تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال
عورت معاشرے کا نصف ہے۔ حیات انسانی کا قیام اسی کے وجود سے عبارت ہے۔ دور جدید میں عورت کے مقام و مرتبہ اور حیثیت کو دانش ور ں نے سلجھانے کے چکر میں اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ الفاظ کے معنی بدل دیئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہر طبقہ، مذہب، گروہ انسانی، معاشرے، تہذیب و تمدن میں عورت کی حیثیت کے بارے میں الگ الگ نظریہ قائم ہے، اسی وجہ سے اختلاف ہے۔
عورت معاشرے میں سب سے اہم کردار عائلی زندگی میں ادا کر رہی ہے ۔ویسے عورت چاہے عائلی کردار ادا کر رہی ہو یااجتماعی اس کے چار جائز رشتے ہیں۔ مثلاََ بیٹی ،بہن،بیوی اور ماں ۔پانچواں رشتہ جسے محبوبہ کہ سکتے ہیں مغرب میں اسے گرل فرینڈ کا نام دیا گیا ہے ۔جسے کافی حد تک داشتہ بھی کہا جا سکتا ہے ۔اسے آجکل عورتوں کی آزادی کا سمبل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔جس کا رشتہ ہی ناجائز ہے۔جسے کوئی کسی بھی معاشرے میں قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔
بعض ایشوز کو جو کسی حد تک خواتین کے مسائل بھی ہیں۔میں نے کسی حد تک کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ خواتین کے اصل مسائل اور ہیں جن پر بعد میں بات کرتے ہیں۔ چند نام نہاد این جی اوز میڈیا کے ذریعے ہائی لائٹ کرکے دنیا میں اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں، جن کی وجہ سے ”حقوق نسواں ایکٹ” کے نام سے پہلے صدر پرویز مشرف کے دور میں ایک بل پاس کروایا گیا تھا جس کے خلاف شریعت ہونے پر پورے ملک کی مذہبی جماعتوں اور قانونی ماہرین کا اتفاق ہے ۔اور چند دن قبل ایک اور بل تشدد سے تحفظ ۔پنجاب اسمبلی سے پاس ہوا ہے۔
جس کو پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر قائم ہوا کی بہت سی مذہبی جماعتوں نے غیر اسلامی قرار دے دیا ہے ۔جن میں پیش پیش مولانا فضل الرحمن ہیں۔دکھ کی بات یہ ہے کہ حقوق نسواں کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی اکثر این جی اوز اس اہم موقع پر منفی کردار ادا کررہی ہیں جو کردار ان این جی اوز نے ادا کیا ہے، اس سے ملک کی اور اسلام کی کچھ خدمت نہیں ہوئی بلکہ یوں کہیے کہ اس سے حقوق نسواں کا بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ہاں اس سے یہ ضرور ہوا کہ خواتین کے اصل مسائل اور حقوق سے نہ صرف خواتین بلکہ دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کی توجہ ضرور ہٹ جاتی ہے ۔اسلام نے خواتین کو زمینوں اور جائیدادوں میں وراثت کا مکمل حق دیا ہے ۔اسی طرح مہر کی رقم کی مکمل ادائیگی کا مسئلہ ہے ۔پھر بچیوں کی مرضی کے خلاف جبری شادیاں ہیں۔
بے سہارا دیہی خواتین کی کفالت کے لئے چھوٹے منصوبوں کی تیاری کا اداروں کا فقدان ہے ۔عورتوں کی بنائی ہوئی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لئے ساز گار ماحول کا نہ ہونا ۔غربت سے جنم لینے والے مسائل مثلاََ بھٹہ پر مزدوری کرنے والی خواتین کارکنوں کے ہر طرح کے استحصال کاختم کیا جانا جیسے اہم مسائل۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایسا بل پیش کیا جاتا جس میں خواتین کو ان کے یہ جائز حقوق دلائے جاتے ۔ لیکن ان نام نہاد مسلمانوں اور نام نہاد این جی اوز کو ان مسائل سے کوئی غرض نہیں ہے، ان کی سوچ کی سوئی عورت کو اشیائے ضرورت کی فروخت کے لئے اشتہارات کی زینت بنانا، اس کی تمام تر نسوانیت، عصمت و پاکیزگی کو داؤ پر لگانا اور مزید اس کو خواتین کی آزادی ، روشن خیالی کا نام دینا بس ان ہی مسائل پر اٹکی ہوئی ہے۔
ہر سال خواتین کے حقوق کا عالمی دن 8 مارچ کو منایا جاتا ہے ۔پوری دنیا میں سیمینار ہوتے ہیں ۔یہ دن دنیا بھر میں خواتین کے حقوق ،ان کے مسائل ،اور ان کے حل کے لیے منایا جاتا ہے ،اس دن کی ابتدا آج سے 109 سال پرانی بات ہے،جب نیویارک میں ملبوسات کی صنعت سے منسلک خواتین نے دس گھنٹے کی ملازمت کے عوض تنخواہیں بڑھانے کے لیے جدوجہد شروع کی ،احتجاج کیا تو پولیس نے لاٹھی چارج کیا ،ایک سال بعد1908 ء میں خواتین نے ووٹ کے حق کے لیے جدوجہد شروع کی ،ان پر بھی بے پناہ تشدد کیا گیا۔
خواتین کی طرف اپنے حقوق کے لیے جدو جہد جاری رہی جو آج تک جاری ہے ،خواتین نے اپنے حقوق کے لیے اپنی جدو جہد جاری رکھی اور 1910 ء میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس ہوئی جس میں 17 ممالک سے خواتین شریک ہوئیں۔ جس میں خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔یہ سب جدو جہد رنگ لائی اور آخر کار اقوام متحدہ نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کا اعلان کر دیا۔ اس دن کو منانے سے کیا ہونا تھا ۔کیا ہو رہا ہے کیا۔ کیا ان کے حقوق ان کو مل گئے۔ ایسا تو کچھ نہیں ہوا۔
خواتین کے مسائل پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں، جن میں سے ایک الجھا ہوا مسئلہ یہ بھی ہے کہ خواتین کے اصل مسائل کیا ہیں۔ان سے خواتین کی توجہ ہٹ چکی ہے۔آج بھی دنیا کے ہر خطے میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے ۔ہر خطے میں ،علاقے میں اس کا انداز مختلف ہے ۔امریکہ میں ہر چھ منٹ بعد ایک عورت سے زیادتی ہو رہی ہے ۔بھارت میں ہر چھ گھنٹے بعد ایک شادی شدہ عورت کو تشدد سے مار دیا جاتا ہے۔پاکستان میں ایک دن میں دو خواتین کو غیرت ،اور دیگر رسموں کی وجہ سے قتل کر دیا جاتا ہے ۔پوری دنیا میں جنسی کاروبار کے لیے خواتین کو بیچ دیا جاتا ہے اور یہ بہت بڑے کاروبار کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
بحثیت مجموعی پوری دنیا میں عورت کا جنس کی وجہ سے اسکو استعمال کیا جا رہا ہے ۔جو ننگے پن کو آزادی کہتے ہیں وہ بھی اپنی پروڈکٹ کی مشہوری کے لیے عورت کا جسم استعمال کر رہے ہیں ۔پہلے بھی عورت کو اپنے جذبات کی تسکین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، آج بھی کیا جاتا ہے ۔یہ جذبات ،نفسیاتی ہیں ،جنسی ہیں،کاروباری ہیں ۔پہلے جس مقصد کے غلام بنایا جاتا تھا ،آج اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آزادی کا نام دیا گیا ہے۔
ہمارے ملک میں قبیلوں ،دیہاتوں ،اور جہاں جاگیردارانہ نظام ہے، وہاں ،پسماندہ علاقوں میں ،آج بھی پاکستانی خواتین پر دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق ہے ،اور اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی بھی کی جا چکی ہے۔ جس کا نفاذ ممکن نہیں بنایا جا سکا ،مثلاََ خواتین کی قرآن سے شادی ،ونی ،کاروکاری ،وٹہ سٹہ کی شادیاں جس میں ایک کو طلاق ہو تو دوسری کو بھی دے دی جاتی ہے۔وغیرہ اسکے علاوہ ایک ہی کام جو مرد اور عورت کر رہے ہوں تو ان کی تنخواہ میں نصف کا فرق ہوتا ہے۔
خاص کر پرائیویٹ سکولوں میں ایک میل ٹیچر کو جہاں آٹھ ہزار دیا جاتا ہے وہاں ایک خاتون ٹیچر کو چار ہزار بھی نہیں دیا جاتا ۔یہ تنخواہ میں فرق ہر شعبے میں ہے ۔آج بھی فیکٹری، تعلیمی، طبی، اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو جیسا کہ لکھا جا چکا ہے مردوں سے کم معاوضہ دیا جاتا ہے، جس سے ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت کا آج بھی اس معاشرے میں کیا مقام ہے۔ اسے مردوں کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔
تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال