لاہور: پی ایس ایل 3 نزدیک آگئی تاہم ایسے میں پی سی بی نے بھی کرپشن کیسز کی گرد آلود فائل جلد بند کرنے پر کام تیز کردیا ہے۔
گزشتہ سال پاکستان سپر لیگ 2کے آغاز میں ہی سامنے آنے والے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں شرجیل خان، خالد لطیف، شاہ زیب حسن اور محمد عرفان کے نام سامنے آئے، ناصر جمشید کو سہولت کاری کا ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔
جسٹس(ر) اصغر حیدر کی سربراہی میں کام کرنے والے اینٹی کرپشن ٹریبیونل نے شرجیل خان کو ڈھائی سال معطل سمیت 5سال پابندی کی سزا سنائی، اپیل میں پی سی بی نے کم سزا جبکہ اوپنر نے پابندی کو چیلنج کیا تھا لیکن ایڈجوڈیکیٹر جسٹس(ر) فقیر محمد کھوکھر نے دونوں کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے ٹریبیونل کا فیصلہ برقرار رکھا، خالد لطیف پر ٹریبیونل نے 5 سالہ پابندی کے ساتھ 10لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا تھا، پی سی بی نے کم سزا کیخلاف اپنی اپیل واپس لے لی جبکہ اوپنر نے فیصلے کیخلاف درخواست دائر کر رکھی تھی جس پر ایڈجوڈیکٹر نے 8 جنوری کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو بدھ کو سنا دیا گیا۔
خالد لطیف پر پابندی کی سزا برقرار رکھی گئی جبکہ تھوڑی رعایت برتتے ہوئے 10 لاکھ روپے جرمانہ ختم کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اسی کیس میں سہولت کاری کے ملزم ناصر جمشید کو تحقیقات میں عدم تعاون پر ٹریبیونل نے ایک سال پابندی کی سزا سنائی تھی، بکی کے رابطے کی اطلاع نہ کرنے پر محمد عرفان 6 ماہ کیلیے معطل ہوئے تھے، طویل قامت پیسرکی سزا پوری ہوچکی اور انھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میچز میں حصہ بھی لیا،وہ پی ایس ایل میں بھی شریک ہونگے، شاہ زیب حسن کا کیس ٹریبیونل میں چل رہا تھا۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران پی سی بی نے حتمی تحریری دلائل جمع کرا دیے جبکہ شاہ زیب حسن نے 6فروری تک مہلت مانگی ہے۔ اس کارروائی کے بعد ٹریبیونل نے اوپنر کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو قوائد کے مطابق 30دن میں سنایا جائے گا، پی سی بی نے دیگر کھلاڑیوں کو فکسنگ پر اکسانے کا الزام بھی ثابت ہونے پر شاہ زیب حسن کو سخت سزا دینے کی درخواست کردی ہے، تیزی سے اسپاٹ فکسرز کے کیسز نبٹائے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ایس ایل تھری سے قبل پی سی بی گذشتہ ایونٹ کی تنازعات ختم کرتے ہوئے عبرت کی کہانیوں کے ساتھ نئی شروعات کرنے کا خواہاں ہے۔
میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بورڈکے قانونی مشیر تفضل رضوی کا کہنا ہے کہ خالد لطیف پر عائد کردہ تمام الزامات درست ثابت ہوئے ہیں، اوپنر نہ صرف بک میکر سے 2 بار ملے بلکہ دوسری مرتبہ جاتے ہوئے ساتھی کرکٹر شرجیل خان کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے،یہ شواہد جرم ثابت کرنے کیلیے کافی ہیں۔
تفضل رضوی نے کہا کہ کسی کو سزا دلانے پر پی سی بی کو خوشی نہیں ہوتی لیکن قانون سے کوئی بالاتر نہیں،کرپٹ کرکٹرز سے چھٹکارا پانا ضروری ہے،امید ہے کہ دیگر کھلاڑی اس سے سبق سیکھیں گے،اگر کوئی ایسا سوچ بھی رہا ہے تو خیال جھٹک دے،اگر کسی سے کوئی بکی رابطہ کرے تو اس کو بلاتاخیر متعلقہ حکام کو رپورٹ کرنا چاہیے۔
دوسری جانب جرمانہ ختم کیے جانے کے حوالے سے عام تاثر یہی ہے کہ پابندی کی سزا مکمل ہونے تک خالد لطیف 36سال کے ہوچکے ہونگے،اس وقت ان کیلیے کرکٹ کیریئر کا احیا ممکن نظر نہیں آتا۔
تفضل رضوی نے اس حوالے سے سوال پر کہا کہ 5سالہ پابندی کے فیصلے سے بظاہر ان کا کیریئر ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے، وہ اس پوزیشن میں نہیں ہونگے کہ جرمانے کی رقم ادا کرسکیں۔یاد رہے کہ خالد لطیف کے وکیل بدرعالم ایٖڈجوڈیکیٹر کا فیصلہ سننے کیلیے نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں موجود نہیں تھے، ماضی میں وہ پی سی بی پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے ٹریبونل کی سماعتوں میں پیش ہونے سے گریز کرتے رہے ہیں،انھوں نے ٹریبیونل کی کارروائی رکوانے کیلیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست اور پھر اپیل بھی کی لیکن دونوں مسترد ہوئیں۔
ذرائع کے مطابق پی سی بی کی جانب سے تفصیلی فیصلے کی کاپی ملنے پر خالد لطیف نے ایک بار پھر لاہور ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ اس سے قبل شرجیل خان بھی اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرچکے ہیں۔