تحریر : شاہ بانو میر
کچھ روز پہلے فیس بک پر ایک اسٹیٹس دیکھا جس میں کسی انگریز نے لکھا تھا دنیا کی بہترین کتاب بد ترین لوگوں کے پاس یہ لمحہ فکریہ ہے ہمارے لئے آج اگر کوئی غیر مسلم ہمارے قرآن کی تعلیمات کو مانتا ہے اس کی قدر کرتا ہے اور اس میں درج اسباق کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے تو اسکا مطلب کہ ہمارے قول و فعل میں ہمارے طرزَ زندگی میں لین دین میں عام معاملات میں بطورَ امہ اس نے کٰی خرابیاں محسوس کیں تو اس نے کہیں یہ الفاظ کہے’ آئے خود کا محاسبہ کرتے ہیں آپً کے سامنےوہ بت پرست تھے دولت کی کثرت اور حرام مال کی کثرت شراب جوا زنا کاری اور فسق و فجور نے ان کے دماغوں کو بند کر رکھا تھا ‘ وہ آپکی پاکیزہ تعلیمات پر چہ بجبیں ہوتے اور ہر ممکنہ طریقے سے آپکو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے پھر ان ظالموں کی وجہ سے آپکو مکہ اپنا پیارا شہر چھوڑنا پڑا اور اللہ پاک کے حکم سے مدینہ جانا پڑا وہاں کا ماحول وہاں کے لوگ کشادہ سوچ اور دلوں کے مالک تھے
ماحول پرسکون اور انسان اچھے ہوں تو مدینہ کی گلیاں بن جاتی ہیں ‘جہاں جبر نہیں تھا جہاں گھٹن نہیں تھی ‘ نہ ہی انتشار کا موسم تھا ‘ نہ سرداری کا جھگڑا تھا اورنہ کھینچا تانی اسلام کے پرنور پیغامات کا سلسلہ وحی کی صورت نازل ہورہا تھا ‘ مگر یہاں منافقوں کا سامنا تھا آپً کا بڑہتا ہوا اثر و رسوخ لوگوں کی عقیدت اور صحابہ اکرام کا جاں نثار رویہ منافقین کو براہ راست محاذ آرائی سے روک رہا تھا لیکن ان کی منافقت پر آیات نازل ہوئیں سورہ البقرۃ یہ جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ×اور جب اپنے شیاطین سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو مذاق اڑاتا ہے
مدینہ کے دس سال بہت پرشور اور بہت سے جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئے لیکن ان معرکوں نے اسلام کا بو ل بالا کر کے آذخر کار ایک ایسا نظام حیات دنیا کو 23سالوں میں دے دیا کہ جس کے حرف حرف پر اللہ کی سچی مہر لگی ہوئی تھی اسلام کی ایسی قربانیوں کی داستانیں ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں آپً کے طویل محاذ آرائی کے دس سال اور پھر مکہ کی طرف واپسی اور آخرکار فتح مکہ پھر حج کا فریضہ ادا کیا اور اس کے ساتھ ہی دین کے مکمل ہونے کی خوشخبری پہلی بار کسی نبی ً کو ملی اور اس کے بعد بطورَ امت یہ امانت آگے بڑہانے کی ہمیں سونپ دی گئی افسوس کہ ہم نے نہ تو اس آفاقی دین کا شکریہ ادا کیا کہ الحمد للہ اللہ پاک نے ہمیں مسلمان والدین کے گھر پیدا کیا مگر ہم شکر گزار نہیں ہیں
سب کچھ اپنی ذات کا حق سمجھ لیتے ہیں دنیا کا نظام تبدیل کرنا آسان کام نہیں ہے خاص طور سے جب آپ کے پاس نہ دولت ہو نہ طاقت بلکہ غریب مفلوک الحال لوگوں کا ساتھ ہو لیکن یہی لوگ عام انسانوں سے مجاہد بنے اور ایسے جوش اور جزبے کے ساتھ میدانَ جنگ میں اترتے کہ دشمنوں کے دل دہل جاتے سوچئے آج ہمارے جزبے غیرت کا کیا عالم ہے؟ ہم آج اتنے بے حس ہو گئے کہ اپنی ذات اپنی توصیف سے آگے بڑہنے کو تیار نہیں موت کا پہرہ چاروں طرف امت مسلمہ پے گھیرا تنگ کرتا دیکھ رہے ہیں لیکن بطورَ مسلمان ہم نے انفرادی حیثیت میں کیا کیا؟ آج یہاں ہمارے بچے تعلیمی درسگاہوں میں زیرَ تعلیم ہیں ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ آپ سب لوگ کیسے مسلم ہیں کہ آپ کے دینی بھائیوں کو غیر مسلم ممالک پناہ دے رہے ہیں؟ کہاں ہے وہ جزبہ اخوت وہ بھائی چارہ؟ وہ اسلامی امت کی سوچ؟ مسلمان دنیا میں ہر طرف گرفتارَ مصائب کیوں ہیں مسلم ممالک کو آپس میں لڑا دیتے ہیں یا پھر برادر اسلامی ملک کے خلاف محاذ آرائی پر رضامند کر لیا گیا
آج وہی دور یاد آتا ہے جب بنی اسرائیل نے اللہ پاک کی نافرمانی کی اور غضبَ الہیٍ کو دعوت دی اور 40 سال تک وادی تیہ میں بھٹکتے رہے تب پچھلے نافرمان ختم ہوئے اور نئی نسل یوشعّ بن نون حضرت موسیٍ کے بہنوئی کی قیادت میں سختیاں جھیل کر اپنے اوپر محنت کر کے پھر سے بیت المقدس کو فتح کر کے اس وقت کے مسلمانوں یعنی یہودیوں کو فتح سے ہمکنار کیا یہی اب نظر آرہا ہے کہ نئی نسل ہماری طرح مصلحت پسند نہیں ہے وہ حق سچ کو برملا کہنا جانتی ہے اور یہی بہترین ہاتھوں کی علامت ہے’آج اگر کسی نے یہ کہا کہ بہترین کتاب بد ترین ہاتھوں میں تو کسی حد تک یہ بات درست ہے پچھلی نسل نے اپنی زندگی کو یورپ پہنچ کر صرف دولت کے حصول میں کھپا دیا
نتیجہ یہ ہوا کہ اولاد بڑی ہوئی تو پتہ چلا کہ سرمایہ حیات ڈبو دیا مگر ان کی اولاد نے آگے اپنی اولاد پر بہت محنت کی ہے ان کو یورپ میں امریکہ میں رہتے ہوئے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا شعور دلایا درست اور حقاٰئق پر مبنی اصل اسلام قرآن و سنت ،کی روشنی میں لے کر دنیا کے کونے کونے میں جائیں گے اللہ پاک ہم سب کو توفیق دے کہ ہم سب شعور کو جگا کر اپنی دنیا کو سمیٹتے ہوئے آخرت کی فکر اپنی اور اپنی اولاد کی سوچ میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو جائیں جبھی تو دنیا کی بہترین کتاب آئے گی بہترین ہاتھوں میں انشاءاللہ
تحریر : شاہ بانو میر