تحریر: سید انور محمود
اسلامی نظریاتی کونسل کو اگر ہم ‘‘خواتین مخالف کونسل ’’کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور ان کے رہنما مولانا فضل الرحمان کے ساتھ انکے گھروں میں اچھا سلوک نہیں ہوتا، شاید اس وجہ سے ہی مولانا فضل الرحمان اور ان کی ہمنوا اسلامی نظریاتی کونسل نے پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ قانون برائے ‘‘تحفظ نسواں’’ کی شدت سے مخالفت کی تھی۔ پنجاب ‘‘تحفظ نسواں’’ قانون 2015ء میں متعارف کروائے جانے والے نظام کے تحت صوبے بھر میں ضلعی سطح پر خواتین اہلکاروں کو تعینات کیا جا سکے گا۔
یہ اہلکار خواتین کی جسمانی، معاشی، یا پھر نفسیاتی تشدد کی شکایات پر کارروائی کرنے کی مجاز ہوں گی۔جرائم میں گھریلو تشدد، جنسی تشدد، نفسیاتی اور جذباتی زیادتی، معاشی زیادتی، ہراسانی اور سائبر جرائم، شامل ہیں۔ 26 مئی 2016ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے 163صفحات پر مشتمل خواتین کے تحفظ کےلئے خود اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ ان سفارشات سے حاصل کچھ نہیں ہونا، یہ سفارشات خواتین پر کئی طرح کی پابندیاں لگانے کی تجویز دیتی ہیں۔ ان تجاویز کے مطابق مردکو عورت کی معمولی پٹائی کرنے کی اجازت ہونی چاہیے بشرطیکہ وہ اس کی حکم عدولی کرے، کچھ روز قبل ہی مولانا شیرانی نے میڈیا کو بتایا تھا کہ اسلام میں عورت پر تشدد کی اجازت نہیں لیکن اب ان کی ہی پیش کردہ سفارشات میں کہا گیا ہے کہ شوہر کو بیوی کی ہلکی پٹائی کی اجازت ہونی چاہیے۔ دین سے وابستہ لوگوں کے یہی متضاد اور افسوسناک رویے عام لوگوں میں بے راہ روی عام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
پاکستان کی گذشتہ پندرہ سال کی سیاسی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دو سابق اور ایک موجودہ حکمران جن میں سابق صدرجنرل پرویز مشرف، پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم نواز شریف نے سب سے زیادہ اپنے مفادات کی تکمیل کی ہے، ان مفادات میں مالی فوائد کے علاوہ اپنے خاندان، اپنے دوستوں اور پارٹی کے ساتھیوں کو اعلیٰ عہدئے پر فائز کرنا جہاں کرپشن کرکے وہ کرڑوں روپے مہینوں میں کمالیتے ہیں۔ ان تین حکمرانوں کے درمیان ایک اورانتہائی مفاد پرست سیاسی شخصیت مولانا فضل الرحمان ہمیشہ موجود رہے، جو نام تو اسلام کا لیتے ہیں لیکن اپنےعلاوہ، اپنے خاندان، اپنے دوستوں اور پارٹی کے ساتھیوں کے مفاد کےلیے اسلام کوپس پشت ڈالنے میں دیر نہیں کرتے۔ 2008ء میں جب مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی کی حکومت کی حمایت ختم کی تو مولانا فضل الرحمان نے آصف زرداری کا ہاتھ تھام لیا۔
مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری کے مفاد پرستانا تعلقات کا مولانا فضل الرحمان نے پورا فائدہ اٹھایا اور 2010ء میں متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا ڈرامہ رچا کر کامیابی سے مولانا محمد خان شیرانی کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ حاصل کرلی، مطلب مولانا شیرانی کا تقرر مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری کے مفاد پرستانا تعلقات کا نتیجہ ہے۔ اب اسلامی نظریاتی کونسل کی نوعیت بھی سیاسی ہےاوراس کی چیئرمین شپ پر ناجائز طریقے سے بیٹھا ہوا شخص بھی سیاسی ہے، مولانا شیرانی جو مذہب کے نام پر عیاشی فرمارہے ہیں ، وقفہ وقفہ سے متنازعہ تجاویز اور نظریات پھیلاکر قوم میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ مولانا شیرانی عوام کے منتخب نمائندئے نہیں ہیں ان کو ایک سیاسی سودے بازی کے نتیجے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ دی گئی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ہونے کے ناطے ان کو وفاقی وزیر کے برابرتمام مراعات حاصل ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور انکے سیاسی رفقا کی عیاشیاں ان ہی سیاسی رشوت سے چل رہی ہیں۔کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا انکی یہ آمدنیاں حلال ہیں بھی یانہیں۔
خواتین کی صحت، تعلیم، سیاسی بااختیاری اور معاشی استحکام کے حوالے سے انتہائی خراب کارکردگی کے باعث اقوام متحدہ کے صنفی عدم مساوات کے اشاریے میں 188 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 147واں ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان گروہوں اور قبیلوں میں بٹا ہوا معاشرہ ہے جہاں جاگیردارانہ نظام اب بھی مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔ اس نظام میں خواتین کے ساتھ ذاتی ملکیت کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔شہری طرز زندگی میں اضافے اورانحطاط پذیرمشترکہ خاندانی نظام خواتین کے خلاف ہونے والی زیادتیوں اور برے رویے میں اضافے کا سبب بنا ہے۔‘عورت فاؤنڈیشن’ کی 2014ء کی رپورٹ کے مطابق سال کے ہر دن، چھ خواتین قتل اور چھ اغوا ہوئیں، چار کے ساتھ زیادتی ہوئی، اور تین خواتین نے خودکشی کی۔ جہیز کے لیے کیا جانے والا تشدد اور تیزاب پھی نکنے کے واقعات اس کے علاوہ ہیں
حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی انیس ہارون کا کہنا ہے کہ مولوی کون ہوتا ہے کہ وہ عورتوں کو بتائے کہ کس طرح کا لباس انہیں پہننا چاہیے۔ انیس ہارون کا کہنا ہے کہ، ”خواتین کی تنظیموں کا ایک اجلاس اسلام آباد میں ہورہا ہے، جس میں ان تنظیموں کی سرکردہ خواتین حصہ لے رہی ہیں۔ ہم ان تجاویز کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ان تجاویز کے حوالے سے خواتین سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور ان تجاویز کی سفارشات سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں، جنہیں ویسے بھی پاکستانی عوام رد کرتے ہیں۔ ملک میں قانون سازی کے لیے پارلیمان موجود ہے۔ علا وہ ازیں خواتین سیاست دان بھی ان تجاویز پر سیخ پا ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی رکن عظمیٰ بخاری نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ‘‘کیا مولانا شیرانی گھر گھر جا کر دیکھیں گے کہ کون سا مرد اپنی بیوی کی معمولی پٹائی کر رہا ہے اور کون سا شوہر غیر معمولی مار پیٹ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ مار پیٹ تشدد کے زمرے میں آتی ہے اور اسلام میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ مولوی اسلام کی غلط تشریح کر رہے ہیں’’۔
پاکستان بہت ساری مشکلات میں گھرا ہوا ہے لیکن ان نام نہاد علما کی تان خواتین سے شروع ہو کر خواتین پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے؟ بظاہر تو یہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے حکومتوں کے آلہ کار بنے ہوے ہیں۔ کرپشن کے کے خلاف ان لوگوں نے کوئی تحریک نہیں چلائی، دہشتگردوں کے تو یہ خود سہولت کار ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں پائی جانے والی گھٹن اُس کے افراد کی صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع نہیں دیتی۔ خواتین کی تعلیم اور اُن پر موجود ناروا معاشرتی دباؤ نے پاکستانی خواتین کی ترقی کو مسدود تو کیا ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ اس ظالمانہ ماحول کے خلاف بڑی جرأت سے علم بغاوت بلند کر رہی ہیں۔ وہ تمام خواتین لایق تحسین ہیں جو ان حالات سے لڑ کر اپنا راستہ بنا رہی ہیں۔ فضولیات میں قوم کو الجھا کر اپنے مفادات حاصل کرنے والےان مفاد پرست ملاوں کی قوم کو قطعی ضرورت نہیں ہے۔ سندھ اسمبلی میں ایک متفقہ قرارداد کے زریعے پہلے ہی اسلامی نظریاتی کونسل کوختم کرنے کا مطالبہ کیا جاچکا ہے۔ لہذا ایک منتخب پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل جو اب صرف ‘‘خواتین مخالف کونسل’’ بن چکی ہے اسکو فوری طور پرختم کر دینا چاہیے۔
تحریر: سید انور محمود