل جاتی ہیں جو ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے،ایسی بھی خواتین کی کمی نہیں جو بات بے بات یا بے وجہ اپنے پارٹنر سے جھگڑا کرتی ہیں اور ہر بات کو طول دینے یا گھماپھرا کر اصل موضوع سے ہٹ جاتی ہیں اور جھگڑے کی نوبت آجاتی ہے ایسی خواتین کا علاج صرف پٹائی ہے۔مڈل ایسٹ میڈیا کا کہنا ہے خالد ال ساگابی نامی تھیراپسٹ کو ہم نہیں جانتے کہ کون ہے اور کیوں ایسی ویڈیو منظر عام لائی گئی ہم کسی قسم کی کوئی رائے یا کومنٹس نہیں دے سکتے۔
ہم نہیں جانتے کہ خالد کا تعلق کس عربی ملک سے ہے یا کس تنظیم کیلئے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔خالد کسی بھی ریاست سے تعلق رکھتا ہو یا کسی تنظیم سے منسلک ہو لیکن مغربی میڈیا میںایسی ویڈیو دکھانے کے بعد کئی ممالک میں بھونچال آگیا تھا کہ کیا واقعی اسلام میں خواتین پر تشدد کرنا جائز ہے؟۔
تحریر : شاہد شکیل