تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
ہر سال خواتین کے حقوق کا عالمی دن 8 مارچ کو منایا جاتا ہے ۔عورت دنیا کی آبادی کا نصف سے زائد ہے ۔یہ دن دنیا بھر میں خواتین کے حقوق ،ان کے مسائل ،اور ان کے حل کے لیے منایا جاتا ہے ، اس دن کی ابتدا کی کہانی خواتین کی جہدو جہد کی منہ بولتی تصویر ہے یہ 108 سال پرانی بات ہے،جب نیویارک میں ملبوسات کی صنعت سے منسلک خواتین نے دس گھنٹے کی ملازمت کے عوض تنخواہیں بڑھانے کے لیے جہدوجہد شروع کی ،جب اپنے حق کے لیے انہوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے لاٹھی چارچ کیا ،ایک سال بعد1908 میں خواتین نے اپنے ووٹ کے حق کے لیے جہدوجہد شروع کی ،اس کے لیے انہوں نے جلسے ،جلوس کیے تو ان پر بھی بے پناہ تشدد کیا گیا۔
اس کے باوجود خواتین کی طرف سے اپنے حقوق کے لیے جہدو جہد جاری رہی ۔ ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود خواتین نے اپنے حقوق کے لیے اپنی جہدو جہد جاری رکھی اور 1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 17 ممالک سے خواتین شریک ہوئیں ۔جس میں خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا ۔یہ سب جہدو جہد رنگ لائی اور آخر کار اقوام متحدہ نے ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کا اعلان کر دیا ۔خواتین کو ووٹ کا حق بھی مل گیا۔
یہ سب کچھ مغرب میں ہوا ۔مشرق میں ایسی کوئی کوئی تحریک اس وقت نہیں اٹھی ،ان کی دیکھا دیکھی مشرقی خواتین بھی میدان میں آئیں ۔مغرب اور مشرق میں خواتین کے مسائل،حقوق الگ الگ ہیں ۔اس بات کی وضاحت ایسے کی جا سکتی ہے کہ مشرق میں گھر کے تمام معاش کی ذمہ داری مرد پر ہے ،اور اس بات کو مشرقی ممالک میںکثرت سے دیکھا جا سکتا ہے ۔اس کے بر عکس مغرب میں خواتین کو معاش کے لیے مردوں کے برابر کام کر نا ہوتا ہے ۔اسی طرح کے دیگر بہت سے فرق ہیں مشرق و مغرب میں ۔لیکن یہ بات 100 فیصد درست ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے ۔ہر خطے میں ،علاقے میں اس کا انداز مختلف ہے۔ایک مختصر سی نظر ڈالیں۔
امریکہ میں ہر چھ منٹ بعد ایک عورت سے زیادتی ہو رہی ہے ۔بھارت میں ہر چھ گھنٹے بعد ایک شادی شدہ عورت کو تشدد سے مار دیا جاتا ہے ۔پاکستان میں ایک دن میں دو خواتین کو غیرت ،اور دیگربہت سی رسم و رواج کی وجہ سے قتل کر دیا جاتا ہے ۔پہلے بھی عورت کو اپنے جذبات کی تسکین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا آج بھی کیا جاتا ہے ۔یہ جذبات ،نفسیاتی ہیں ،جنسی ہیں،کاروباری ہیں ،پہلے عورت کو غلام بنایا جاتا تھا ،آج بلیک میل کیا جاتا ہے۔
یا اسے آزادی کا احساس دلا کر لباس سے آزاد کیا جاتا ہے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔اب مرد جو ننگے پن کو آزادی کہتے ہیں وہ بھی اپنی پروڈکٹ کی مشہوری کے لیے عورت کا جسم استعمال کر رہے ہیں ۔مغرب میں عورت کو تشہیر کا آلہ یا ذریعہ بنا کر اس کی تحقیر کی جارہی ہے اور اسے آزادی کا نام دیا جاتا ہے ۔اسے مہذب ،ترقی کا نام دیا جاتا ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ اگر ترقی ہے تو پھر جانور زیادہ ترقی یافتہ ہوئے ۔آج بھی پوری دنیا میں ہر سال جنسی کاروبار کے لیے بچیوں کو بیچ دیا جاتا ہے ۔
پاکستان میں قبیلوں ،دیہاتوں ،اور جہاں جاگیردارانہ نظام ہے وہاں ،پسماندہ علاقوں میں ،آج بھی پاکستانی خواتین پر دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق ہوتا ہے ،اور اس کی روک تھام کے لیے قانون سازی بھی کی جا چکی ہے ،جس کا نفاذ ممکن نہیں بنایا جا سکا مثلا خواتین کی قرآن سے شادی ،ونی ،کاری قرار دینا ،وٹہ سٹہ کی شادی میں ایک کو طلاق ہو تو دوسری کو بھی دے دی جاتی ہے۔وغیرہ پاکستان میں عورتوں اور مردوں کی تعلیمی لحاظ سے بھی فرق ہے مردوں میں تعلیم کا تناسب 30 فیصد اور خواتین کا 13 فیصد ہے ۔
اسکے علاوہ ایک ہی کام جو مر د اور عورت کر رہے ہوں تو ان کی تنخواہ میں نصف کا فرق ہوتا ہے خاص کر پرائیویٹ سکولوں میں ایک میل ٹیچر کو جہاں آٹھ ہزار دیا جاتا ہے وہاں ایک فی میل ٹیچر کو چار ہزار بھی نہیں دیا جاتا ۔یہ تنخواہ میں فرق ہر شعبے میں ہے ۔آج بھی فیکٹری ،تعلیمی،طبی مثلا ہیلتھ ورکر ،نرسنگ وغیرہ اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو جیسا کہ لکھا جا چکا ہے مردوں سے کم معاوضہ دیا جاتا ہے جس سے ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت کا آج بھی اس معاشرے میں کیا مقام ہے ۔ یعنی اسے مردوں کے برابر نہیں سمجھا جاتا ۔
اس کے علاوہ مردو ں کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کو روز مردوں کی غلیط نگاہوں ،ذومعنی فقروں،کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جس سے وہ نفسیاتی مریض بن رہی ہیں ۔تحفظ حقوق نسواں کے نام سے ایک بل اسمبلی میں پاس ہوا ۔جس کے تحت غیر سرکاری ،سرکاری ،اقتصادی ،صنعتی ،معاشی ،تعلیمی ،طبی،فلاحی،اور صحافتی ،اداروں ( کسی بھی ادارے )میں ورکر خواتین کو ہراساں کرنے ،امتیازی سلوک کرنے،تحقیر کرنے ،(چھیڑ چھاڑ )کرنے وغیرہ کو جرم قرار دیا گیا ہے ۔
مگر صرف قانوں سازی سے کیا ہوتا ہے جب تب اس پر عمل نہ ہو ،انصاف نہ ملے ،انصاف کا حصول آسان نہ ہو ،۔مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ ایک دن عورتوں کے نام کر کے ان کے حقوق کا ڈھنڈوراپیٹنے سے کیا ان کو حقوق مل جائیں گے۔صرف ایک دن خواتین کے مسائل کی ان کو حل کرنے کی باتیں ہوتی ہیں ،اس پر کالم لکھے جاتے ہیں ،سیمینار ہوتے ہیں ،جلسے جلوس ہوتے ہیں ،ٹی وی پر ٹاک شو ہوتے ہیں اور پھر سب کچھ ہوا میںتحلیل ہو جا تا ہے پھر اسے ایک سال کے لیے بھول جاتے ہیں ۔ دین اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیئے ہیں ان پر عمل ہی خواتین کے حقوق کا تحفظ ہے ۔جس کے بارے میں پھر لکھنے کی کوشش کروں گا۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال