تحریر: عتیق الرحمن۔ اسلام آباد
برصغیر پاک و ہند میں یوں تو شعرا و مفکرین کی کمی نہیں رہی کہیں شعرا میں ہمیں مرزا غالب، میرتقی میر،مولانا حالی اور مفکرین میں مولانا زاد ،مولانا مودودی اورسرسیداحمد خان جیسے بے شمار نام لتے ہیں مگر جو شہرت و عزت شرق و غرب میں شاعر مشرق علامہ اقبال کو میسر آئی وہ اس میں یکتاہیں۔علامہ اقبال نے اپنی تعلیم کی تکمیل اور عملی وکالت کی زندگی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عزت و عظمت کو بحال کرنے کی خاطر اور مسلم قوم کو بیدار کرنے کے لئے اور صحیح معنوں میں روح ِ اسلام سے وابستگی کی راہ سجھانے کے لئے شعرو نثر کا سہارا لیا اور اس جدوجہد میں علامہ اکمل حدتک کامیاب ہوئے کہ موجودہ پاک و ہند اور بنگلہ دیش علامہ اقبال کے احسانات کا معترف ہونے کے ساتھ ان سے مستفید ہوئے۔
موجودہ دور میں پاکستانی معاشرہ بالخصوص نوجوانوں کو اقبال کے افکار ونظریات اور ان کی مصادر ِ اسلام قرآن و سنت اور اولیاء سے تعلق سے واقف کرانے کی بے حد ضرورت ہے ۔بدقسمتی سے آج کل کے شعرا اور ادبا نے عشق و معاشقہ اور لہو و لعب کے موضوعات کو اپناو طیرہ بنایا ہوا ہے جس کے باعث پاکستانی معاشرہ اخلاقی پستی اور بے راہ روی کا شکار بنا ہوا ہے۔
علامہ اقبال نے اپنی نظم و نثر میںاسلامی اخلاق و اقدار کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کیونکہ موجودہ نام نہاد مفکرین و متجددین کے لئے یہ امر قابل غورہے کہ علامہ نے مغرب میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے افکار و نظریات کا گہرا مطالعہ کیا مگر اس کے ذہنی اسیر نہیں ہوتے اسی سلسلہ میں مولاناابوالحسن علی ندوی نے فرمایا ہے کہ مشرق سے مغرب جاکر اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے اور بچانے میں کامیاب ہونے والوں میں تین شخصیات نمایاں طور پر شامل ہیں جن میں علامہ اقبال بھی ایک ہیںاسی لیے علامہ نے مغرب کے بگڑے ہوئے تہذیب و تمدن کا نہایت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اور اس پرکڑی تنقید کی کہ مغرب کا موجودہ نظام نوع انسانی کو تباہی و بربادی کی دلدل میں دھنسانے کا موجب ہے۔
علامہ اقبال کے افکار ونظریات کا بہت سے اصحاب ِ علم و دانش نے مطالعہ کیا ہے اور اس پر اپنی کتب تالیف کی ہیںاور وہ سب کتب اپنے اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں مگر ان کتب میں چند امور کا لحاظ نہیں رکھاگیا یا تو و ہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کو مخاطب کرتی ہیں یا پھر مبتدی کو اگر مخاطب کرتی بھی ہیں تو ان میں اختیار کیا گیا اسلوب پیچیدہ و گنجلک ہے۔وفاقی وزارت مذہبی امور سے ریٹائرڈ جوائنٹ سیکریڑی حج و عمرہ جناب محمد الیاس ڈار بھی اقبال شناسوں میں شمار ہوتے ہیں ۔محمد الیاس ڈار صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد٢٠٠٨ ء سے خالص دینی تعلیم و تریت کو فروغ دینے کے لئے دعوت فائونڈیشن پاکستان کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔اس ادارہ کی تعلیمی و دعوتی سرگرمیوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد ڈار صاحب نے محسوس کیا کہ اقبال کو سمجھنے کے لئے مبتدی طلبہ کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتاہے اس لئے انہوں نے علامہ اقبال کے کلام کو ایک نئے انداز سے ترتیب دینے کا آغاز کیا ۔ان کی یہ کوشش سخن اقبال کے نام سے مارکیٹ میں آچکی ہے ۔
سخن اقبال کو اس انداز سے ترتیب دیاگیاہے کہ اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔پہلے حصہ کے تین مرحلے ہیں ۔اول مرحلہ پرائمری جماعتوں اور مدارس کے ابتدائی درجوں کے طلبہ کے لئے ،دوسرا مرحلہ مڈل سکولوں اور مدارس کے درجہ متوسط کے طلبہ کے لئے اور تیسرامرحلہ ہائی سکولوں ،کالجوں اور دینی مدارس کے اعلیٰ درجات کے طلبہ کے لئے مختص ہے۔ دوسرے حصے میں علامہ اقبال کے منفرد بارہ موضوعات پر مشتمل اشعار کو درج کیا ہے ۔وہ موضوعات یہ ہیں: خودی، فقر،عشق ،عشق قرآن، عشق رسولۖ، مومن، شاہین، مغربی تعلیم، مغربی تہذیب، اسلام کی نشات ثانیہ،دخترانِ ملت کے نام،اورپیام بذریعہ جاوید اقبال۔
اس کتاب کی دوسری انفرادیت اور امتیاز یہ ہے کہ اس میں مشکل الفاظ اور فارسی اشعار کا ترجمہ اس ترتیب سے درج کیا گیا ہے کہ طویل نظموں کے ہر بند کے بعد مشکل الفاظ کے معانی شعر نمبر کی ترتیب سے درج کردئیے گئے ہیں ۔اسی طرح ہر نظم سے حاصل شدہ سبق اور طویل نظموں کا تعارف بھی تحریر کردیا گیا ہے۔امید ہے کہ سخن اقبال علامہ کے افکار سے محبت رکھنے والوں اور خاص طور پر ابتدائی اقبال شناسی حاصل کرنے والوں کے لئے راہنما ثابت ہوگی۔
تحریر: عتیق الرحمن۔ اسلام آباد
atiqurrehman001@gmail.com
03135265617