سنا ہے رابعہ نے نئی گاڑی لے لی؟ ہائے فرزانہ، سوٹ دیکھا تھا؟ مجھے تو راحیلہ کی بیٹی بہت بدتمیز لگتی ہے، اُف ! سکینہ تو آج پوری میک اپ کی دکان لگ رہی تھی، صوفیہ نے ماشاء اللہ اپنا کارعبار شروع کیا ہے، یار قیمہ کریلے کی ریسیپی تو بتانا، تم فلاں شاپنگ مال گئی تھیں؟ بہت بڑی سیل لگی ہے، تمھارے لمبے گھنے بالوں کا راز کیا ہے؟ عظمیٰ ٹریٹ کب دے رہی ہو؟ امی! میرے پاس تو کپڑے ہی نہیں ہیں، میں نہیں جا رہی دعوت میں، کوثر! کتنا پڑھوگی، اب کیا کتابوں کی جان لوگی؟ ریما کی بچی، اپنی لاڈلی کو سوٹ دے دیا، مجھے کب دوگی؟ مہوش! بس کرو بہن… کتنی چائے پیو گی؟
یہ اور نہ جانے ایسی کتنی ہی باتیں ہیں جسے خواتین کرتے کرتے کبھی تھکتیں ہی نہیں، جو غالباً کم عمری سے ہی ان کی عادت بن چکی ہوتی ہے۔
کہتے ہیں عادتیں بدلتے دیر نہیں لگتی، لیکن یہی عادتیں جب آپ کی فطرت بن جائیں تو ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی اکثر خواتین کچھ اسی طرز کی تابع نظر آتی ہیں، جنھوں نے اپنی عادتوں کو فطرت کا لازمی جُزو بنا لیا ہے۔ پھر چاہے وہ لاکھ کسی سے جھگڑ ا کرلیں، وقت کی پروا کیے بغیر سہیلیوں سے گپ شپ کریں یا گھنٹوں ونڈو شاپنگ کریں، گھر میں قدم رکھتے ہی تمام بیرونی مشاغل دروازے کے پار چھوڑ آتی ہیں۔ کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ گھر کی چار دیواری اور اہلِ خانہ اُسی کے منتظر ہوں گے۔ صبح سویرے بِنا الارم اٹھ کھڑے ہونا، پھر چاہے رات گئے دیر سے کیوں نہ سوئی ہو، یہ عورت ہی ہے جس نے اپنی ذات کو ان عادتوں میں ڈھال لیا ہے۔
پچھلے وقتوں میں پیشہ ورانہ خواتین کی شرح آج کی نسبت بہت کم تھی، لیکن موجودہ دور میں خواتین نے خود کو مرد کے شانہ بشانہ لا کھڑا کیا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آج کی عورت نہ صرف گھر گرہستی تک محدود ہے بلکہ پیشہ ورانہ فرائض بھی ادا کر رہی ہے، اور خود کو مرد کے مدمقابل کھڑا کرنے کی عادت نے ہی خواتین کو جری اور حوصلہ مند بنایا ہے، وگرنہ اس ہستی کو آج یہ مقام حاصل نہ ہوتا۔ کہتے ہیں خواتین ایک بار کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو وہ اس کام سے پیچھے نہیں ہٹتیں، پھر چاہے دنیا اِدھر کی اُدھر کیوں نہ ہوجائے۔ یہی وہ فطرت ہے جس نے عورت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔
روز صبح سے رات تک اپنے فرائض کی ادائیگی کےلیے انتھک محنت کرتیں ہیں، لیکن کبھی کسی کو ظاہر نہیں کرتیں، نہ ہی کبھی ایک جیسے کام کرتے کرتے تھکاوٹ و بیزاریت ظاہر کرتی ہیں۔ یہی عادتیں خواتین کو مرد سے منفرد بناتی ہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ خواتین حسد، غیبت اور فساد برپا کرنے کی عادتوں سے مالا مال ہوتیں ہیں، کبھی ساس کے روپ میں بہو کو طعنے کسنا تو کبھی بہو کے روپ میں ساس کی چغلی، کبھی چھوٹی بہن اماں سے بڑی کی لگائی بجھائی کرتی ہے تو کبھی بڑی بہن چھوٹی کی، کبھی ایک سہیلی دوسری کو اپنے تیور دکھاتی ہے تو کبھی دوسری اس پر اپنا رعبرعب جھاڑتی ہے، کبھی بڑے عہدے والی چھوٹے عہدے والی کو نیچا دکھاتی ہے تو کبھی چھوٹے عہدے والی بھڑک اٹھتی ہے. غرض ایک عورت اپنی زندگی میں کہیں نہ کہیں جانے انجانے میں ان خرافات کو اپنی عادت بنا لیتی ہے۔ لیکن پھر یہی عورت بُرے وقت میں آپ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، اس لمحے وہ اپنی انا کو پسِ پشت ڈال کر کُھلے دل سے ساتھ دیتی ہے۔
یہ کہنا درست ہوگا کہ معصومیت خواتین کی فطرت میں شامل ہوتی ہے، پھر چاہے وہ ظاہری طور پر خود کو کتنا بھی رعب دار ظاہر کرلے، اس کے اندر معصومیت کا گوشہ پنپتا رہتا ہے، وہ اپنے اہلِ خانہ کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو بھی ہر دم تیار رہتی ہے لیکن خود کو چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھائے رکھتی ہے۔ جیسے عید پر سوٹ کا نہ سلنا، میچنگ کی جوتی نہ ملنا، آج کیا پہنوں؟ اتنی دیر ہوگئی، جھٹ پٹ کیا پکاؤں؟ وغیرہ وغیرہ… یہ ہمارے معاشرے کی 90 فیصد خواتین کی عادت ہے، کیونکہ بیشتر عقلمند خواتین اپنی ہی گتھی میں الجھ جاتیں ہیں، لیکن یہی عادت ان کی معصومیت کو ظاہر کرتی ہے۔
شاپنگ کس عورت کا شوق نہیں ہوتا؟ اگر عورت کا وجود نہ ہوتا تو شاید اس کرہٗ ارض پر اتنے شاپنگ مالز ہی نہ ہوتے۔ خواتین کی اکثریت شاپنگ کرکے سکون محسوس کرتی ہیں۔ کبھی اتوار سے ہفتہ بازار کے چکرلگانا، تو کبھی مالز سے سپر اسٹورز تک کی دوڑ… غرض یہ خواتین کی وہ واحد عادت ہے جس کے بنا ان کا گزارا ممکن ہی نہیں۔ اور پھر ایک سوٹ کےلیے سو بار دکانوں کا چکر لگانا، یہ عورت ہی کا حق ہے؛ کیونکہ مردوں میں اتنا صبر و تحمل ممکن نہیں۔ نئے زمانے نے خواتین کو کتنی بھی نئی راہ دکھائی ہو، لیکن شاپنگ میں بچت کرنا وہ کبھی نہیں بھولتیں۔
بچپن سے اب تک آپ کی سماعت سے یہ الفاظ کتنی بار ٹکڑائے ہوں گے: ’’دادی اماں کہتی ہیں، چاند پہ پریاں رہتی ہیں‘‘ یا نانی کی کہانیاں، خواتین میں قصے کہانیاں سنانے کی عادت ہر دور میں غالب رہی ہے۔ پھر چاہے وہ حقائق پر مبنی ہوں یا فرضی، مثبت ہو یا منفی، وہ کہانیاں سنانے میں ایک خاص مہارت کی حامل ہوتیں ہیں اور یہ عادت انہیں کتابوں سے رقبت کے بعد ملتی ہے اور ان میں ۸۰ فیصد شرح ناولز پڑھنے والی خواتین کی ہے۔ ہمارے معاشرے کی اکثریت خواتین کتاب دوست ہیں بس میں سفر کر رہی ہوں یا آفس کی ڈیسک پر ہوں، امتحانات دے رہی ہوں یا امتحانات لے رہی ہوں، دوستوں کے ہجوم میں ہوں یا تنہا ٹیرس پر ٹھل رہی ہوں کتابوں سے ان کی دوستی صدیوں سے چلی آرہی ہے پھر چاہے وہ کتابت اپنے کسی کورس کی کریں یا کہانیوں کی، معلوماتی کریں یا تفریحاتی غرض یہی عادت خواتین میں بولنے کا ڈھنگ اور خود کو باصلاحیت بنانے کی اہم کڑی ہے۔
بعض خواتین خود کو ہر شعبہ میں دوسری خواتین سے آگے بڑھنے کی عادت لیے ہوتیں ہیں اگر اس آگے بڑھنے کی لگن وہ اپنی صلاحیتوں کو تراشتی ہیں تو یہ ایک مثبت رویہ ہے لیکن اگر وہ محض دوسری خواتین کو نیچا دکھانے کی غرض سے آگے نکلنا چاہتی ہیں تو یہ منفی عادت ان کی ذات میں چڑچڑا پن، غصہ اور حسد جیسے جراثیم پیدا کردیتی ہے، جس سے نہ صرف وہ مستقبل میں پچھتاوا محسوس کرتیں ہیں بلکہ حال میں بھی ان کی اسی فطرت کی وجہ سے وہ اکیلی رہ جاتیں ہیں۔ کیونکہ عموماً ایسی خواتین سے بظاہر توسب ہنس کر ملتے ہیں، لیکن دلوں میں کدورت لیے ہوتے ہیں۔
کہتے ہیں خواتین کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے، لیکن یہ بات ہر خواتین پر لاگو نہیں ہوتی۔ جیسے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، ویسے ہی ہر خاتون کا مزاج دوسری سے مختلف ہوتا ہے۔ اردگرد کا ماحول آپ کے عادات و اطوار پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات ہماری خواتین گھریلو مسائل کے سبب خود پر ایسی عادات حاوی کر لیتی ہیں جو ان کی شخصیات پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔
لیکن اس کے برعکس بعض خواتین اس قدر نرم مزاج ہوتی ہیں کہ ان کی فطرت ہر ایک کے دل میں گھر کرلیتی ہے، پھر چاہے وہ کتنی بھی بے باک ہو۔ اس کی عادتیں اسے دوسروں سے منفرد بنائے رکھتیں ہیں۔
یوں تو خواتین کا ہر روپ ہی نرالہ ہے، لیکن ایک روپ جس کے بغیر شاید ہم خود کو مکمل تصور نہیں کرتے، وہ ماں کا روپ ہے۔
کہتے ہیں دنیا میں آپ زمین سے آسمان کی بلندی کیوں نہ چھولیں، ماں کا ساتھ ہر موڑ پر پاتے ہیں۔ کیونکہ ایک ماں ہی تو ہے جو آپ کو پاتال سے کھینچ کر اپنی آغوش میں پناہ دیتی ہے۔ ماؤں کی عادت ہوتی ہے، زبان سے لاکھ جھڑک دیں لیکن دل سے ہمیشہ دعا ہی دیتی ہے۔ ہمارے درمیان آج کتنی ہی ایسی خواتین ہیں جو اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کےلیے دن بھر محنت کرکے کماتی ہیں، لیکن اس کے باوجود بچوں سے کبھی کوتاہی نہیں برتتیں۔ وہ اس معمول کو کچھ اس انداز سے اپنی فطرت میں شامل کرلیتی ہیں جیسے بطور عورت یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ بہر کیف، خواتین کی عادتیں، خواتین ہی سمجھ سکتیں ہیں۔