counter easy hit

ورکشاپس میں کام کرنے والے بچے

Child Labour

Child Labour

تحریر: کامران لاکھا
بچوںسے مشقت کرانے اور سکول جانے والی عمر کے بچوں کو سکول جانے سے روکنے سے متعلق ملکی اور صوبائی سطح پرکسی قسم کے قوانین موجود ہیں ان میں ایسے بچوں کی نا صرف حقوق واضع کیے گئے ہیں بلکہ ان سے مشقت کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی تفصیل بھی درج ذیل کی گئی ہے اس کے باوجود کسی ایک جگہ نہیں بلکہ درجنوں جگہوں پر آج بھی ان قوانین کی دھجیاں اڑتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں ایک اندازہ کے مطابق گیارہ کروڑ سے زائد بچے مختلف اندازسے مشقت کرنے سے مجبور ہیں اور ان میں تقریباًپانچ کروڑ ایسے بچے ہیں جو انتہائی خطرناک صورت حال میں کام کرنے پر مجبور ہیں دنیا بھر میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد اکیس کروڑ سے زیادہ ہے اور ان اعدادو شمار میں مختلف قوانین بننے اوروقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہی ہو رہا ہے سویرا گزشتہ عید پر اپنی دادو سے ملنے دوسرے شہر گئی تو دادو کے ساتھ انہیں کسی گاؤں جانا پڑا راستے میں ایک جگہ انہیں دور سے ایک چمنی سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آیااس نے اپنے پا پا سے پوچھا پا پا یہ دھواں ساکہا سے اٹھتا ہے اس کے پا پا سویرا کی انگلی کے اشارے کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا لگتا ہے وہاں کوئی جن سگریٹ پی رہا ہے اس کا سگریٹ تو نظر آرہا ہے جن بھی قریب جا کر دیکھتے ہیں سویرا جانتی تھی کہ اس کے پا پا مذاق کر رہے ہیں کیونکہ اسے معلوم تھا کہ نہ تو وہاں جن ہے اور نہ ہی وہ سگریٹ ہے بلکہ وہ تو ایک بڑی سی چمنی ہے خیر جب وہ اس کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ اینٹیں پکانے والی بھٹی ہے اس سے تھوڑا آگے گئے تو سڑک کے کنارے کچھ مرد عورتیںاور بچے کچی اینٹیں بنا رہے تھے۔

اس کے پا پا نے گاڑی سڑک پر روکی اور اینٹیں بنانے والوں کے پاس سب بچوں کو لے کر چلے گئے سویرا اور اس کے ساتھ موجود سب لوگ یہ جان کربہت حیران ہوئے کہ یہ سب لوگ ایک ہی خاندان کے افراد ہے وہاں چار سال تک بچے اجرت کیلئے کام کررہے تھے اور کسی کویہ احساس بھی نہیں تھا کہ ان کے حقوق کیا ہیں فرحان خان ایک بہت ہی بگڑاہوا بچہ ہے اس کے والد ایک کاروباری شخصیت ہیں وہ اپنے بچوں کا بڑا خیال کرتے ہیں ایک دن وہ گھر سے دفتر جانے کیلئے نکلے تو راستے میں گاڑی پنکچر ہو گئی ٹائیر کو پنکچر لگوانے کیلئے ٹائیر شاپ پر گئے تو آٹھ نو سال کے بچے نے ان کا استقبال کیا انہیں ایسے استقبال کی توقع نہیں تھی انہوں نے بچے سے کہا کسی بڑے کو بلاؤ تاکہ وہ ٹائیر کو پنکچر لگا سکے مگر وہاں کوئی بڑا نہ آیا مجبوراًانہیں اس بچے سے گاڑی کا ٹائیرپنکچر لگوانا پڑا انہوں نے اس بچے سے پوچھا کہ اسے یہاں کام کرنے کا کتنا معاوضہ ملتا ہے تو اس نے بتایا کہ وہ دوپہر کے کھانے اور کرائے کے علاوہ تیس روپے روزانہ ملتے ہیں گویا ایک ہزار ماہوار سے بھی کم فرحان خان کے ابو نے حسا ب لگایا کہ چھٹی کے روز جب وہ بچوں کو لے کر تفریح کیلئے نکلتے ہیں تو کئی ہزار روپے خرچ کر دیتے ہیں۔

بڑے محتاط اندازے سے بھی حساب لگایا جائے تو ہر ماہ چھ سے سات ہزار روپے اسی مد میں خرچ ہو جاتے ہیں اگر وہ ایک ہزار روپے ماہوار اس بچے کو دے دیں اور ساتھ ساتھ اس بچے کو کسی سکول میں داخل کرا دیں تو اس کی زندگی سنور سکتی ہے انہوں نے اس بچے سے اس کا گھر پتہ معلوم کیا اور شام کو اس کے گھر چلے گئے وہاں جا کر انہیں معلوم ہوا کہ اس بچے کے سر پر اس کے باپ کا سایہ نہیں ہے وہ اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ بھرنے کیلئے وہ سخت نوکری کرتا ہے اس کی ماں بھی لوگوں کے گھروں میں صفائی وغیرہ کا کام کرتی ہے فرحان کے ابو نے اس بچے کی ماں کو بتایا کہ ان کی اس طرح مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس نے ہچکچاتے ہوئے حانی بھر لیانہوں نے فوری طور پر جیب سے ہزار روپے کا نوٹ نکال کر انہیں دے دیا گھر آکر انہوں نے اپنے بیٹے فرحان کو آج پیش آنے والا واقعہ سنایا تو دنیا بھر میں اکیس کروڑ سے زیادہ بچے سکول جانے کی بجائے مزدوری کرتے ہیں ورکشاپس میں کام کرنے والے بچے مہینے بھر میں اتنا نہیں کما پاتے جتنا بعض بچے ایک دن کی تفریع پراڑا دیتے ہیں۔

بچوں سے مشقت کرانے اور سکول جانے والی عمر کے بچوں کو سکول جانے سے روکنے سے متعلق ملکی اور صوبائی سطح پرکسی قسم کے قوانین موجود ہیں ان میں ایسے بچوں کی نا صرف حقوق واضع کیے گئے ہیں بلکہ ان سے مشقت کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی تفصیل بھی درج ذیل کی گئی ہے اس کے باوجود کسی ایک جگہ نہیں بلکہ درجنوں جگہوں پر آج بھی ان قوانین کی دھجیاں اڑتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں ایک اندازہ کے مطابق گیارہ کروڑ سے زائد بچے مختلف اندازسے مشقت کرنے سے مجبور ہیں اور ان میں تقریباًپانچ کروڑ ایسے بچے ہیں جو انتہائی خطرناک صورت حال میں کام کرنے پر مجبور ہیں دنیا بھر میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد اکیس کروڑ سے زیادہ ہے اور ان اعدادو شمار میں مختلف قوانین بننے اوروقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہی ہو رہا ہے سویرا گزشتہ عید پر اپنی دادو سے ملنے دوسرے شہر گئی تو دادو کے ساتھ انہیں کسی گاؤں جانا پڑا راستے میں ایک جگہ انہیں دور سے ایک چمنی سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آیااس نے اپنے پا پا سے پوچھا پا پا یہ دھواں ساکہا سے اٹھتا ہے اس کے پا پا سویرا کی انگلی کے اشارے کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا لگتا ہے وہاں کوئی جن سگریٹ پی رہا ہے اس کا سگریٹ تو نظر آرہا ہے جن بھی قریب جا کر دیکھتے ہیں سویرا جانتی تھی کہ اس کے پا پا مذاق کر رہے ہیں کیونکہ اسے معلوم تھا کہ نہ تو وہاں جن ہے اور نہ ہی وہ سگریٹ ہے بلکہ وہ تو ایک بڑی سی چمنی ہے خیر جب وہ اس کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ اینٹیں پکانے والی بھٹی ہے اس سے تھوڑا آگے گئے تو سڑک کے کنارے کچھ مرد عورتیںاور بچے کچی اینٹیں بنا رہے تھے۔

اس کے پا پا نے گاڑی سڑک پر روکی اور اینٹیں بنانے والوں کے پاس سب بچوں کو لے کر چلے گئے سویرا اور اس کے ساتھ موجود سب لوگ یہ جان کربہت حیران ہوئے کہ یہ سب لوگ ایک ہی خاندان کے افراد ہے وہاں چار سال تک بچے اجرت کیلئے کام کررہے تھے اور کسی کویہ احساس بھی نہیں تھا کہ ان کے حقوق کیا ہیں فرحان خان ایک بہت ہی بگڑاہوا بچہ ہے اس کے والد ایک کاروباری شخصیت ہیں وہ اپنے بچوں کا بڑا خیال کرتے ہیں ایک دن وہ گھر سے دفتر جانے کیلئے نکلے تو راستے میں گاڑی پنکچر ہو گئی ٹائیر کو پنکچر لگوانے کیلئے ٹائیر شاپ پر گئے تو آٹھ نو سال کے بچے نے ان کا استقبال کیا انہیں ایسے استقبال کی توقع نہیں تھی انہوں نے بچے سے کہا کسی بڑے کو بلاؤ تاکہ وہ ٹائیر کو پنکچر لگا سکے مگر وہاں کوئی بڑا نہ آیا مجبوراًانہیں اس بچے سے گاڑی کا ٹائیرپنکچر لگوانا پڑا انہوں نے اس بچے سے پوچھا کہ اسے یہاں کام کرنے کا کتنا معاوضہ ملتا ہے تو اس نے بتایا کہ وہ دوپہر کے کھانے اور کرائے کے علاوہ تیس روپے روزانہ ملتے ہیں گویا ایک ہزار ماہوار سے بھی کم فرحان خان کے ابو نے حسا ب لگایا کہ چھٹی کے روز جب وہ بچوںکو لے کر تفریح کیلئے نکلتے ہیں تو کئی ہزار روپے خرچ کر دیتے ہیں بڑے محتاط اندازے سے بھی حساب لگایا جائے تو ہر ماہ چھ سے سات ہزار روپے اسی مد میں خرچ ہو جاتے ہیں اگر وہ ایک ہزار روپے ماہوار اس بچے کو دے دیں اور ساتھ ساتھ اس بچے کو کسی سکول میں داخل کرا دیں تو اس کی زندگی سنور سکتی ہے۔

انہوں نے اس بچے سے اس کا گھر پتہ معلوم کیا اور شام کو اس کے گھر چلے گئے وہاں جا کر انہیں معلوم ہوا کہ اس بچے کے سر پر اس کے باپ کا سایہ نہیں ہے وہ اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ بھرنے کیلئے وہ سخت نوکری کرتا ہے اس کی ماں بھی لوگوں کے گھروں میں صفائی وغیرہ کا کام کرتی ہے فرحان کے ابو نے اس بچے کی ماں کو بتایا کہ ان کی اس طرح مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس نے ہچکچاتے ہوئے حانی بھر لیانہوں نے فوری طور پر جیب سے ہزار روپے کا نوٹ نکال کر انہیں دے دیا گھر آکر انہوں نے اپنے بیٹے فرحان کو آج پیش آنے والا واقعہ سنایا تو اسے یقین بھی نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے چند روز بعد ان کا دوبارہ ٹائیر شاپ پر جانے کا اتفاق ہوا تو ٹائیر شاپ کا مالک ان سے جھگڑا کرنے لگا کہ انہوں نے اس کا ملازم بھگا دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترانا آف لاکھا
امن کا اعلان ہے” لاکھا” ہر دل کا ارمان ہے” لاکھا ”
شہر میں طوفان ہے” لاکھا ” ہمت کی پہچان ہے ” لاکھا ”
دل والوں کی جان ہے “لاکھا” قوم یہ عالی شان ہے” لاکھا”
سن لو ہم دو چار نہیں ہیں پوری دنیا میں آباد ہے” لاکھا ”
جیولاکھا جیو ہرپل جیو لاکھا

اسے یقین بھی نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے چند روز بعد ان کا دوبارہ ٹائیر شاپ پر جانے کا اتفاق ہوا تو ٹائیر شاپ کا مالک ان سے جھگڑا کرنے لگا کہ انہوں نے اس کا ملازم بھگا دیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترانا آف لاکھا
امن کا اعلان ہے” لاکھا” ہر دل کا ارمان ہے” لاکھا ”
شہر میں طوفان ہے” لاکھا ” ہمت کی پہچان ہے ” لاکھا ”
دل والوں کی جان ہے “لاکھا” قوم یہ عالی شان ہے” لاکھا”
سن لو ہم دو چار نہیں ہیں پوری دنیا میں آباد ہے” لاکھا

Kamran Lakha

Kamran Lakha

تحریر: کامران لاکھا
0332-9176666+0345-7064020