تحریر : اسد سید
ترقی یافتہ قوموں کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ قومیں جو ترقی کے راستے پے گامزن ہیں ان کے نزدیک کیا کام ہیں جو ترجیحاتی بنیادوں پے کیے جاتے ہیں پہلے یوں لگتا تھا کہ شاید ہمارے حکمرانوں کو کوئی بتاتا ہی نہیں کے جنابِ مَن آپکی ترجیحات ہی درست نہیں پہلے اپنی ترجیحات کا تعین ٹھیک سے کریں تا کہ ہمارا ملک ہماری آنے والی نسل ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہو سکے اور بنیادی الجھنوں سے ہم آزاد ہو سکیں لیکن کل مُجھے شدید حیرت کا سامنا تب ہُوا جب عالمی بینک کے صدر جِم یونگ لاہور پہنچے اور شاہانہ مِزاج بھکاریوں نے عالمی بینک کے صدر کے استقبال کے بعد کروڑوں روپے خرچ کر کے لاہورکے ایک قدیمی اور تاریخی باغ میں عشائیہ دِیا جِس عشائیے کے بعد اُسی جِم یونگ نے پاکستانی حکمرانوں کے منہ پے ایسا جوتا مارا جو محسوس تک نہیں کیا گیا۔
حسبِ سابق سالوں کی طرح جِم یونگ نے اسحاق ڈار صاحب کے کشکول میں بھیک ڈالنے سے پہلے ایک طویل خطاب فرمایا جِس میں جِم یونگ نے کہا کہ پاکستان کو اب دو ٹوک اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے اور سپیشلی ہمارے پاکستانی وفد اور وفد کے سربراہ اسحاق ڈار کو مُخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ترجیحات بدلنی ہوں گی ، پاکستان کو چاہیئے کہ تعلیم،صحت ،بے روزگاری اور بہترین انفراسٹرکچر کے شعبوں پے بھی توجہ دیں،لیکن جب اسحاق ڈارصاحب کے خطاب کی باری آئی سب شُرکاء کا خیال تھا کہ وُہ کوئی جِم یونگ کی بتائی ہوئی ترجیحات پے بات کریں گے۔
لیکن مَجال ہے کہ اُنہوں نے ایک لفظ بھی شعبہ تعلیم،صحت اور بے روزگاری کے مسائل حل کرنے کے بارے میں بولا ہو اِس سے بڑھ کے اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ اسحاق ڈار صاحب نے ایک بات پے ہی سارا زور دِیا کہ جِم یونگ صاحب ہم پوری طرح پُر امید ہیں کہ ہم آپکی پرائیویٹائزیشن والی شرائط پے جلد سے جلد عمل کرسکیں گے اب بات کرتے ہیں ہم گراونڈ ویلیوز کی آج ہمارے مُلکِ پاکستان کے وزیر اعظم صاحب نے اسلام آباد کے ایک سکول کا دورہ کیا اور لائبریری کا اور کلاس رومز کا جائزہ لیا اور فرمان جاری کیا کہ ہم تعلیم کو ہر بچے تک پہنچائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔
وزیر اعظم صاحب بڑے ادب سے ارض ہے کہ یہ آپکی تیسری باری ہے حکومت کرتے اور جِس حکومت کا نِصف حصہ آپ تصویریں بنواتے ہوئے اور پریس کانفرنسز اور ارادہ کرتے ہوئے گُزار چُکے ہیں برائے مہربانی مُشیر تبدیل کر لیں اگر آپکو یہ حقیقت سے آ گاہ نہیں کرتے تو میرے گاوں میں جو کے منڈی بہاوالدین سنٹرل پنجاب کے ترقی یافتہ اضلاع میں گِنا جاتا ہے ابھی تک میرے گاوں میں بچیوں کے لیئے ہائی سکول نہیں میرے گاوں کی بچیوں کو پیدل ساتھ کے گاوں جا کے ہائی سکول داخلہ لینا پڑتا ہے یا ضلع منڈی بہاوالدین ہائی سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے لیئے جانا پڑتا ہے جو کے گرلز کے لیئے سفر کرنا آسان نہیں سپیشل پِک اینڈ ڈراپ برداشت سے باہر ہے اور پاکستانی ٹرین ہی پہلا اور آخری زریعہ ہے جو کے مہینے میں ایک ہی بار وقت پے آتی ہے۔
تعلیم پے کیا اسلام آباد کے باسیوں کا ہی حق ہے میرے پیارے وزیر اعظم صاحب تعلیم کو ضلعی سطح تک آسان بنانے کیلئے میرے خیال میں آپکو تین بار منصبِ حکومت پے بٹھانا پڑے گا یا پھر پہلے کی طرح آپکو خود ہی اعلیٰ عدلیہ و الیکشن کمیشن سے گٹھ جوڑ کرنا پڑے گا تا کہ آپ مزید بیس سال پاکستان کی حُکمرانی کر کے تعلیم آسان بنا سکیں۔
کیونکہ آپکے چھوٹے بھائی صاحب تیسری بار تختِ لاہور پے براجمان ہیں اور ابھی تک نہ ٹھیک ہوا تعلیمی انتظام ،نہ تھانہ کلچر نہ پٹوار خانہ شریف برادران کو اب یقین آ جانا چاہیئے کہ ہم سب نے آپکو دیکھ لیا اب ترجیحات بدل لیں برائے کرم اب گرین ٹرین ،میٹروبس اور فلائی اوور کے جنون سے باہر نکلیں اور عالمی بینک کے صدر کی بتائی ہوئی اور ترقی یافتہ قوموں کے وطیرے کو اپنائیں ،ترجیحات بدلیں گے تو قوم ترقی کرے گی نا کہ اچھی سواری سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔
تحریر : اسد سید