ایسٹرونومیکل ٹیلی سکوپ نامی مشین کا کمال یہ ہے کہ اس کی مدد سے رمضان المبارک کا چاند دیکھا جاتا ہے۔ چاند کی جھلک دیکھنے کے بعد بیس کروڑ عوام کو اعلان کر کے آگاہ کیا جاتا ہے کہ مبارک ہو مسلمانوں رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔
یہ سننے کے بعد تمام پاکستانی مرد حضرات جو گیارہ مہینے ایک دوسرے کو ٹوپیاں پہنایا کرتے ہیں، وہ اس ماہ کے لیے خود ٹوپی پہن لیتے ہیں اور بعض اپنے ہاتھ میں تسبیح بھی پکڑ لیتے ہیں ساتھ میں پانچ وقت نماز اور تراویح پڑھ کر اپنے گیارہ ماہ تک دوسروں کو ٹوپی پہنانے پر خدا سے معافی کے طلبگار بن جاتے ہیں۔ بے شک خدا سب کو معاف کرنے والا ہے۔
تمام پاکستانی خواتین جو اپنے دوپٹے سے بالکل لگاؤ نہیں رکھتیں وہ اس ماہ کے تقدس میں اپنے دوپٹے کے ساتھ بے حد پیار، محبت اور احترام کا رشتہ جوڑ لیتی ہیں۔
سبزی، پھل فروشوں سے لے کر تمام چھوٹے بڑے کاروباری حضرات اس ماہ کا کثرت سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ تمام کاروباری حضرات ڈھیر سارا پیسہ کمانے کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ اگلے گیارہ ماہ اپنی پر سکون زندگی گزار سکیں۔ جس کے پاس جتنی چادر ہوتی ہے وہ اس میں اتنی ٹانگیں پھیلا دیتا ہے۔
عید کے کپڑوں کی قیمتیں انتہائی حیرانگی میں آسمان سے پوچھ رہی ہوتی ہیں کہ اس ماہ میری کونسی ایسی نیکی ہے اور باقی گیارہ ماہ میرا ایسا کیا قصور ہوتا تھا!
پھل کی قیمتیں آسمان سے پوچھ رہی ہوتی ہیں کہ اے خدا اس مشین کے ذریعے ایسا کیا دیکھا گیا ہے جس سے ہماری قدر و قیمت پر اتنا واضح اضافہ ہوچکا ہے!
ملک کے بھر کے فقیر تمام بڑے شہروں کی مارکیٹوں کا رخ کر کے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس ماہ تمام پاکستانی گالیوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں اور بعض مرتبہ زیادہ غصہ آ جانے کی صورت میں یہ بول کر صبر کرلیتے ہیں کہ ‘افطار کے بعد جواب دوں گا’.
انتیس یا تیس دن مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر ایسٹرونومیکل ٹیلی سکوپ نامی مشین کی مدد سے عید کا چاند مبارک دیکھا جاتا ہے۔ پھر اعلان کر کے معصوم عوام کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ مبارک ہو عید کا چاند نظر آچکا ہے۔
پھر تمام اعلیٰ عہدیداران اور سیاسی لیڈران معصوم عوام کو عید کی مبارکباد سے نوازتے ہیں۔ یہ سننے کے بعد شیطان آزاد ہو جاتے ہیں۔ جس کے بعد معصوم عوام ایک دوسرے کو جلانے کے لیے نئے کپڑے پہن کر میدان میں داخل ہو جاتے ہے اور سب کے منہ پر یہی الفاظ ہوتے ہیں کہ ‘ہمیں بھی عیدی چاہئیے’۔