اسلام آباد(یس اردو نیوز)پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں اپنے والد پر ریپ کا الزام عائد کرنے والی خاتون کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے شوہر کو اس واقعے کا یقین دلانے کے لیے اپنی برہنہ ویڈیو بنانا پڑی تھی جس کے بعد پولیس نے انھیں بازیاب کروایا۔ مدعی خاتون نے ڈیرہ غازی خان کے ویمن پولیس تھانے میں 19 جون کو اپنے والد کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے جس میں ان پر ریپ، جنسی عمل کی ویڈیو بنانے اور اپنی مرضی سے شادی کرنے پر حبس بے جا میں رکھنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
تاہم ان کے والد نے ان الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں کھانے میں نشہ آور چیز دے کر نیم بیہوشی میں ان کی ویڈیو بنائی گئی۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے گدائی تھانے کے ایس ایچ او انسپکٹر شکیل بخاری کے مطابق پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا ہے اور عدالت نے اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل جبکہ مدعی خاتون کو دارالامان بھیج دیا ہے۔پولیس کے مطابق خاتون کے بیان کی روشنی میں ہی اب عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ انھیں ان کے شوہر یا والدین میں سے کس کے حوالے کیا جائے۔
پولیس حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ خاتون کی جانب سے ریپ کے دعوے کے بعد جنسی زیادتی کی تصدیق کے لیے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے گئے ہیں اور اس کی رپورٹ آنے میں ڈیڑھ سے دو ماہ لگ سکتے ہیں۔ انسپکٹر شکیل بخاری کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ اس سے یہ عمل غلطی سے ہوا تاہم مقامی صحافی شیرافگن کے مطابق ملزم کے بیٹوں اور مدعی خاتون کے بھائیوں کا کہنا ہے کہ ان کی بہن اپنے شوہر کے پاس واپس جانا چاہتی تھیں، اس لیے انھوں نے اپنے والد پر یہ الزام لگایا۔
خاتون کا کہنا ہے کہ سنہ 2012 میں انھوں نے اپنی مرضی سے سے شادی کی تھی جس پر ان کے والد نے ان کے شوہر پر اغوا کا مقدمہ درج کروایا جو عدم ثبوت کی بنیاد پر عدالت نے خارج کر دیا۔ خاتون کے شوہر کا کہنا ہے کہ پسند کی شادی کے بعد نہ صرف ان پر بلکہ ان کے بھائیوں پر بھی جھوٹے مقدمات درج کرائے گئے اور انھیں بہت پریشان کیا گیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اسی دوران انھیں اغوا کر کے تین ماہ بلوچستان میں رکھا گیا اور ان کے والدین کو کہا گیا کہ پیسے دو یا پھر لڑکی واپس کرو نہیں تو تمہارے لڑکے کو مار دیں گے۔ مدعی خاتون کے مطابق ان کے والد نے یہ شرط رکھی کہ اگر وہ گھر واپس چلی جائیں تو ان کے شوہر کو بازیاب کرائیں گے۔ ’میں نے کہا ٹھیک ہے ایسا کر لیتے ہیں، اس کے بعد میرے شوہر کو رہا کیا گیا۔‘
خاتون کے مطابق سنہ 2013 میں معززین کے ذریعے انھیں والدین کے ساتھ اس شرط پر بھیجا گیا تھا تاکہ باقاعدہ رخصتی کا اہتمام کیا جا سکے۔ خاتون کے شوہر کا کہنا ہے کہ انھوں نے معززین کی بات مان لی تھی اور اپنی بیوی کو ان کے والدین کے حوالے کر دیا۔
خاتون کا دعویٰ ہے کہ وہ اس وقت حاملہ تھیں مگر معززین کے کہنے پر والدین کے گھر چلی گئیں، جہاں پانچ روز بعد ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی اور ان کے والد نے ان کی نومولود بیٹی کو پندرہ دن بعد تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ خاتون نے اپنے والد پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ’میری آنکھوں کے سامنے میری نومولود بیٹی کو زمین پر پٹخا اور لاتیں مار مار کر ہلاک کر دیا۔‘ تاہم خیال رہے کہ خاتون کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں بچی کی ہلاکت کا ذکر شامل نہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جو مقدمے میں بتایا گیا ہے تحقیقات اسی حد تک کی جا رہی ہیں اور خاتون کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ بچی بیماری کی وجہ سے فوت ہو گئی تھی۔
مدعی خاتون کا دعویٰ ہے کہ ان کے والد انھیں بیٹھک میں صفائی کے بہانے بلا کر ریپ کرتے تھے اور اس دوران بنائی گئی ویڈیوز سے انھیں بلیک میل کرتے رہے۔ خاتون کے مطابق ان کے والد نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے کسی کو بتایا تو وہ انھیں جان سے مار دیں گے۔ خاتون کے مطابق ’وہ مجھے گھر میں اور رات کو چارپائی سے باندھ دیتے تھے، پیر میں بندھی ہوئی زنجیر کے ساتھ ویڈیو بھی والد نے ہی بنائی تھی۔ خاتون کا کہنا ہے کہ اپنے والد کے اس عمل کی شکایت انھوں نے متعدد بار گھر والوں اور رشتے داروں سے بھی کی لیکن کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ ’والد کی زیادتی کی شکایت اپنی والدہ، چچا اور والد کے ماموں کو بھی کی، جن کا کہنا تھا کہ زیادتی کر رہا ہے تو ٹھیک ہے لیکن شوہر کے گھر نہیں جا سکو گی۔ میری والدہ نے کہا کہ تم بار بار شکایت کرتی ہو۔ تمہاری ماں کو طلاق ہو جائے گی، تم چپ رہو، میں چپ رہی۔‘
شوہر نے ثبوت مانگا
خاتون کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس ساری صورتحال سے اپنے شوہر کو آگاہ کیا تو اس نے ان کی بات پر یقین ہی نہیں کیا۔ مدعی خاتون کے شوہر فدا حسین کے مطابق ’ایک روز میری بیوی نے کہا میں تمہیں دل کی بات بتاتی ہوں کہ میرے ساتھ کیا ظلم ہوا۔ اس دوران وہ فون پر روتی رہی۔ میں پورا قصہ سننے کے بعد ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کچھ کرے گا۔‘ خاتون کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر کو ثبوت دینے کے لیے مذکورہ ویڈیو بنائی جس کے بعد اس نے معززین سے شکایت کی اور ان سے بھی ویڈیو شیئر کی، جس کے بعد پولیس حرکت میں آ گئی۔
انسپکٹر شکیل بخاری کا کہنا ہے کہ انھیں اطلاع ملی تھی کہ والد نے بیٹی کو حبس بےجا میں رکھا ہوا ہے۔ ان کے مطابق لیڈیز پولیس نے چھاپہ مار کر خاتون کو بازیاب کرا کے تھانے منتقل کیا اور ان کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی۔ پولیس کے مطابق والد کے موبائل سے وہ ویڈیوز بھی برآمد ہوئی ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنی بیٹی کو بلیک میل کرتا تھا۔
ملزم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کی بیٹی نے گھر سے بھاگ کر شادی کی جو دو سال برقرار رہی اور پھر طلاق ہو گئی، جس کے بعد وہ ان کے پاس گھر آ گئیں۔ ان کے مطابق ان کی بیٹی اپنے سابق شوہر کے پاس واپس جانا چاہتی تھی جس پر وہ انھیں منع کرتے تھے۔ پولیس کو تحریری طور پر دیے گئے اپنے بیان میں ملزم نے مزید کہا کہ بڑی بیٹی ہونے کے ناطے گھر کا کھانا ان کی یہ بیٹی ہی بناتی تھی۔
ان کے مطابق کچھ دنوں سے کھانا کھانے کے بعد ان کی طبعیت کچھ عجیب سی ہو جاتی تھی اور چار، پانچ گھنٹوں کے بعد دماغ ماؤف ہو جاتا۔ ان کے مطابق 17 جون 2020 کی دوپہر کو وہ اپنے گھر کی بیٹھک میں نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے کہ ان کی بیٹی نے پیر مار کر انھیں جگایا اور نیم بےہوشی کی حالت میں ان کے ساتھ ’گناہ کا کھیل‘ کھیلا۔ ملزم کے بقول ان کی بیٹی نے منصوبہ بندی کے ساتھ ان کے موبائل سے ہی اس عمل کی ویڈیو بنائی۔ ملزم نے اپنے بیان میں کہا ’میں جب شام کو مکمل ہوش میں آیا تو میری بیٹی نے کہا کہ مجھے میرے شوہر کے پاس جانے دیں ورنہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دوں گی، میرے انکار پر تھوڑی دیر کے بعد پولیس آئی اور انھوں نے مجھے گرفتار کر لیا۔‘ طلاق کے دعوے کے بارے میں خاتون کا مؤقف ہے کہ ’مجھے شوہر نے طلاق نہیں دی تھی۔ والد نے مجھے اسی وجہ سے بٹھایا ہوا تھا کہ میری کہیں اور بھی شادی نہ ہونے دیں۔‘
‘