تحریر : عفت
بلدیاتی الیکشن آگئے ہر گلی میں پوسٹر لگائے جا رہے ہیں،کچھ جانے پہچانے اور کچھ انجانے چہرے کھمبوں پر آویزاں ہیں ہر ایک نیچے آپکا مخلص،قوم کا مخلص آپ کا اپنا ہمدرد،بیباک اور نڈر۔صداقت کا علمبردار،ہمت و شجاعت کا پیکر جیسے الفاظ نظر آتے ہیںکئی بار تو گمان گزرا کہ یہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں اتنی خوبیاں پہلے تو کبھی نہیں تھیں یکلخت کیسے پیدا ہو گئیں تب یاد آیا اوہویہ خوبیاں تو خود رو پودوں کی طرح ہیں جو الیکشن کی برسات میںخود بخود نمو پاتی ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر سا منے نظر آتی ہیںموسم ِانتخاب میںہر پھول لا جواب نظر آتا یہ اور بات ہے کہ رنگ سارے کچے اور پھول کا غذی ہوتے ہیں کمال ِ فن ہے کہ آزمائے ہوئے طوطا چشم لوگ بھی پھر سے ان خوبیوں کا پرچار کرتے نظر آتے ہیںیعنی موسمی حملہ ہے ۔بہادری،صداقت،ہمت و شجاعت کی کتابیں مکتب ِانتخابات میں رٹ لی جاتی ہیں لہجوں میں ایسی چاشنی کہ شہد کی مٹھاس کو بھی مات کر دے ارے حیران مت ہوں یہ سب اخلاقیات کا نتیجہ نہیں بلکہ کرامات ِ الیکشن ہیں جو آپکو قدم قدم پہ حیرت کے سمندر میں غوطے دے گی۔
ہاں اگر منہ کا ذائقہ بدلنا مقصود ہو تو مخا لف امیدوار کے جلسے میں جا کر جوشِ خطابت سے بہرہ مند ہوا جا سکتا ہے۔ایسے ایسے انکشافات ہوں گے کہ سی آئی اے والے بھی نہ کر پائے ہوں گے۔ ابھی پچھلے الیکشن کی بات ہے کہ چند خواتین گھر میں آئیں ہم حسبِ معمول واپڈا کی شان میں قصیدہ گوئی میں مشغول تھے،وہ فرمانے لگیں بائو صدیق کو ووٹ دینا ہے بڑا بیبا بندہ ہے اس ہم محلے والوں کا بڑا خیال ہے قسم لے لو ساری گلیاں پکی۔ کرا دے گا سیوریج سسٹم ٹھیک ہو گا ۔پتر دی نوکری وی پکی ۔اتنی تعریف سن کرہم پکے ہو گئے کہ اس دفعہ بائو صاحب کو ہی ووٹ دیں گے، سو جی سارے خاندان کے ووٹ بائو صدیق کے ہوئے ان کی جیت پر ہم نے بھنگڑے ڈالے اور معتبر ٹہرے۔
مگر شومئی قسمت بائو صاحب الیکشن کیا جیتے صداقت کا دیانت دارانہ چولہ بدل ڈالا اب ہم ہیں کہ یاد کرا کرا کہ مرے جا رہے اور وہ ہیں کہ ہمیں پہچاننے سے انکاری۔حکم ِ حاکم مرگ مفاجات کے تحت واپس آئے اور ان خوا تین کو جا پکڑا کہ جی آپ نے کہا تھا یہ ہو گا وہ ہوگا جواب ملا او باجی جی تسی وی بھولے لوک او سانوں تے ایناں گلاں دی دیہاڑی لبدی سی اسی وی کمائی کرنی سی اگے دا سانوں کی پتہ۔ہم منہ کی کھاتے واپس پلٹے ، دل میںغصہ اوراورخود کو لعنت ملامت بھی کی کہ ہائے کیا حق تھا کہ ادا نہ ہوا ۔نانی اماں نے جو پھولا منہ دیکھا تو کہنے لگیں تم سب نے اسی کو ووٹ دیا تھا کوئی کام نہیں بنا نہ مجھے دیکھو سب کو راضی کر کہ آئی تھی۔ہم نے حیرانگی سے انہیں دیکھا اور بولے وہ کیسے؟ پوپلے منہ سے ہنسی برآمد ہوئی او پتر میں ساروں پہ مہراں لا کہ آئی ساں جنھے پوچھیا اماں مینوں ووٹ دتا کہیا آہو پتر پکا تینوں دتا۔
اس جواب نے ہمیں بھونچکا کر دیا ہم ان کی دانشمندی کے قائل ہوگئے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی ۔بات ہو رہی تھی الیکشن کی ،در حقیقت دیکھا جائے تو اصل بات یہ ہے کہ الیکشن سے جیتنے تک ااور پھر اپوزیشن سے حکومت تک محض ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر ہی میڈیا میں ان رہتے ہیں کسی مثبت بات یا عمل کے زریعے مشہور ہونا جواز ہی نہیں ہوتا ۔چاہے صوبائی الیکشن ہیوں یا بلدیاتی ہر پارٹی ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچتی اور الزامات کی سیاست کرتی نظر آتی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ہم جو رویے اختیار کرتے ہیں وہی ہماری پہچان بن جاتے ہیں سندھ میں پی۔پی۔پی اور ایم کیو ایم کی رسہ کشی نظر آتی ہے توپنجاب میں پی۔ٹی۔آئی اور ن لیگ دست و گریبان نظر آتی ہے ۔تبدیلیوں کے دعوے دار ذاتی تبدیلیوں کے چکر میں گھومتے نظر آتے ۔روٹی کپڑا مکان نہ روٹی دے پائے اور نہ کپڑا ،سڑک پہ میٹرو تو چل گئی۔
مگر غریب کی کمر سیدھی نہ ہوئی۔عوام بچاری بھی تھک چکی ہے اور یہ ڈرامے دیکھ دیکھ کے ان کا حصہ بن چکی ہے وہ جان چکی ہے ان کی قسمت سوائے خدا کے کوئی نہیں بدل سکتا سو اب ہم دھرنے ۔ہڑتالیں ۔انجوائے کرتے شام کی فراغت میں دل بھی بہلا رہتا اور وقت بھی پاس ہو جاتا سو کوئی ایسا اعلان ہو تو قوم پیش پیش رہتی ۔فون پہ فون اس طرح کھڑکتے اری آپا کل عمران کے جلسے میں کون سی ساڑھی باندھ کر آ رہی ہو ؟ چلو ٹھیک ہے میں بھی نجو کی اماں سے ادھار لے لوں گی،باقی پھوپھی ممانی سے بھی کہنا تیار رہیں۔
کیمرے کے آگے آگے رہیں ۔ہا ہا ہا ۔ بلدیاتی امیدواروں کے پوسٹر کھمبوں پہ لٹکے دیکھ کر دل بے اختیار چاہاکہ اگر یہ جیت کر بھی عوام کی خدمت نہ کریں تو ان کو حقیقت میں اس طرح ٹانگ دیا جاے کہ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو ۔گردش ِ دوراں انسان کو سکھا ہی دیتی ہے کہ اس معاشرے کے مسائل سے کیسے نبٹنا ہے سو ہمیں بھی وہ سارے گر سیکھنے ہوں گئے تبھی قوت ِمقابلہ پیدا ہوگی۔
تحریر : عفت