تحریر: حفیظ خٹک
شہر قائد سمیت ملک بھر میں خواتین مردوں کی نسبت تعداد میں زیادہ ہیں۔ اقوام متحدہ سال بھر میں موضوعات دے کر مختلف ایام کو منانے کا اہتمام کرتی ہے جس کا مقصد اس دن کے حوالے سے موضوع کو توجہ کے ساتھ اہمیت دینا ہوتا ہے۔ 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اہتمام اسی اقوام متحدہ کی جانب سے کیا جاتا ہے ۔ اس روز کی مناسبت سے بڑے پیمانے پر حکومتی اور عوامی سطح پر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سمیت سوشل میڈیا بھی اس دن کے حوالے سے اہم پروگرامات اور اشاعتوں کا انتظام کرتے ہیں۔
وطن عزیز میں خواتین کا عالمی دن مخصوص انداز میں منایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ ، خود کو سپر پاور کہنے والی ریاستیں، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی توجہ پاکستان کے حالات پر ان دنوں نہیں بلکہ کئی عشروں سے مرکوز ہیں۔ عالمی سطح پر جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار اہمیت کا حامل رہا ہے۔ خواتین کے حقوق کی بات ہو یا انصاف کی سب اس معاملے میں حکومت کی جانب متوجہ رہتی ہیں۔اس صورتحال میں اگر جائزہ لیا جائے تو یہ نقطہ بھی عیاں ہے کہ پاکستان میں خواتین اور بچوں کے معاملات پر توجہ دیگر مسائل سے کہیں زیادہ رہتی ہے ۔ عالمی ادارے اپنے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے بڑی مقدار میں فنڈز فراہم کرتے ہیں ۔ خواتین کے مسائل حل کرنے کا مسئلہ ہو ، بچوں کی تعلیم کو بڑھانے کے ساتھ ان کی صحت ، سبھی ادارے فنڈز فراہم کرتے ہوئے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔
یوم خواتین کے حوالے سے خواتین کے حقوق کیلئے ، ان کی آواز کو اجاگر کرنے اور مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے متعدد خواتین کی تنظمیں اور این جی اووز خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ ماضی میں جب طالبان نے اسکول سے واپس آنے والی طالبہ ملالہ یوسف زئی اور ان کی ایک اور سہیلی پر حملہ کیا تو اس واقعے پر قومی فوج کے سربراہ نے عملی اقدام اٹھایا۔ دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں کو تیز کیا گیا اور ملالہ یوسف زئی کو زخمی حالت میں برطانیہ کے ہسپتال منقتل کیا گیا ۔ ملک کے اند ر اور ملک کے باہر متعدد این جی اووز اور عالمی اداروں سمیت ممالک نے اس واقعے کی مذمت کی اور ملالہ یوسف زئی کی حالت میں بہتری کیلئے ہسپتال کی انتظامیہ کو ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی اپیل کی۔ صدر و وزیر اعظم سمیت پوری قوم ملالہ یوسف زئی اور اس واقعے میں زخمی ہونے والی دیگر طالبات کی جلد صحتیابی کیلئے دعاگو رہے۔ انسانی حقوق اور خواتین و بچوں کیلئے کام کرنے والی دیگر کی تنظیموں نے ملالہ یوسف زئی کیلئے ہمدردی کے جذبات کے ساتھ ان کا ساتھ دیا ۔ ملامہ صحتیاب ہوگئیں اور انہوں نے تعلیم کیلئے اپنی کاوشوں کو برقرار رکھا ان کی خدمات کے سبب گذشتہ برس انہیں نوبل ایوارڈ تک سے نوازا گیا۔
عالمی سطح پر خواتین کے اس دن کو منانے والے ملالہ یوسف زئی کی خدمات کو دیگر خواتین اور بچوں کے سامنے رکھتے ہیں ۔ملکی و بین الااقوامی سطح پر یوم خواتین کے دن کو منانے والے پاکستان میں ان خواتین کے نمایاں کرداروں کو بھی اپنے سامنے رکھیں گے جنہوں نے ایک خاتون کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت کو جاری رکھا اور اپنی انتھک محنت کے سبب ملک و قوم کا نام دنیا میں روشن کیا ۔ فلمی دنیا میں آسکر ایوراڈ کی تقریب کو سب سے زیادہ اہمیت اور ترجیح دی جاتی ہے ۔ سال میں ایک بار منعقد ہونے والی یہ تقریب ملکی اور عالمی سطح پر کام کرنے والوں کیلئے توجہ کا باعث بن جاتی ہے ۔ شعبہ اسٹیج میں کام کرنے والے ہر شعبے کے ماہرین کو ان کی بیش بہا خدمات کے عیوض آسکر ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔ چند روز قبل پاکستان کی شرمین عبید چنائے کو اعلی پائے کی دستاویزی فلم بنانے پر آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ عالمی سطح پر خواتین کے دن کو منانے والے شرمین عبیدکو دیگر خواتین کی خدمات کو اجاگر کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کیلئے سب کے سامنے رکھیں گے۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر باکردار ، حوصلہ مند ، نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ،ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے والی خواتین کو منتظمین سامنے رکھتے ہیں۔ وہ ان کے اذکار کے ذریعے اپنی تقریبات کو تو کامیاب بنالیتے ہیں لیکن ایسے مواقعوں پر متعدد ایسی خواتین کا ذکر تک نہیں کیا جاتا جوقومی و عالمی سطح پر ظلم سہ رہی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام ایسی خواتین میں نمایاں ہے۔ انہیں برسوں قبل پاکستان سے اغوا کر کے افغانستان کے جیل اور بعد ازاں وہاں سے امریکہ منتقل کیا گیا ۔ پانچ برس تک ان کے اہل خانہ کو خاموش رہنے کی تلقین کی گئی اور بعدا زاں جب ان کا ذکر سامنے آیا تو خواتین کیلئے کام کرنے والی این جی اووز سمیت دیگر تنظیموں نے ان کی رہائی کیلئے جدوجہد کی ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ناکردہ گناہوں کی 86 برس کی سزا سنائی گئی جووہ کئی برسوں سے امریکی جیل میں بھگت رہی ہیں۔
اس خاتون کیلئے ، اس کی رہائی ، آزادی اور وطن واپسی کیلئے جدوجہد تاحال جاری ہے اور وہ جاری رہے گی تاہم عالمی سطح پر یوم خواتین منانے والی اقوام متحدہ اس مظلوم کیلئے کوئی خدمت سرانجام نہیں دے گا۔ اسی اقوام متحدہ کی خواتین این جی اووز تک نے اس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہائی دلوانے میں کوئی کردار ادا نہیںکیا ہے ۔ حالانکہ اب تو امریکہ کی اپنی عوام بھی اس مظلوم عورت کی رہائی کیلئے آواز اٹھانے لگ گئی ہے۔ پاکستان ، یورپ ، خلیجی و افریقی ممالک تک میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے آواز اب ایک باقاعدہ جدوجہد کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ خواتین کے اس عالمی دن کے موقع پر اور اس دن کے علاوہ عام ایام میں بھی ڈاکٹر عافیہ اور اس سمیت دیگر سب مظلوم خواتین کیلئے نہ صرف آواز اٹھائی جانی چاہئے بلکہ انہیں ان کے حقوق فراہم کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کو بڑھانا چاہئے۔
شہر قائد کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت ایک اور خاتون امنہ مسعود جنجوعہ کا شمار بھی پاکستان کی ایسی خواتین میں ہوتا ہے جن کے ساتھ ظلم ہوا ۔ برسوں قبل ان کے شوہر کو نامعلوم افراد نے اغوا کر کے نامعلوم مقام پر پہنچادیا اور امنہ مسعود جنجوعہ نے زندگی میں پہلی بار اپنے شوہر کی تلاش کیلئے اپنے گھر سے قدم باہر نکالا۔ برسوں کی جدوجہد خواتین کے اس عالمی دن کے موقع پر بھی جاری ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ان کا شریک حیات گھر باحفاظت واپس نہیں پہنچ جاتا ۔ امنہ مسعود دجنجوعہ کی محنتوں کے نتیجے میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا جس کو ڈیفنس ہیومن رائٹس آف پاکستان کا نام دیا گیا۔ مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں امنہ مسعود جنجوعہ کو بارہا تشدد کے ساتھ قید و بند کا بھی وقت سہنا پڑا۔
لیکن ان کی جدوجہد کسی بھی موقع پر ختم نہیں ہوئی۔ وہ جاری تھی وہ جاری ہے اور وہ جاری رہے گی۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں ان کا شوہر تو واپس نہیں آسکا لیکن یہ ضرور ہوا کہ 800 سے زائد افراد جو لاپتہ ہوگئے تھے ان کا نہ صرف پتہ چلا بلکہ وہ اپنے گھروں کو واپس پہنچ گئے اور آج وہ سکون و اطمینان کے ساتھ اپنی زندگی کے ایام کو گذار رہے ہیں۔ عالمی یوم خواتین کو منانے والی حکومتوں و دیگر تنظیموں کو امنہ مسعود جنجوعہ کی ان خدمات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے اقدامات بھی سرانجام دینے چاہئیں۔
امنہ مسعود جنجوعہ کی جدوجہد ایک خاتون کی جدوجہد ہے اور ان کی جدوجہد کو عالمی یوم خواتین کے موقع پر ذرائع ابلاغ کو ترجیحی بنیادوں پر نمایاں مقام دینا چاہئے اس کے ساتھ برسوں سے امریکہ میں قید اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے جدوجہد کرنے والی ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی عافیہ موومنٹ کو بھی اشاعت کے ساتھ نمایاں مقام دینا چاہئے تاکہ ان کی واپسی کیلئے حکومت کی جانب سے عملی اقدامات کئے جاسکیں اور ایک بہن و بیٹی برسوں بعد اپنے ملک اپنے گھر اپنے بچوں کے پاس پہنچ سکیںاور اس طرح سے خواتین کے عالمی دن کا حق ادا ہو سکے۔
تحریر: حفیظ خٹک
hafikht@gmail.com