تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
خواتین کے وہ کون سے حقوق ہیں جن کو حاصل کرنے کئے لئے دنیا بھر کی عورتیں سٹرکوں پر آنے کئے لئے مجبور ہو جاتیں ہیں ۔ہر سال کی طرح اس سال بھی خواتین کا دن بیان بازی، میٹنگ، جلسہ وغیرہ منعقد ہونے کے بعد بغیر نتائج کے ختم ہو گیا۔ میڈیا میں خواتین کو مظلوم دیکھایا جاتا ہیں۔ کبھی نازک جنس پر بے دردری سے تیزاب پھینکا جاتا ہے۔ کبھی تششد کیا جاتا ہے۔یہ عورت ہی ہے جس کو غیرت کے نام پر قرنان کیا جاتا ہے۔ عورت ازل سے ہی ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی ہے۔یہ عورت ہی ہے جو بے چاری مردوں کے معاشرے میں جسم فرشی پر مجبور ہو جاتی ہے یا پھر عورت کی بے بسی کا فائدہ اٹھاتے مرد وں نے عورت کو پیشہ ور بنا دیا۔ بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔
عورت مظلوم بھی بنتی ہے تو بے چاری ایک عورت ہی کے ہاتھوںجیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ساس اور بہو کا رشتہ یہ ساس ہی ہے جو اپنے لخت جگر کے لئے جب رشتہ ڈھونڈتی ہے تو سیرت کی بجائے صورت اور مالی سٹیٹس کو اہمیت دیتی ہے۔ اگر ایک ساس اپنے بیٹے کے لئے رشتہ ڈھونڈتے وقت سیرت کو اہمیت دے تو آج کتنے گھر بسنے سے پہلے نہ اجڑتے ہیں۔ یہ حقوق مردوں نے غضب نہیں کئے بلکہ عورت ہی نے عورت پر ظلم کیا ہے۔
اخبارات ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں کہ ایک عورت ہی ہے جو دوسری عورت کا ہنستا مسکراتا گھر تباہ و برباد کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتی ۔یعنی ایک عورت جب کیسی مرد کے بینک بیلنس یا اچھی قیمیتی گاڑی بنگلہ یا خوب صورتی کے ہاتھوں مجبور ہو کر محبت کا جام پینا چاہتی ہے تو پھر وہ یہ نہیں سوچتی میری ہوس یا طلب کی خاطر میں اپنے جیسی دوسری عورت کی ذندگی جہنم بنا رہی ہوں بلکہ عورت کے دل و دماغ میں مرد کا وہ سٹیٹس اسے بے چین کئے ہوئے اس وقت تک رکھتا جب تک وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر لیتی۔
اگر مرد دوسری شادی کرتا ہے پھر بھی پہلی بیوی کی نظر میں ظالم اگر مرد شادی کے بغیر تعلقات رکھتا ہے پھر بھی بیوی مظلوم اور مرد ظالم۔ اور اگر نوبت طلاق تک پہنچے تب بھی ظالم مرد۔ کیا ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہو رہا ؟؟ کبھی کسی نے عورت کو ظالم کہا ہے ؟ نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ ہم عورتوں کی عذت کرتے ہیں۔ میں جانتا ہوں عورت بہت سیدھی سادی مظلوم ہے۔ عورت کی مظلومیت کی اور کیا مثال دوں۔۔۔ آج بھی علم کی شمع ہر عورت کے مقدر میں نہیں حالانکہ اسلام نے علم عورت اور مرد دونوں پر فرض کیا ہیں یہ بھی سچ ہے ابھی بھی عورت کو بچے پیدا کرنے والی مشین کا درجہ دیا جاتا ہے۔
عورت کو بچوں کی پرورش اور خاوند کی دیکھ بھال تک ہی سمجھا جاتا ہے۔عورت کو بعض جگہ حیوانوں جیسا سلوک ملتا ہے۔ مار پیٹ گیس سلنڈر یا بجلی کا کرنٹ اور چولھہ پھٹنے جیسے واقعات کے ییچھے اکثر خاوند،ساس ۔ نند یا سسرالی رشتہ دارہوتے ہیں اور بعض اوقات باپ بھائی وغیرہ غیرت کے نام نہاد ٹھیکیدار بنکر ظلم کی چکی میں عورت کو پیستے ہیں۔اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے ۔ایسے واقعات تھانہ وغیرہ میں رپور ٹ ہونے سے پہلے ہی دفنا دئیے جاتے ہیں آج مغربی میڈیا ، غیر اخلاقی فلمیں ،سوشل میڈیا اور موبائل کے ساتھ ساتھ غیر ضروری بندش نے کچے ذہنوں کو خراب کر دیا ہے۔ جس کا نتیجہ آج عورت وہ کچھ کر رہی ہے جس کا کبھی وہم و گمان بھی نہیں تھا۔اگر آپ صرف پچھلے سال کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ کتنی ایسی عورتیں ہیں جو خاوند اور سسرال والوں کو نید آور اشیاء دیکر بے ہوشی کی حالت میں اپنے آشنا کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے یا بھاگتے ہوئے دیکھی گئی ہے ۔اس سے زیادہ میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا بیان کروں۔
کہنے کا یہ مظلب ہے کہ مرد اور عورت کے حقوق اسلام سے پہلے کی بات کی جائے تو اس وقت عورت کو بنیادی آزادی کی ضرورت تھی ۔اسلام سے پہلے عورت مظلوم تھی ۔ اسلام سے پہلے عورت کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ سارے جہانوں کے والی ، غم خوار۔ محسن انسانیت کی آمد سے پہلے واقعی عورت کو عزت حقوق کی ضرورت تھی۔مگر قربان ہو ہماری جان تاجدار مدینہ ، نبی آخر الزماں حضرت محمد ۖپر آپ کا ارشاد ۔۔۔ مجھے تین چیزیں پسند ہے۔ نماز ۔۔۔ خوشبو۔۔۔۔ اور عورت۔۔ آپ ۖ کا ہی ارشاد گرامی ہے۔۔۔ ماں کے قدموں میں جنت میٹھے میٹھے مکی مدنی آقا ۖ کی حدیث مبارکہ جس نے بچی کی اچھی طرح دیکھ بھال پرورش اور تعلیم دلوائی جنت اس پر واجب۔۔۔ سبحان اللہ مگر آج کی عورت اگر اپنے حقوق کی بات کرتی ہے تو اس کے صرف دو مطلب ہیں پہلا مطلب۔۔ وہ مغربی معاشرہ کو سمجھ ہی نہیں سکی کہ اہل مغرب عورت کی آزادی ، عورت کے حقوق سے کیا مراد ہیں۔ مغربی اور یورپی این جی اوز یا یورپ کے پیسے پر چلنے والی تنظیمیں عورت کی آزادی اور عورت کے جو حقوق مانگتی ہے وہ میں لکھ بھی نہیں سکتا صرف سمجھانے کی خاطر عرض ہے ۔۔مسلمانوںمیںایمانی قوت ختم کرنے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا جا رہا ہے تا کہ عورت جب چاہے خاوند کو فارغ کر دے۔
عورت بغیر شادی کے بچے پیدا کر سکے۔ عورت جس سے اور جب چاہے شادی کے بغیر شادی جیسے رسم رکھ سکے وغیرہ وغیرہ دوسرا مظلب ہم نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں ۔۔۔ بس مسلمانوں کے گھر پیدا ہو گئے تو مسلمان بن گئے۔اگر ہم نے اسلام کی تعلیمات کو سیکھا سمجھا اور عملی طور پر اپنایا ہوتا تو ہم فخر سے کہتے عورت کی وہ ہی آزادی ہے۔ عورت کے وہ ہی حقوق ہیں عورت کی وہ ہی عزت ہے۔ جواللہ کے رسول ۖ چودا سو سال قبل دیئے تھے۔ ایک گزارش ہے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ آج جو لوگ عورتوں کے حقوق کی باتیں کرتے ہیں۔میں یقین سے کہتا ہوں کہ ان کو معلوم ہی نہیں ۔۔۔ کہ اللہ اور اللہ کے پیارے نبی آخر الزماں ۖ نے جو عورتوں کو حقوق ساڑھے چودہ سو سال قبل ہی دیئے تھے وہ اگر آج عورت کو دے دئیے جائیں تو دنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔
افسوس آج کے رنگین مزاج تماشبین مردوں نے عورتوں کو آزادی کے نام پر عملی طور پر کھلونا بنا دیا ہے۔ ۔۔۔ جتنا قصور ان رنگیلے دانشوروں کا ہیں اتنا ہی قصور ہممومنوں کا بھی ہیں کیونکہ ہم نے اللہ اور اللہ کے محبوب کے ارشادات کو ان کی زبان میں ترجمہ کر کے اور خود عمل کر کے دیکھایا نہیں ۔ جب حقیقت سب پر واضع ہو جائے گئی ۔۔۔۔ پھر دنیا عورتوں کے وہ حقوق مانگے گئی ۔۔۔۔۔ جو اسلام نے عورتوں کو دئیے ہیں ۔۔ اسلام والے ہی اصل عروتوں کے حقوق ہیں۔
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا