تحریر : میر افسر امان
اسلام میں عورتوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اسلام میں عورتوں کو جو مقام دیا گیا وہ دنیا کے کسی مذہب میں نہیں دیا گیا۔ ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ حج الوداع کے موقع پر اس کی خاص تاکید بھی کی تھی۔ اسلامی ملکوں میں فرسودہ رسم رواج کی وجہ سے عورتوں کے حقوق سلب کر لیے گئے ہیں لیکن اب بھی اسلام کی تعلیمات سے واقف گھروں میں عورتوں کے ساتھ احترام کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔
حکومتیں مغرب کے پریشر کے تحت کبھی کبھی اسلامی قانون سے متصادم نمائشی قانون بناتی رہتی ہے جس سے عورتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں ہوتا۔ حکومت کو چاہیے کہ پہلے سے موجود اسلامی کے قوانین پر عمل کروائے۔ عورتوں حقوق کے نام پر ایک بل ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں قومی اسمبلی نے بھی پاس کیا تھا جس میں کسی بھی جگہ فحاشی کا اڈا قائم ہو اور بدکاری ہو رہی ہو تو کسی بھی شہری کی طرف سے اُسے پولیس میں رپورٹ کرنے کے بجائے عدالت سے رجوع کرنے کا کہا گیا تھااور پھر عدالت اُس پر کوئی بھی کاروائی کرے گی۔ اعتراض کرنے والوں نے یہ کہا تھا کہ بڑے شہروں میں تو شاید ایک وقت تک عدلیہ کاروائی کر بھی لے گی مگر گائوں جہاں عدالت تک رسائی دُور ہونے کی وجہ بے حیاء بدکارلوگ بچ جانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس میں جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ عورت پولیس اسٹیشن میں محفوظ نہیں رہ سکتی تھی۔
بجائے کہ پولیس کے مروجہ انتظام کے تحت ایسے کیسوں سے نپٹا جاتا اور اگر پولیس میں کوئی خرابی ہے تو اس کی اصلاح کا کام کیا جاتا اور عورت کو تحفط فراہم کیا جاتا، ایک ایسا نظام وضع کیا گیا تھا جس میں انصاف تک پہنچنے میں دیر کا سبب بنا تھا۔ اس بل کی وجہ سے بدکار لوگ معاشرے کے دبائو سے آزاد ہوئے تھے۔ روشن خیال ایجنڈے پر گامزن ڈکٹیٹر مشرف اپنے مغربی آقائوں کے ایجنڈے کی دوڑ میں شریک ہو کر ایسا کر گیا تھا۔ اب اسی روش پر چلتے ہوئے شریف براداران نے بھی ایسے کام شروع کئے ہوئے ہیں۔ پہلے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب نے کہا تھا کہ ان کی حکومت سیکولر ایجنڈے پر عمل پیرا ہو گی۔اب ان کے بھائی نے پنجاب اسمبلی سے ایک ایسا بل پاس کروایا ہے جو پاکستان کے آئین کے خلاف ہے ۔ ١٩٧٣ ء کے آئین پاکستان میں لکھا ہے کہ پاکستان میں اسلام کے خلاف کوئی بھی قانون نہیں بن سکتا۔ ملک کے موجود غیر اسلامی قوانین کو بتدریج اسلامی بنایا جائے گا۔
آئین کے تحت قائم اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی حاصل کی جائے گی مگر اس پر عمل کرنے کے بجائے الٹا غیر اسلامی قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ صاحبو! ہر معاشرے کی اپنی قدریں اور رواج ہوتے ہیں مغرب میں عورت اور مرد کی آزادی کے نام پر عورت کو شمع محفل بنا دیا گیا۔ عورت مرد کے برابر کارخانوں میں کام کرتی ہے اپنی روزی خود کماتی ہے۔ عورت وہ سب کام کرتی ہے جو مرد کے کرنے کے ہیں اس لیے پھر عورت کے متعلق قانون بھی مغرب نے ایسے ہی ترتیب دیے ہیں۔مگر اسلامی معاشرے میں عورت پر معاش کا بوجھ نہیں ڈالا گیا یہ بوجھ مرد پر ڈالا گیا ہے۔ مرد کام کاج کر کے اپنے بیوی بچوں کے لیے روزی کماتاہے عورت کا کام گھر میں بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال تجویز کیا گیا۔ نکاح سے پہلے عورت والدین اور شادی کے بعد اپنے خاوند کے حصار میں زندگی گزارتی ہیں یعنی والدین اور شوہر عورت کے محافظ ہوتے ہیں۔ ہاںعورت ضرورت کے تحت باہر نکل کر اپنے فرائض اداکر سکتی ہے۔
اسلامی معاشرے میں عورت گھر کی ملکہ ہے۔ مغربی معاشرے کی طرح شمع محفل نہیں ہے۔ کیونکہ مسلم ملکوں میں مثالی اسلامی معاشرہ نہیں اس لیے اس میں خرابیاں بھی پیدا ہو گئیں ہیں۔بعض موقعوں پر مرد عورتوں کی مار پٹائی کرتے ہیں جو ناجائز ہے۔ غیرت کے نام پر عورت کے قتل کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا نہ ہی ونی اور قرآن کے ساتھ شادی کا تصور ہے۔ یہ خرابیاں کچھ تو جاگیرداروں کی وجہ سے ہیں وہ اسلام میںدیے گئے عورتوں کے حصے کو ہڑپ کرنے کی وجہ ہے۔انہوں ہی نے غیرت کے نام پر عورتوں کوقتل کرنا شروع کیا جو بعد میں عام ہو گیا۔ وہ عورتوں کو اسلام میں دیے گئے جاگیروں میں حصہ نہیں دینا چاہتے۔ دوسری بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے اس میں مذہبی حلقوں کا بھی دخل ہے وہ اسلام کے دیے گئے عورتوں کے حقوق کا ابلاغ صحیح طریقوں سے نہیں کرتے۔ ان کے پاس مغرب کی یلغار کا توڑ کرنے کی کوئی اسکیم نہیں ہے وہ ان مسائل کو چھوڑ کر اپنے مسلک کی تعلیم دینے میں مصروف رہتے ہیں۔
ہماری حکومتیں بھی اسلام میں تعین کردہ خواتین کے حقوق کی تعلیم کو چھوڑ کر کھیل تماشوں خرچ کرتے رہتے ہیں مگر ان مسائل پر ان کا دھیان نہیں جاتا۔ ان خرابیوں کو ختم کرنے کے لیے معاشرہ اور حکومت دونوں ذمہ دار ہیں۔ دوسری طرف ان خرابیوں کو اُچھال کرکچھ بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوزغیر اسلام مغربی طرز کے قوانین مسلم معاشرے میں رائج کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل رہتی ہیں۔ وہ اسلام کے مشترکہ خاندانی نظام کو تباہ کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں۔ اس کے لیے مغرب ان کو کثیر فنڈ مہیا کرتا ہے۔پاکستان کا مغربی فنڈڈ میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ پنجاب اسمبلی سے پاس شدہ قانون جو اخبارات میںرپورٹ ہوا ہے، کے مطابق اگر عورت مرد کی طرف سے تشدد کی شکایت کرے تو مرد کو دو دن کے لیے گھر سے نکالا جا سکتا ہے۔مرد کو اس جرم میں جرمانہ اور سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
مرد کو کڑا بھی پہنا دیا جائے گا شاید اس میں چپ بھی لگی ہو گی۔مغربی معاشرے میں تو شاید یہ صحیح ہو کہ مرد کی طرح عورت بھی اپنی معاش کا انتظام خود کرتی ہے اس کے لیے مرد پر پابندی نہیں۔ مگر کس قدر جہالت کی بات ہے کہ جس معاشرے میں مرد قوام ہے اور اُس پر عورت اور بچوں کی معاش کی بھی ذمہ داری ہے اگر وہ جہالت کی وجہ سے عورت پر کبھی کبھار تشدد کرتا ہے تو اسے گھر سے باہر نکال دیا جائے اور اور اُس کو چپ والا کڑا بھی پہنا دیا جائے گا۔ جب مرد کو ایسا اشتعال دلایا جائے گا توپھر اس کا رویہ کیا ہو گا اور اگر مرد بے عزتی سمجھتے ہوئے اپنے گھر سے ہی کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ اس حر کت کے بعد عورت اور بچوں کی معاش کا انتظام مغرب زدہ این جی اوز یا شہباز شریف کی حکومت کرے گی۔ اور اگر مرد شکایت کرنے والی عورت کو طلاق دے دے گا تو کیا ہو گا۔ اس سے اسلامی معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔ہماری سمجھ سے با لاتر ہے کہ پنجاب اسمبلی میں بیٹھے خواتین و مرد حضرات ارکان نے ان اسباب پر ضررو غور کیا ہو گا یا بغیر سوچے سمجھے دستخط کر دیے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ صاحب نے تو مشیرتعلیم ایک عیسائی کو بنایا ہوا ہے جس کو اسلامی معاشرے سے دور کا بھی واسطہ نہیں وہ تو مغرب کا نمائندہ ہے وہ تو وہی مشورہ دے گا جو اس کے معاشرے کو راج کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔اس ہی کی سفارش پر اس سے قبل حکومت پنجاب نے پہلی کلاس سے انگریزی نافذ کی ہوئی ہے جو اسلامی معاشرے کی سوچ کے بر عکس ہے۔
ویسے بھی تعلیم اپنی مادری زبان میںدینی چاہیے۔ شاید پنجاب کے وزیر اعلیٰ صاحب نے عورتوں کے حقوق کے نام پر بھی کسی انگریز کے مشورے پر ایسا کیا ہو گا۔گو کہ اس بل پر تمام مذہبی حلقوں نے ناپسند دیدگی کا اظہار کیا ہے۔ مگرایک عالم جو قومی اسمبلی میں بھی موجود ہے غیر مناسب جملے کہے ہیں جو ایک عالم کو زیب نہیں دیتے۔ اس بل کی خرابیوں پر بات کی جاتی تو زیادہ مناسب ہوتا۔ علماء کو چاہیے کہ مساجد میں جمعہ کے خطبوں میں اس بل کی خرابیوں پربحث کی جائے۔ اس پر تمام علماء کا اجلاس بلا کر اس بل کی توڑ کی کوشش کی جائے۔ پنجاب حکومت پر پریشر ڈال کر اس بل کو واپس لیے کے لیے مجبور کیا جائے۔ ملک میں اسلامی قوانین پر عمل کرنے کے لیے حکومت کو مجبور کیا جائے۔ اللہ ہمارے معاشرے کو مغرب کے شر سے محفوظ رکھے آمین۔
تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان