تحریر : شاہدہ اختر علی
مارچ کا مہینہ آتے ہی ہر سال پوری دنیا میں یوم خواتین بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے،اس کے لئے سرکاری سطح پر بھی اور این جی اوز کے زیر اہتمام بڑے بڑ ے ہوٹلوں اور ہالز میں خوشنما نعروں ساتھ پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیںاور ان پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں،لیکن افسوس صد افسوس غریب اور متوسط خواتین کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیںاور ان مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آتی اور نہ اس طرف توجہ دی جاتی ہے، پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام اس کا سرکاری مذہب ہے اور اسلام نے جتنے حقوق خواتین کو دیے ہیں شاہد ہی کسی دوسرے مذہب اور معاشرے میں خواتین کو حاصل ہوں بحیثیت ماں، بیٹی، بہن اوربیوی عام خاتون کا کردار متعین کر کے عورت کی عزت اور ناموس کی حفاظت کی ہے۔
اگر ہمارا معاشرہ ،حکومت اور قانون ساز ادارے اسلامی تعلیمات سے راہنمائی حاصل کریں اور سنجیدگی کا مظاہر ہ کریں تو تقریبا تمام مسائل جن میں اس وقت عورت گرفتار ہے،وہ سب حل ہو جائیں گے لیکن افسوس سرکاری سطح پر خوشنما نعرے تو لگائے جاتے ہیں اور خواتین کے حقوق کے نام پر کا م کرنے والی این جی اوز فنڈز توجمع کر لیتی ہیں لیکن مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کاروائی نہیں کی جاتی ہے۔ بحیثیت مسلمان جب ہم اسلامی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو نبی کریمۖ پر ایمان لانے والی پہلی ہستی خاتون کی ہے جسے دنیا حضرت خدیجة الکبریٰ کے نام سے یاد کرتی ہے اورآپ نہ صرف ایمان لائیں۔ بلکہ پہلی وحی کے نزول کے بعد آپۖ کو حوصلہ بھی دیا،اس سے قبل خود نبی کریمۖ کو نکاح کا پیغام بھیج کر عورت کے حق آزادی کی ایک مثال قائم کی اور محبت و وفا کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا کہ رہتی دنیا تک ایک عظیم مثال قائم کی،اگر آج ہم حضرت خدیجة الکبریٰ کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے ملک پاکستان کی خواتین کے لئے راہ عمل متعین کریں۔
معاشرے میں اس کے استحصال پر کڑی نظر رکھتے ہوئے محبت و اخوت کا ماحول فراہم کریں گے ،نبی کریمۖ کی سیرت مطہرہ پر عمل کر کے وہی ماحول بنائیں گے جس میں زندگی کے حق سے محروم زندہ درگور کی جانے والی عورت کو انسانیت کا تاج،اور آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہوا اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے اس کو خاندان کا مرکز قرار دیا گیا، ان کی ایسی حوصلہ افزائی کی گئی کہ اس دور میں عورت کے ذہن میں اس غلط فہمی کا تصور تک نہ آیا کہ گھر قید خانہ ہے،بلکہ اس دور کی عورت نے گھر کو جنت بنا کر ایک ایسا کردار متعین کیا کہ جس نے ایسی نسل سامنے لائی اور اس سے ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا جو آج بھی دو ارب لوگوں مثالی نمونہ ہے،اور رہتی دنیا تک رہے گا۔
ہر سال مارچ میں کروڑوں روپے اخراجات کر کے منعقد کیے جانے والے پروگرام دختر مشرق کے اصل مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں،آئیے ان مسائل کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ (١)عورت کے ساتھ بہت بڑا شرعی ظلم یہ ہے کہ اس کو وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ (٢)صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے زچگی کے وقت بارہ ہزار عورتیں لقمہ اجل بن جا تی ہیں۔ (٣)نوے لاکھ لڑکیاں تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ (٤)غیرت کے نام پر قتل ،جبری شادی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا تیسرا خطرناک ملک ہے۔ (٥)قیدی خواتین سے عملے کی جانب سے سختی اور انصاف یا فیصلے میں تاخیر بہت اہم معاملہ ہے۔ (٦)قرآن کے ساتھ نکاح جیسی فرسودہ روایات کی بھینٹ چرھانا۔ (٧)مخلوط نظام تعلیم میں طالبات کے ساتھ اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے ہونے والا جنسی تشدد۔
درج بالا کچھ مسائل ہیں جن کا ہم نے سر سری جائزہ لیا ہے لیکن ایک بات بہت اہمیت کی حامل ہے جس کا تذکرہ میں آخر میں ضروری سمجھتی ہوںکہ کسی قانون کے بغیر امدا د باہمی سے کئی سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں ،ایک مشہور مقولہ ہے عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے،کے تحت ساس ،بہو کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور محبت کے جذبات کا ہونا ضروری ہے،اسی طرح عورت کو دوسری عورتوں کی طرف سے موٹاپے یا کسی اورنقص کی وجہ سے ہنسی یا تمسخر کا نشانہ نہیں بنایا جائے،کسی عورت کو ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر اس سے حسد نہ کینہ جائے۔
دوسری خواتین کی غیبت ،لگائی بجھائی اور جھوٹ سے مکمل اجتناب کیا جائے اور خواتین کو مہر اور وراثت شرعی احکامات سے باخبر کیا جائے،کیونکہ لا علمی کی وجہ سے جہاں وراثت سے محروم رہتی ہیں وہاں اپنا مہر بھی معاف کر بیٹھتی ہیںاور اسی طرح ہم معاشرے میںاسلام کی عظیم خواتین شخصیات کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر معاشرے میں شعوروآگہی فراہم کریں گے تو یقینا ایک دن ہمارا معاشرہ ترقی یافتہ اور خواتین کے حقوق کی ادائیگی میں مثالی معاشرہ بن جائے گا۔
تحریر : شاہدہ اختر علی