تحریر : انجینئر افتخار چودھری
تین راتوں کی غیر حاضری کے بعد آج ہی نلہ گائوں سے واپس آیا ہوں۔اس دوران آزاد کشمیر کے انتخابات میں نون لیگ نے ساری پارٹیوں کا صفایا کر دیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی چاروں شانے چت ہوئی ہے وہیں اپنی تحریک انصاف کا بھی دھڑن تختہ ہوا ہے۔سردار عبدالقیوم خان کی مسلم کانفرنس بھی سر پیٹنے والوں میں شامل ہو گئی ہے۔آزاد جمو ں و کشمیر کے انتحابات کا یوں تو کہا جاتا ہے اور غالب کی طرح دل کو تسلی بھی اسی منطق سے آتی ہے کہ جو مرکز میں ہوتا ہے وہی جیت سے ہمکنار ہوتا ہے۔لیکن اس سے تشفی نہیں ہوئی۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو اپنی کار کردگی کی وجہ سے مار پڑی ہے۔لیکن یہاں ایک چشم دید گواہ کی بھی بات کروں گا جو ہریپور سے اپنے ایک عزیز جاوید اقبال بڈھانوی کی انتحابی مہم میں شریک ہونے کھڈ گجراں گیا تھا۔
اس نوجوان نے جو کہانی بتائی اس سے اندازہ ہوا کہ کہ آر اوز نے کام دکھایا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ ابھی نتائج آ رہے تھے اور ٹی وی پر جاوید اقبال بڈھانوی کو ہرا دیا گیا تھا۔بلکہ چند ہزار ووٹوں سے جیتنے والے حاجی جاوید بڈھانوی چند سو سے ہار گئے۔ ویسے انہوں نے جیتنا نہیں تھا اس لئے کہ بڈھانوی کی جیت در اصل آزاد کشمیر کے ایک بڑے سیاسی خاندان کی سیاسی موت تھی۔ویسے میں نے خود جتنے تبصرے پڑھے اس میں نوجوان بڈھانوی کی فتح کی نوید تھی۔ویسے سچ پوچھیں ٢٠١٣ میں جب پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ الیکشنز آر اوز کے ہیں تو اسے پیپلز پارٹی نے بھی ماننے سے انکار کر دیا تھا۔میں نے اپنے کالم کا عنوان معروف شاعر منور ہاشمی کے ایک شعر سے منتحب کیا ہے پورا شعر کچھ یوں ہے
تیری گلی میں قتل ہو گیا ہوں،ٹھیک ہے
تیرا بھی کام ہو گیا میرا بھی کام ہو گیا
اب پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو سر جوڑ کر رونا چاہئے اور ایک دوسرے کے کندھے پر رکھ کر باں باں کرنی چاہئے۔خاص طور پر برادر مطلوب انقلابی۔لطیف اکبر۔جاوید بڈھانوی۔اشفاق ظفر کو میری بات کی سمجھ آ گئی ہو گی جو عرصہ ء دراز سے کہہ رہا تھا کہ نواز شریف سے دوستی پولیس کی دوستی ہے اس گھوڑے کی آگاڑی اور پچھاڑی دونوں ہی خطر ناک ہیں۔ویسے ایک باخبر دوست کا کہنا تھا کہ نواز زرداری لندن ملاقات میں جو بہت سی چیزیں طے ہوئیں اس میں یہ بھی تھا کہ مسلم لیگ نون کو واک اوور دیا جائے گا تا کہ پانامہ لیکس کے شکنجے میں آئے ہوئے نواز شریف دنیا کو بتا سکیں کہ میں پاکستان کا اب بھی مقبول ترین لیڈر ہوں۔لیکن اس بھلے مانس کو علم نہیں کہ جو لوگ کسی جرم میں پکڑے جائیں اس کے ساتھ شہر کا شہر کیا ملک کے ملک ان کے ساتھ ہوں انہیں قانون کبھی معاف نہیں کرتا ۔سوال یہ نہیں کہ نواز شریف آزاد کشمیر کی ٣٢ سیٹیں لے گئے ہیں۔
لہذہ انہیں پانامہ لیکس سے بری قرار دیا جائے۔اگر مجرموںکے فیصلے سڑکوں پر طاقت کے اظہار سے ہوں گے تو پھر دنیا کے بڑے ڈرگز مافیا جن کے پاس عوام کو سڑکوں پر لانے کی قوت ہوتی ہے انہیں کیوں قانون کے شکنجے میں کسا جاتا ہے۔ سوال سادہ سا ہے اور یہ سوال کل بھی زندہ تھا ،اس وقت بھی موجود تھا جب میاں صاحب خود اس سوال کو لے کر پارلیمنٹ گئے تھے اور بتایا تھا کہ ہمارے خاندان پر کیا کیا گزری اور ہم نے کہاں کہاں سے جمع پونجی اکٹھی کر کے یہ ایمپائر بنائی۔
سوال آج بھی زندہ ہے ۔میاں صاحب کو بتانا پڑے گا کہ بھلے سے آپ پنجاب آزاد کشمیر بلکہ پورے پاکستان سے جیت جائیں لیکن یہ بتائیے کہ دبئی کی مل کے لئے پیسہ کہاں سے آیا اگر جدہ کی مل کے لئے دبئی سے پیسہ آیا تو خسارے میں چلنے والی مل کو مطبقانی گروپ کے پاس بیچنے کے بعد کتنی رقم وصول ہوئی جس سے لندن کی پراپرٹی خریدی گئی۔میرا سوال تو زندہ ہے جس کے اٹھانے کی وجہ سے مجھ پر ایک نجی ٹی وی پر پنڈی کے ہارے ہوئے ایم این اے نے اپنے گماشتے سے حملہ کروایا ۔یہ الگ بات ہے گجر کٹ سے حملہ آوار کا تھوبڑا سوج گیا۔میرا سوال یہ تھا کہ جدہ پہنچتے ہی محمدیہ پلازہ جو شہر کی مہنگی ترین سڑک پر واقعہ ہے وہان حسین نواز نے پورا فلور رینٹ پر لیا یہ رقم کہاں سے آئی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ کشمیری انتحابات اور مقبوضہ کشمیر کی سیاسی صورتحال کے پیچھے نواز شریف نہیں چھپ سکتے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ٧ اگست سے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا ہے اس فیصلے کے پیچھے کارکنوں کی آواز تھی اس روز کنونشن میں جب شاہ محمود قریشی اتفاق اتحاد اور اپوزیشن سے مل کر چلنے کی بات کر رہے تھے تو کارکن میں سرگوشیاں شروع ہو گئیں تھیں زیرک سیاست دان نے لوگوں کا چہرہ پڑھ لیا اور جب اعلان کیا کہ دھما دھم مست قلندرکے لئے تیار ہو تو میریٹ کے ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے اسی پیپلز پارٹی کو پورے پاکستان کے سامنے لوٹ مار کرنے والی پارٹی کہا اور جب ٹی او آرز کے سلسلے میں بات چیت شروع ہوئی تو لوگ حیران ہو گئے کہ کیا پی ٹی آئی ان کے ساتھ، ان کے پیچھے ہو کر انصاف کی جد و جہد اور نفاست کی لڑائی لڑے گی۔ کارکن توایک روز تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا جب اس نے پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کو کرپشن کے خلاف نکلتے دیکھا۔
راجہ رینٹل اور ترکی ہار کیس اسے یاد تھا حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور وہ بھی زرداری پارٹی کبھی بھی نواز شریف سے الگ نہیں ہے۔میاں صاحب نے آصف علی زرداری کو پانچ سال ٹیک دی اور جواب میں پیپلز پارٹی اسے سہارا دے گی۔
آزاد کشمیری انتحابات یاد رکھئے اسی ڈیل کا نتیجہ تھے۔اس سے چودھری عبدالحمید کو اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں۔پی ٹی آئی کے بارے میں ہمیں پہلے ہی پتہ تھا کہ وہ بری طرح ہارے گی۔فرنچائزڈ پی ٹی آئی کو یہی کچھ ملنا تھا۔پورے آزاد کشمیر میں کسی ایک نظریاتی کو ٹکٹ نہیں دیا گیا الیکٹیبلز کو آگے آنے دیا گیا۔بیریسٹر سلطان محمود کو بھی چودھری عبدالمجید کی طرح استعفی دے دینا چاہئے۔
انتحابات ہو چکے ہیں اب دیکھئے گا نون لیگ نے بھان متی کا کنبہ جوڑ کر جو گھر بنایاہے یہ اس کے لئے سردردی بنے گا۔راجہ فاروق حیدر اس بار صبر کریں اقتتدار اس بار لمبے ہاتھوں سے نکل کر لمبی ناکوں والوں کے پاس جا رہا ہے۔اس موقع پر میں اپنے ان دوستوں سے سوٹھا کر رہا ہوں جنہیں اس بار اسمبلی میں جانے کا موقع نہیں ملا۔یہ انتحابات ثابت کر گئے ہیں کہ حالیہ انتحابات کا فیصلہ کہیں اور ہو چکا تھا۔جو ہار گئے وہ صبر کریںاور جو جیت گئے وہ نئی لڑائی کے لئے تیار رہیں۔اس لئے کہ انتحابات اپنی مدت کبھی نہیں پوری کریں گے۔اس لئے کہ مرکز کا منظر نامہ بدلنے والا ہے اور جب منظر اسلام آباد میں بدلے گا اس کا اثر کوہالہ پار بھی ہو گا۔
پیپلز پارٹی اگر نون لیگ کی دوست نہ ہوتی تو وہ چار حلقے کھولنے کی بات کرتی۔پی ٹی آئی نے ٢٠١٣ کے انتحابات کیاخلاقی وجود کو چیلنج کر کے ثابت کیا کہ کے وہ آر اوز کے انتحابات تھے جن چار حلقوں کی بات کی وہ چاروں کے چاروں فرڈ نتائج کے حامل تھے۔کیا پیپلز پارٹی جاوید اقبال بڈھانوی کے ایک حلقے کو کھولنے کا مطالبہ کرے گی؟ہر گز نہیں اس لئے کہ نکیال کا فیصلہ لندن میں ہو چکا تھا۔
پاکستان میں حقیقی جمہوریت کب آئے گی۔اس کے لئے نسلوں کو انتظار کرنا ہو گا فاروق حیدر صاحب آپ بھی یہ شعر یاد کر لیں
تیری گلی میں قتل ہو گیا ہوں،ٹھیک ہے تیرا بھی کام ہو گیا میرا بھی کام ہو گیا
تحریر : انجینئر افتخار چودھری