تحریر: علی عمران شاہین
پیارے نبی محمد کریمۖ کے ایک خادم کا نام انجشہ تھا۔ حج کا موسم تھا، انجشہ نے حج میں شریک خواتین کے اونٹ تھام رکھے تھے جن کے اوپر رکھے پالانوں میں خواتین سوار تھیں۔ خوبصورت آواز رکھنے والے انجشہ نے اونٹوں کو ہانکنے کے لئے آواز لگائی تو اونٹ تیز چلنے لگے۔ یہ منظر دیکھتے ہی نبی رحمت ۖ فوری گویا ہوئے ”اے انجشہ! رک جا قواریر، (آبگینوں) آبگینوں کو کہیں توڑ نہ دینا…”قواریر انتہائی نازک کانچ سے بنا وہ برتن بھی ہوتا ہے جو معمولی ٹھوکر سے ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے، انہی قواریر کا ذکرقرآن میںآتا ہے کہ جنتیوں کے لئے اللہ نے جو پیمانے بنائے ہیں، وہ چاندی سے بنے، انتہائی نازک برتن ہوں گے…پاکستان میں ان دنوں جب سے تحفظ حقوق خواتین کے نام پر نئے قانون کی بحث چھڑی ہے تو پیارے نبی محمدۖ کی یہ حدیث مبارکہ بار بار یاد آ رہی ہے کہ ہمارے سلطان کہلوانے والے آج خواتین کی حفاظت کیلئے یوں سرگرم نظر آنے کی کوشش میں ہیں کہ جیسے ان سے پہلے خواتین کے حقوق کے بارے میں اسلام نے کبھی بات ہی نہیں کی۔ وہ اسلام جو خواتین کو معمولی ٹھوکرلگنا برداشت نہ کرتا ہو، اسے چھوڑ کر نئے قوانین بنانے والے کلمہ گو نجانے کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ کوئی ایک ہفتہ پہلے ہی کی تو کہانی ہے کہ یورپ کے ایک ترقی یافتہ ملک جمہوریہ چیک کی سابق ملکہ حسن مارکیٹا کورنکووانے اسلام کو قبول کر لیا اورسابقہ زندگی سے تائب ہو کر حجاب اختیار کر لیا ہے۔
وہ اسلام قبول کرنے کے بعد وطن چھوڑ کر دبئی میں مقیم ہو گئی ہیںتو اپنا اسلامی نام مریم رکھ لیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اسلام میں خواتین کو ملنے والے مرتبے نے انہیں دین حنیف کی جانب مائل کیا تو 3سال تک سوچ بچار کے بعدمیں نے دبئی میں قبول اسلام کا اعلان کیا۔ لندن سے شائع ہونے والے عرب جریدے القدس العربی کے مطابق سابقہ ملکہ حسن، بین الاقوامی شہرت یافتہ پروڈکشن ڈیزائز، سپر ماڈل اور فلمی اداکارہ مارکیٹا کورنکووا نے اسلام قبول کر کے لاکھوں مداحوں کو حیران کر دیا ۔ مارکیٹا کورنکووا 2012ء میں اٹلی میں ہونے والے عالمی مقابلۂ حسن میں شامل تھیں،جس کے بعد انہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہو ئی تھی۔ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی تشہیر کیلئے مارکیٹا کی خدمات حاصل کیں اور وہ ایک سپرماڈل بن گئیں تو ہالی ووڈ کی فلم نگری نے بھی انہیں فلموں میں کام کی پیشکش کی۔ دنیا بھر میں شائقین سے داد وصول کرنے والی فلم ME 90 Love میں مارکیٹا نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد وہ ماڈلنگ کے شعبے سے مکمل طور پر منسلک ہو گئیں ۔وہ FAMU (پراگ فلم اکیڈمی) میں ڈائریکٹر کے عہدے پر اب تک فائز رہیں۔
وہ اب بھی کئی عالمی کمپنیوں میں مختلف کلیدی عہدوں پر فائز ہیں توخود بھی عالمی شہرت یافتہ ڈیزائر ہیں۔چیک دارالحکومت پراگ میں ان کی اپنی ایڈورٹائزنگ کمپنی بھی ہے۔ نو مسلمہ مریم نے پراگ کی چارلس یونیورسٹی سے انگلش میں ماسٹر ڈگری حاصل کی جس کے بعد انہوں نے برطانیہ کے رائل کالج آف آرٹس کے ذیلی ادارے نیشنل فلم اینڈ ٹی وی سکول سے پروڈکشن ڈیزائن میں ایم اے کیا۔ اسی دوران وہ بی بی سی کے ایک پروگرام میں بھی کام کرتی رہیں۔ ملکہ حسن منتخب ہونے کے بعد جہاں مارکیٹا پر دولت کی بارش شروع ہوئی وہیں وہ شہرت کی بلندیوں پر بھی پہنچ گئیں مگرمارکیٹا کا کہنا تھاکہ میںسب کچھ ہوتے ہوئے بھی اندر سے بے چین تھی، جس سے نجات کے لئے میں نے ہر حربہ آزما یا ۔ شراب نوشی، موسیقی اور جوابازی سمیت کیا کچھ نہیں کیا مگر روح کی پیاس نہیںبجھی۔پھر میں نے ایک دوست کے مشورے پر مذاہب کا مطالعہ شروع کیا۔ پیدائشی عیسائی ہونے کے باوجود عیسائیت کے دامن میں مجھے کبھی سکون نہیں ملا جس سے مایوس ہو کر میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ اسلام نے عورت کو جو مقدس مقام دیا ، اس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔بالآخر میں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کر لیا ۔اس کے بعدمیں عملی طور پر مسلم معاشرے میں گھل مل کر رہناچاہتی تھی، سومیں متحدہ عرب امارات آ گئی اور اب میں نے مستقل طور پر یہیں رہنے کا فیصلہ کر لیاہے۔ ہمیں بچپن سے یہ بتایا گیا کہ مسلمانوں کے ہاں عورت کو کوئی حیثیت حاصل نہیں، مگرمجھ پراب یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ اسلام ہی نے عورت کو مقدس مقام عطا کیا۔
یہ ایک کہانی صرف مارکیٹا کورنیکووا تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس وقت دولت کی ریل پیل والے یورپ کی چکا چوند روشنیوں سے متاثر ہو کر اس کے پیچھے بھگٹٹ بھاگنے والوں کو شاید علم نہیں کہ یورپ میں اس وقت سب سے زیادہ وہی خواتین اسلام قبول کر رہی ہیں کہ جنہیں یہ اسلام سے ہٹ کر اپنی طرف سے ”جبری حقوق” دینے کو بے چین ہیں۔ ایسے غلاموںہی کے آقا ملک برطانیہ کی صورتحال سب سے حیران کن ہے جہاں گزشتہ کچھ ہی عرصہ میں ایک لاکھ سے زائد خواتین اسلام قبول کر چکی ہیں جن کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ سبھی نومسلمات کہتی ملیں گی کہ انہیں جو سکون اور روشنی یہاں میسر ہوئی ہے، وہ اس سے پہلے تو ان کے لئے ناقابل تصور تھی۔اسی مغرب نے عورت کو ہر لحاظ سے پیسہ کمانے کی مشین یا ہزاروں سال پہلے جیسی عیش و عشرت کا سامان بنا کر رکھ دیا تو حالات بدلنے میں اب دیر نہیں لگ پا رہی۔
یہ اسلام ہی تھا کہ جس کی کتاب قرآن مجید نے مرد عورت دونوں کیلئے برابر اجر و جزاء کا فیصلہ سنایا۔ اس اسلام کے آنے کے بعد ہی بچیوں کو زندہ دفن ہونے سے نجات ملی۔ یہ رسم آج کے” جدید ترین دور” میں ہر ملک میں یوں ملے گی کہ پیدائش سے پہلے الٹرا سائونڈ ٹیسٹ کروا کر بچی ہونے کی صورت میں اس کا قتل ہر روز ہزاروں کی تعداد میں ہو رہا ہے۔ بات زندہ دفن کرنے سے بہت آگے یعنی پیدائش سے بھی پہلے قتل تک پہنچ چکی لیکن اس پر کبھی کوئی بات نہیں کرتا اور نہ کبھی اس جرم میں معاونت کرنے والے کسی ڈاکٹر یا نرس کو کبھی پوچھ گچھ تک ہوتی ہے۔
ہاں! یہ اسلام ہی تھا جس نے عورت کے لئے نان و نفقہ، تربیت و حفاظت اور ہر طرح کی سہولت و آرام کی فراہمی کا ذمہ مرد کے حوالے کر دیا کہ عورت کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اسی عورت کو حق ملکیت دے دیا ۔ وہ نہ صرف خود کما سکتی ہے بلکہ حق وراثت کے تحت جائداد کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ عورت ہی کو بطور ماں سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دے کر فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ یعنی سارے ہی اعلیٰ درجے عطا کر کے جنت تک اس کے قدموں میں رکھ دی۔ پیارے نبیۖ نے بیٹیوں کی اچھی پرورش اور نگہداشت پر جنت میں اپنے ساتھ رہنے کی بشارت سنا دی۔ صحیح بخاری میں روایت ہے اللہ کے نبیۖ کے پاس ایک صحابی حاضر ہوئے او رعرض کیا کہ فلاں غزوہ میں میرا نام لکھ دیا گیا ہے اور میری بیوی تو حج کیلئے جا رہی ہے۔ آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ” واپس جائو اور اپنی بیوی کے ساتھ حج پر چلے جائو۔ ”اسلام سے پہلے عورت کو لونڈی بنانا عام رواج تھا۔ اسلام نے انہی لونڈیوں کو برابر کے حقوق دے کر ان کی آزادی کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی فرمائی۔
آپۖ نے تو فرما دیا کہ اگر کسی شخص کے پاس لونڈی ہو، پھر وہ اسے خوب اچھی تعلیم دے اور اسے خوب اچھے آداب زندگی سکھائے، پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرے تو اس کے لئے دوہرا اجر ہے۔ (صحیح بخاری)پیارے نبیۖ فرما رہے ہیں کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی، اسے جبراً سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی، اس لئے اسے ایسے ہی رہنے دو۔ آپۖ نے فرمایا کہ تم (میری امت کے لوگوں میں سے) سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر (یعنی اپنی بیوی )کے ساتھ اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھا ہوں۔ سارا عالم تو سب سے بڑھ کراس اسلام کے سایہ رحمت میں پناہ لے اور اس اسلام کے ہی نام لیوا یہ سب چھوڑ کر نئی قانون سازیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔جنہیں یہ بھی نظر نہیں آتا کہ یہاں تو عورت پر کوئی جبر نہیں۔اگر وہ شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو خلع کی سہولت موجود ہے۔کمال حیرت ہے ذرا دیکھئے کہ ایسوں کو جہیز جیسی لعنتیں کبھی نظر نہیں آتیںاور نہ اس پر کبھی پابندی کی بات ہوتی ہے کہ جس کے باعث خواتین سب سے زیادہ استحصال اور ظلم کا شکار ہیں۔لاکھوں شادیاں ہو نہیں پا رہیں، اگر شادی ہو جائے توگھر برباد ہوتے دیر نہیں لگتی۔ آخر ان سب میں سے کسی کی نگاہیں اس طرف کیوں نہیں جاتیں؟
تحریر: علی عمران شاہین
برائے رابطہ:0321-4646375