تحریر: عفت بھٹی
لفظ برائے فروخت؛ ایسے لفظ جو عوام کو جگانے کا سبب بنیں ۔ایسے لفظ جو معاشرے کی سچائی دکھائیں ،ایسے لفظ جن کو زر کا تڑکہ لگائیں تو آپ نام پیدا کر سکتے ہیں ،ایسے لفظ جوآپ کے تو نہیں مگر آپ کے ہو سکتے ہیں۔پہلے آئیے پہلے پائیے ۔اگرچہ انمول ہیں مگر معاشرے کی بے وقعتی کا شکار ہیں انہیں خریدکر اپنی قسمت چمکائیں ۔صرف امیر لوگ رجوع کریں جو اس کی خاطر خواہ قیمت دے سکیں ۔مضمون، ناول ڈرامہ،افسانہ، کالم ،آب بیتی۔ جو چاہیں لکھوائیں اور اپنے نام سے چھپوائیں کیونکہ لفظ برائے فروخت ہیں ۔ضرورت مند جلد رابطہ کریں تاکہ میری ضرورت بھی پوری ہو سکے۔
گھر برائے فروخت،کار برائے فروخت،سامان برائے فروخت کے اشتہارات تو آپ نے بارہا دیکھے ہوں گے۔یہ تمام اشتہار ضرورت کے تحت دیے جاتے ہیں تاکہ عوام تک یا ضرورت مندوں تک خبر پہنچ جائے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ضرورت پوری کر لیں ۔یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس عمل سے بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں ۔زمانے کی اخلاقی تنزلی ، غربت کی ترقی اور معاشرتی چیرہ دستیوں نے یہ دن بھی دکھائے کہ اشتہارات میں تبدیلی آنے لگی اور گردہ برائے فروخت،بچے برائے فروخت،ڈگریاں برائے فروخت کے اشتہار بھی نظر آنے لگے یہ اشتہار کسی اخبار میں نہیں چھپتے بلکہ بیچنے والے سڑک کنارے خاموش لبوں ، بہتی آنکھوں او ر مجبوریوں سے مزین شکوہ کناں حالات سے تنگ آکر یہ لہو رنگ تحریر کاغذوں پہ چسپاں کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔
ہے کوئی جو ان کی مجبوریاں خرید لے ۔اور ان کو ان حالات سے بچالے جو غربت نے ان کا مقدر بنا دیے ہیں ۔ایسا ہی اشتہار میں نے بھی مندرجہ بالا پیراگراف میں دیا ہے ۔میرے کچھ قا رئین مسکرا رہے اور کچھ طنز بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور کچھ حقیقتِ حال کو سمجھ رہے ۔بحر ِ طور اگر آپکی طبع نازک پہ گراں نہ گذر ے تو میں اس اشتہار کا مقصد اور پس ِ منظر آپ کے گوش گذار کرنا چاہتی ہوں ۔میں کسی دروغ گوئی سے کام نہیں لوں گی کیونکہ جب میں ان الفاظ کو دائرہ تحریر میں لا رہی ہوں، تو میری آنکھوں میں آنسوئوں کی نمی اور دل میں ایک درد پنہاں ہے ۔بلکل اسی طرح جس طرح ایک ماں جو اپنے جگر گوشے لے کے سڑک کنارے بیٹھی ہو اور ایک بورڈ ہاتھوں میں تھام رکھا ہو جس پہ بچے برائے فروخت تحریر ہو ۔آئیے میرے ماضی کی طرف چلتے ہیں ۔
مجھے بچپن ہی سے لفظوں سے محبت تھی مجھے ان سے کھیلنا اچھا لگتا تھا ان کو پڑھنا، ان کو لکھنا، ان کو بنانا ، ان کو سنوارنا،ان سے باتیں کرنا میرا محبوب مشغلہ تھا رفتہ رفتہ یہ مشغلہ عشق میں بدل گیا ۔پہلے کاپیوں کے کاغذوں پہ ،پھر چھوٹی چھوٹی ڈائریوں پہ لفظ بے ترتیبی سے اٹھکیلیاں کرنے لگے ۔وقت کے ساتھ ساتھ ان میں شعورآتا گیا اور یہ شرارتوں سے سنجیدگی میں ڈھل گئے اب یہ درد بھی محسوس کرنے لگے تھے ۔لوگوں کا دکھ ،ان کے آنسو ،نا انصافیاں ،غصہ ،غم ،خوشی ، طنز غرض انہوں نے وہ تمام روپ اپنائے جو ماحول میں موجود تھے ،کبھی یہ حوادث پہ شکوہ کناں ہوئے تو کبھی غموں میں ماتم کناں،کبھی مستیوں میں خوش ہوئے تو کبھی حیرت میں غوطہ زن۔ یہ متوسط طبقے کے ہمنوا تھے اور ان کے دکھ پہ روتے اور خوشی میں خوش ہوتے۔
جانے یہ سلیقہ کہاں سے پا لیا تھا ۔پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب یہ ڈائریوں سے نکل کر عوام تک رسائی حاصل کر گئے۔بہت دوست نواز تھے یہ جہاں جاتے اپنائے جاتے ۔مگر ان کی بھی ایک مجبوری تھی کہ ان کے ساتھ ایک پیٹ نما شئے بھی لگی ہوئی تھی کیونکہ ان کو اور کوئی کام تو آتا نہ تھا کہ اس کو زریعہ معاش بنا لیتے ۔زر ایک ایسی زندہ حقیقت ہے کہ اس کے بغیر ہم سانس بھی نہیں لے سکتے ۔جہاں زر نہیں وہاں بھوک ،افلاس اور تنگدستی کے ڈیرے ہیں جو اس حقیقت سے انکار کرتا ہے وہ بے وقوف اور خوش فہم ہے یا پھر ناقص العقل۔موجودہ دور میں زر کتنا ضروری ہے؟ اس کا اندازہ ہر صاحبِِ عقل رکھتا ہے ۔سو جب ان کی اخبار تک رسائی ہوئی تو انہوں نے اس کا خراج وقت کی صورت مانگا کیوں کہ اپنے لیے لکھنا اور بات ہے عوام کے لیے اور بات اس کے لیے تحقیق،تدبیر،تجربہ درکار ہوتا اور ان سب کے لیے وقت اور پیسہ۔وقت تو کسی نہ کسی طرح نکل آتا مگر کاغذ کالے کرنے کا فائدہ نظر نہ آیا الٹا یہ طعنہ ملا کیا ہر وقت لکھتی رہتی ہو کیا دیتے ہیں اخبار والے اور تو اور انٹر نیٹ کا ہی خرچ اضافی کر لیا ہے۔
اب اس پہ میرے لفظ بھی سر جھکا کے بیٹھ گئے کیونکہ حقیقت تھی ،بحر طور اس ادبی سمندر کے کئی پیراکوں سے پتا کیا تو وہ ایسا کورا جواب آیا کہ جیسے کسی بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہو تب یقین صادق ہوا کہ فنکار اور ادیب بھوکا ہی مرتا ہے ۔حالانکہ اخبارات والے لکھنے والوں کی کمائی ہی کھاتے ہیں مگر ادیب کچھ اعزازیہ طلب کریں تو منہ کی کھاتے ہیں ۔سات سال میرے لفظ برداشت کا امتحان دیتے رہے اور بنتے بگڑتے رہے میں انہیں لالچ دیتی رہی خیر ہے کبھی تو صبح ہوگی مگر افسوس ایسی صبح نہ ہوئی۔
اصل میں پاکستان پہ کچھ مخصوص لوگ ہی قابض ہیں اور وہ کسی کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے ۔خواہ میڈیا ہو یا حکومت یا کوئی محکمہ ہر جگہ یہی حال ہے ۔پھر مجھے کسی نے بتایا کہ ادبی دنیا بھی اندھیر نگری چوپٹ راج ہے ۔ہاں ایک صورت ہے پیٹ اور جیب بھرنے کی کہ اپنے لفظ بیچ دو ۔پہلے تو سمجھ ہی نہ آیا کہ یہ کیسے ممکن ہے مذید بحث پہ پتہ چلا کہ صاحبِ زر کو لفظ درکار ہیں جن کے خالق کے طور پہ ان کا نام ہو اس کی خاطر وہ زر دیں گے اور لفظ لیں گے۔تم ساری عمر بھی لگی رہو تو کچھ نہ بن پائے گا بہتر ہے یہ راستہ پکڑو ۔آہ کتنا تکلیف دہ عمل ہے اپنے لفظ خود سے جدا کرنا ،جیسے اپنی تخلیق کو وجود سے جدا کیا جائے ۔ایک دوست نے کہا ہمیں لکھنا ہی چھوڑ دینا چاہیے ۔مگر ایسا نا ممکن ہے ہمیں عادت ہے ان لفظوں کی ان سے جدائی منظور نہیں ۔سو مجبورا لفظ بیچنے نکلی ہوں ہے کوئی خریدار تو رابطہ کرے۔
تحریر: عفت بھٹی
iffatbhatti299gmail.com