تحریر: شہزاد حسین بھٹی
دور حاضر میں جتنی بھی جنگیں جیتی جاتی ہیں وہ جدید ٹیکنالوجی کی حامل طاقت کے بل بوتے پر جیتی جاتی ہیں اور ان جنگوں میں عددی برتری شمار نہیں کی جاتی بلکہ جدید آلات حرب کسی بھی جنگ کا پانسہ پلٹے میں معاون اور اہم تصور ہوتے ہیںکسی زمانے میںچاقو، چھُرا، نیزہ، تلوار، منجنیق اور دور حاضر میں بندوق ،ٹینک، توپ، لڑاکا طیارے اور اب ڈرون جنگ جیتنے کے لیے لازمی ہیں۔ امریکہ آج دُنیا کی سپرپاور آباد ی کے تناسب کی بنیاد پر نہیںبلکہ جدید ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کرنے کی بنا پر ہے اور جو ملک اُس کی نافرمانی کرے وہ اسے طاقت کی بدولت ہزاروں میل دور آکر بھی تباہ و برباد کرکے پھتروں کے دور میں دھکیل دیتا ہے جسکی مثال افغانستان، عراق، لیبیا اور شام ہیں۔ طاقت کا نشہ نہ تو کوئی اخلاقیات دیکھتا ہے اور نہ کوئی قاعدہ قانون وہ خود عقل کل و قانون ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ جنگ میں سب کچھ جائیز ہوتا ہے اور اسے کوئی ڈکٹیشن نہیں دے سکتا۔
یہی حال قومی اسمبلی کے حلقے این اے ١٢٢ میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان پڑنے والے گھمسان کے رن کا ہے جس میں ایک طاقت ور نے اپنی تمام شیطانی طاقتوں ، ریاستی مشینری اور وسائل سے اپنے مدمقابل کو بظاہر عددی شکست دینے میں کامیاب ہو کر وہ خوشی کے شادیانے بجانے شروع کر دیے ہیں کہ غرور اور تکبر بھی شرما گیا ہے۔ وہ شاید یہ بھول بیٹھے تھے کہ جس دن وہ غرور اور تکبر کااظہار کر رہے ہیں یہ وہی ١٢ اکتوبر ہے جس دن ١٩٩٩ء کو اسی غرور اور تکبر کی بنا پرانہیں اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑ گئے تھے۔لیکن افسوس کہ اس گہری چوٹ کے باوجود مسلم لیگ ن نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔نہ تو انہیں شرم آئی نہ حیا اور اور نہ کوئی اتھیکس انہیں یاد آئے۔وزیر اعظم جو اپنے آپ کو ایک منجے ہوئے سیاستدان سمجھتے ہیں اور مستقبل میں ایک اور باری لینے کے خواہشمندہیں نے اپنے عہدے کے تقدس کا لحاظ کیے بغیرالیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پریس کانفرنس کر ڈالی، کسان پیکج دے ڈالا۔ سرکاری طوطے اپنی اپنی بولیاں بول کر اپنے آپ کو زیرک سیاستدان، دوسروں کو صرف جنونی ثابت کر تے رہے۔ایک طرف تمام ریاستی مشینری وسائل اور طاقت تو دوسری طرف بے سروسامانی اور ذاتی وسائل ،ڈٹ کر مقابلہ ہوا پہلی بار کسی نے شیر کی کچھار میں گھس کر للکارہ۔
تحریک انصاف اور میڈیا نے عوامی شعور کو بیدار کرنے کے لیے انتھک کوشش کی اور انہیں اُن کی ووٹ کی طاقت اور تبدیلی کا درس دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن یہ قوم چڑھتے سورج کی پوجاری نکلی۔کیونکہ قرآن میں ارشاد ربانی ہے کہ اللہ پاک اُس قوم کی حالت نہیں بدلتے جو قوم خود اپنی حالت نہیں بدلتی۔ جن کے شعور پر پردے ہوں وہ نالیوں اور گلیوں کو پختہ کرنے کو ہی جمہوریت کا ثمر سمجھتے ہوں انہیں کوئی کتنا بیدار کر سکتا ہے۔ قحط فرانس کے زمانے میںجب ملکہ کو بتایا گیا کہ عوام کے لیے روٹی تک میسر نہیں ہے تو اُس نے چشم پوشی کرتے ہوئے برجستہ کہا کہ روٹی نہیں ہے تو انہیں کہو کہ وہ کیک کھا لیں۔یہی حال ہمارے اقتدار کے پجاریوں کا ہے ۔ جس ملک میں روزانہ ہزاروں مریض صحت کی سہولیات اور ادویات نہ ہونے کی وجہ سے انتقال کرتے ہوں؟ بھوک اور بے روزگاری کے سبب لوگ اپنے بچوں سیمت اجتماعی خودکشیاں کررہے ہوں ِ،غریب کی جوان بیٹیاں وسائل کی کمی کے سبب اپنے گھروں کی نہ ہوسکیں، ِ بچوں کے والدین سکولوں کی بھاری فیسیں اد ا نہ کر سکیں؟ اس ملک کی عوام کو فرانس کے ملکہ کے کیک کی طرح ہمارے حکمران میڑو بس کا تحفہ دیتے ہیں کہ اگر بھوکے ہو، ننگے ہو، تعلیم نہیں، بے روزگار ہو تو میڑو میں سفر کرو یعنی انتہا ہے عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کی ۔ کوئی بھٹو کو زندہ کئے ہوئے ہے اور کوئی قبروں کی سیاست کر رہا ہے۔ غریب کس کے آگے فریاد کرے اور اسکی سنتا کون ہے؟دودھ کے نگہبان بلے کے مصداق سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں ٢٠٠ ارب ڈالر رکھنے والے غریب پرور سیاستدان اس ملک کے غریبوں کی حالت زار گذشتہ ٦٨ سالوں سے تبدیل کرنے کا بیڑا اُٹھائے ہوئے ہیں۔بقول شاعر
برباد گلستاں کرنے کو تو ایک ہی اُلو کافی تھا
یہاں ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاںامیر امیر تر اور غریب غریب تر لیکن کسی کو اس ملک اور اس میں بسنے والے ١٩ کروڑ عوام کی حالت زار کو بدلنے کی فکر نہیں، طاقت اور اقتدار کا نشہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو اندھا کیے ہوئے ہے۔اگر عمران خان جنون کا دوسرا نام ہے تو مسلم لیگ ن نے کون سی سنجیدگی دیکھائی ہے،سرکاری وسائل کا بے دریغ اور اندھا دھند استعمال کیا گیا۔وفاقی وزراء سمیت ن لیگی کی ساری قیادت اس حلقے میں موجود تھی جو بھانت بھانت کی بولیاں بول کر عوام کو سہانے خواب دیکھا کر اپنے دام میں کرنے کے درپے تھے۔بقول شہباز شریف ن لیگ نے قارون کو شکست دی۔ بندہ پوچھے جناب اگر وہ قارون تھے تو آپ لوگ کیا تھے؟ جھوٹ، منافقت اور الزامات کی سیاست تو آپ نے بھی کی اس حلقے میں۔
کیا فرق رہ گیا آپ اور تحریک انصاف والوں میں؟ آپ بھی تو وہی کرتے ہیں جو تحریک انصاف والے کرتے ہیں۔کروڑوں روپے بلا وجہ ایک دوسرے کی تقلید میں خرچ کر دیئے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اتنی زیادہ حکومتی مداخلت اور ریاستی مشینری کے استعما ل کے باوجود ،جس میں میری اطلاعات کے مطابق سرکاری افسران سے حلف لیے گئے کہ وہ ووٹ مسلم لیگ ن کو دیں گے اور اپنے ماتحتوں سے بھی دلوائیں گے،٢٤٤٣ ووٹوں کی عددی ہار شکست نہیں جیت ہے۔ وہ جیت جسے حکومتی دباو ، طاقت اور وسائل شکست نہ دے سکے۔ عوام نکلے اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔کرفیو جیسی فضاء میں٧٢٠٨٢ ووٹ لینا معمولی بات نہیں بلکہ اس بات کا عندیہ ہے کہ اگر الیکشن ریاستی جبر کے بغیر ہوتے تو نتائج مختلف ہوتے۔ بہرحال اس ضمنی الیکشن سے یہ طے ہو گیا کہ لاہور کا تخت اب زیادہ مضبوط نہیں رہا۔ یقینا اس میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ کرپشن ، قبضہ مافیا اورنوٹ لیگ کے ٣٥ سالہ اقتدار کا خاتمہ قریب ہے۔
اگر فرعون اور نمرودزندہ نہیں رہے ؟ اگر شداد اپنی خود ساختہ جنت کا نظارہ نہ کر سکا تو ن لیگ یہ بھی جان لے کہ سدا اقتدار اُن کا بھی نہیں ہے۔ انکی شیطانی سیاست ایک نہ ایک دن ضرور دم توڑے گی اور پنجاب کے لوگ جنکے حقوق غصب کیے گئے ہیں ضرور آزاد ہو نگے۔ مسلم لیگ ن یہ مت بھولے کہ کبھی پیپلز پارٹی بھی وفاقی جماعت تھی اور اسکی چاروں صوبوں میں نمائیندگی تھی ۔وہ بھی غرییوں اور بھوکوں کا دم بھرنے کے لیے اقتدار میں آئی تھی مگر جب وہ عوام کو ڈیلیور نہ کر سکی تو عوام نے اسے ایسے الگ کر دیا جیسے وہ کبھی تھی ہی نہیںجسکی مثال این اے١٢٢ میں پیلپز پارٹی کو ملنے والے ووٹ ہیں جو صرف ٨١٩ووٹ ہیں اور وہ اپنی ضمانت بھی ضبط کروا بیٹھے ہیں۔ این اے ١٢٢ کا الیکشن ایک انتخابی معرکہ تھا جس میں عوام کو بیدار کرنے اور انہیں انکے حقوق سے روشناس کرانے والے جنونی بظاہر ہار گئے اور شہنشاہیت، کرپشن اور قبضہ مافیاء جیت گیا۔
تحریر: شہزاد حسین بھٹی