تحریر: علی عمران شاہین
یہ بات ہے 2000ء کی، لاہور میں ترکی کے چند نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ یہ نوجوان سیر کیلئے آئے تھے۔ حسن اتفاق سے ایک دو اردو بھی بخوبی جانتے تھے۔ باتوں باتوں میں ترکی کے حالات کے تذکرے چھڑے اور پھر ان کے پاکستان سے تقابل پر بات آگے بڑھی تو وہ بیک آواز بولے، ترکی اور پاکستان کا تقابل…؟ نہ بھئی نہ… پاکستان آئے ہیں تو ایسے لگا ہے جیسے کسی سمع و بصر تک پابندی رکھنے والے جہنم زار سے چھوٹ کر جنت میں آ گئے ہیں… ان کے اس جملے نے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ وہ کہنے لگے کہ ہم جیسے نوجوان تو ترکی میں پانچ وقت نماز کیلئے نہیں جا سکتے، داڑھی کا تصور نہیں بلکہ مساجد کے سبھی امام تک داڑھی منڈے ہوتے ہیںتو باقی حالات کیسے ہوں گے؟یہ سب سن کر جسم کا رواں رواں کانپنے لگا کہ یہ کس ملک کی باتیں سنا رہے ہیں۔وہ جو 1923ء تک طویل ترین خلافت اسلامیہ کا مرکز رہا۔ جہاں سے دنیا کے کونے کونے میں غلبہ اسلام کیلئے قافلے چلتے اور تہذیبوں اور ریاستوں کو روندتے رہے… اور پھر … یہاں مصطفی کمال اتا ترک جیسے شیطان نما انسان کی حکومت آ گئی تو اس نے اسلام سے نفرت و عداوت کی وہ داستان رقم کی کہ فرعون و نمرود بھی شرما جائیں۔ ان کی باتیں سن کر احساس ہونے لگا کہ ہم پاکستانی آزادی کی جس نعمت سے بہرہ ور ہیں کہ اس کیلئے توایک عالم ترستا ہے۔
یہ بات ہے 2004ء کی… براعظم ایشیا کے سمندروں میں آنے والے سونامی نے کئی ملکوں کو روند کر رکھ دیا تھا۔ جماعة الدعوة نے متاثرہ ممالک میں امدادی آپریشن کیلئے سرگرمیاں شروع کیں۔ امدادی سرگرمیوں کے نگران مولانا امیر حمزہ بنے تو وہ سری لنکا کے بعد مالدیپ جا پہنچے۔ واپسی پر بتانے لگے کہ مالے کے ہوائی اڈے پر ہمارے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوائی جہاز سے اترنے کے بعد دنیا بھر سے آئے سبھی لوگ اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے لیکن میں اور میرا ساتھی سب سے علیحدہ کر لئے گئے۔ تھوڑی دیر بعد اندازہ ہوا کہ ہمارا ”جرم” ہماری داڑھی ہے۔ پھر جب مالدیپ کے حکام کو ہمارا تعارف اور علم ہوا تب انہوں نے ہمیں آگے جانے کی اجازت دی۔ جی ہاں! یہ وہ مالدیپ ہے کہ جس کی کل آبادی اگرچہ 3لاکھ ہے تو وہ 100 فیصد مسلمان اور صحیح العقیدہ بھی ہیں لیکن حالات یہ تھے۔
آج یہ سارے واقعات اس لئے رہ رہ کر یاد آ رہے ہیں کہ کل یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ اقوام متحدہ نے ناروے کو دنیا کا سب سے بہترین ملک قرار دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ناروے نے یہ اعزاز مسلسل 12 سال سے قائم رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے بتایا گیا کہ پاکستان گزشتہ سال سے ایک درجہ مزید تنزلی میں گرا ہے اور اب اس کا درجہ 147واں ہو گیا ہے۔ یہ ساری درجہ بندی کرنے والوں کے ہاں زندگی گزارنے کا معیار کیا ہے…؟ ذکر کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے ہاں تو یہ بظاہر چمکتی دمکتی اور روشن دنیا ہے کہ جسے ہر دم فنا ہے… اور ہم ،چونکہ اہل اسلام ہیں، سو ہمارے لئے تو ہرمعاملہ یکسر مختلف ہے۔
پیارے نبی محمد کریم نے دعوت حق کا آوازہ بلند کیا تو مشرکین عرب نے رکاوٹوں کے تمام تر حربے آزمانے کے بعد یہی تو پیشکش کی تھی کہ ہم آپ کوسارے قبائل کا سردار بنا لیتے ہیں… جتنی دولت چاہیے، قدموں میں نچھاورکردیتے ہیں… سارے عرب کی خوبصورت ترین لڑکی سے شادی کروا دیتے ہیں… بس، اس سب کے ساتھ ہمارا مطالبہ محض اتنا ہے کہ یہ ہمارے بتوں کو جھٹلانا چھوڑ دیں… اس پر پیارے نبی ۖ کا لازوال جملہ زبان اطہر سے ادا ہوا تھا کہ سب لالچ چھوڑیے! یہ لوگ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج، دوسرے پر چاند رکھ دیں تب بھی میں دعوت حق سے باز نہیں آئوں گا… پھر کیا ہوا…؟ گھر…دیس… رشتہ دار…سب چھوڑ چھاڑ کر مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے کہ ہمارے لئے سفر زیست کے معیار ہی الگ ہیں۔
توہین رسالت میںپیش پیش ناروے کو بہترین ملک قرار دینے والوں نے اس کی خصوصیات میں لکھا ہے کہ یہاں کی آمدن سب سے زیادہ، عوام کیلئے سہولیات وافر ہیں۔ساتھ ہی یہ وہ خطہ بن کر سامنے آیا ہے جہاں جنسی لحاظ سے ہر کسی کو مکمل آزادی ہے کہ جس کا جو جی چاہے کرے… دوسرے نمبر پر آسٹریلیا ہے جہاں اہل اسلام پر ہر روز شکنجہ کسا جا رہا ہے اور یہاں کسی مظلوم مسلمان کو پناہ بھی نہیں مل سکتی۔ تیسرا نمبر سوئٹزرلینڈ کا ہے جس نے سب سے پہلے مساجد کے میناروں پر پابندی عائد کی تو اب مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی کی تیاریاں ہیں۔ چوتھا نمبر ڈنمارک کا ہے جس کی توہین رسالت داستان بیان بھی نہیں کی جا سکتی۔ پانچواں نمبر ہالینڈ کا ہے جہاں اسلام، قرآن اور پاک محمدۖ کی گستاخی پر مبنی فلمیں بنتی ہیں اور انہیں قانون تحفظ فراہم ہوتا ہے۔ چھٹا نمبر جرمنی کا ہے جوآج مسلمانوں کے خلاف ہر پہلو سے جنگ اور مخالفت کا سرخیل بن رہا ہے۔ ساتویں پوزیشن متنازعہ بنا کر آئرلینڈ کو دی گئی ہے۔ آٹھویں پوزیشن اس امریکہ کی ہے جس کی اسلام دشمنی نے تاریخ عالم کو شرما دیا ہے۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں تو اس دنیا کے خالق مالک نے یاں تذکرہ فرمایا ”تجھے ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے جنہوں نے کفر کیا۔ تھوڑا سا فائدہ ہے پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ برا بچھونا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈر گئے، ان کے لئے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں، اللہ کے پاس مہمانی کے طور پر، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کیلئے بہتر ہے۔”(آل عمران: 196تا 198)۔
بھلا ان لوگوں کو عالم اسلام اور خصوصاً پاکستان کیسے بھا سکتا ہے جہاں دین اسلام پر ہر لحاظ سے عمل کی مکمل آزادی ہو۔ جو ملک دنیا میں مظلوم و مجبور و بے گھر لوگوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہو۔ جہاں کسی غیر مسلم پر کبھی معمولی ظلم کی بات سامنے آئے تو اس کی داد رسی کیلئے سارا ملک ہی میدان میں آ جائے۔ جہاں سے مظلوم اہل اسلام کیلئے صدائے حق بلند ہو رہی ہو… پہلے نمبر پانے والوں کے پاس دولت کے انبار ہیں لیکن خود غرضی اوربخل کا عالم یہ ہے کہ ان میں سے کوئی کسی مرتے کے منہ میں پانی کا قطرہ تک ٹپکاتا دیکھا نہیں جا سکتا۔ چلئے… تھوڑی دیر کیلئے ہم انہی کی دنیا میںاتر آتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ناروے اور اس جیسے ملکوں میں تو سارا سال سردی کی جہنم رہتی ہے اور پیارا پاکستان تو سال بھر ہر موسم، ہر رنگ و نور اورہر روشنی اپنے دامن میں پروئے رکھتا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے ایسا مقام کہ چین جیسی سپرپاور اور سب سے بڑی قوم گوادر کی محتاج ۔سب سے بڑی ”جمہوریت” اور دوسری بڑی قوم بھارت زندہ رہنے کے لئے ایران یا ترکمانستان گیس لائن اور وسط ایشیا و خلیج تک پہنچنے کیلئے بھی اس ارض نایاب کی محتاج…۔
کئی بار آزاد کشمیر کے ضلع میرپورجسے دوسرا لندن کہا جاتا ہے، جانے کا اتفاق ہو۔یہاںدہائیوں پہلے برطانیہ اور یورپ جا بسنے والے خاندانوں سے ملاقاتیں ہوئیں تو کتنے بزرگوں کو روتا پایا کہ ہم تو یورپ جا کر کہیں کے نہیں رہے۔ دین ہاتھ سے گیا، اولادیں ایسی بگڑیں کہ ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ نہیں سکتے کہ مبادا کہیں جیل کی ہوانہ کھانی پڑے، کتنی بیٹیاں اس ”آزادی” سے سکھوں، انگریزوں اور ہندوئوں کے دامن میں جا گریں اور اب ہم سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہیں کرسکتے۔اولادیں ہیں کہ انگریز کا طور طریق اختیار کر چکیں اور اب ہمارے بوڑھے بھی ” اولڈ ہائوسز” میں ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہیں۔
ہر دم فنا پر گامزن دنیا کی چمک دمک پر مر مٹنے اور سب کو اسی راہ پر لگانے والوں کے بارے میں اے اہل ایمان! قرآن کی ایک اور نصیحت سنتے جایئے کہ نصیحت کام آتی ہے… ”اور اپنی آنکھیں ان چہروں کی طرف ہرگز نہ اٹھا جو ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو دنیا کی زندگی کی زینت کے طور پر برتنے کیلئے دی ہیں، تاکہ ہم انہیں اس میں آزمائیں اور تیرے رب کا دیا ہوا سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ ہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم ہی تجھے رزق دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔” (طہٰ : 131، 132)
تحریر: علی عمران شاہین
برائے رابطہ۔ 0321-4646375