تحریر: عقیل خان آف جمبر
آج میں جس موضو ع پر لکھ رہاہوں اگر دنیا کے تمام درخت قلم بن جائیں ،زمین کاغذ کی بن جائے اور سمندر سیاہی بن جائیں تب بھی ان کی تعریف ختم نہیں ہوسکتی۔ 12 ربیع الاول کو پورے عالم اسلام میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن بڑے جوش و جذبے اورمذہبی عقیدت و احترام سے منایا جا تا ہے۔ دنیابھر کے مسلمان اس دن بڑا اہتمام کرتے ہیں ۔اپنے اپنے شہر اور گاؤں کے مساجد ،گھراور گلیاں تک سجائی جاتی ہیں ۔شام کو مساجد کے ساتھ ساتھ مسلمان اپنے گھر وں پر لائٹنگ کراتے ہیں۔ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب کو اس دنیا میں بھیجا۔مساجد اور گھروں میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
یہ کائنات جس ہستی کے لیے بنائی گئی وہ ہیستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 12ربیع الاول 632ھ (20اپریل 571ئ) کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد محترم کا نام عبداللہ تھاجو آپ کی پیدائش سے پہلے وفات پا چکے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش آپ کے دادا عبد المطلب نے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ کا نام حضرت آمنہ تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھ برس کے تھے توآپ کی والدہ کا انتقال پْر ملال ہو گیا۔ جب آٹھ برس کے تھے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا بھی وفات پاگئے۔ اسکے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے چچا ابو طالب کے کاندھوں پر آگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے ساتھ بصرہ اور شام کے کئی تجارتی سفر کئے۔ بارہ سال کی عمر میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمتجارت کے سلسلے میں ملک شام گئے تو وہاں ایک عیسائی راہب بحیرہ نے آپ کو دیکھا تو آپ کے چچاابو طالب کو بتایا کہ نبوت کی جو علامات تورات اور انجیل میں درج ہیں وہ آپ کے بھتیجے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود ہیں۔ جب آپ کی عمرپندرہ برس ہوئی توآپ نے جنگِ فجار میں حصہ لیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمجب پچیس برس کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہ سے ہو گیا جو ایک بیوہ تھیں اوران کی عمر چالیس سال تھی۔ آپۖ بہت دیانتدار اور امین تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس برس کے ہوئے تو ایک دن حسبِ معمول غارِ حرا میں عبادت کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ جبرائیل علیہ السلام کی وساطت سے آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت کے منصب پر سرفراز کیا۔
اسلام سے قبل عرب کا دور جاہلیت کا دور تھا۔ اہلِ عرب اگرچہ اکثر اَن پڑھ اور جاہل تھے مگر علم نجوم اور طب کے علم پر عبور رکھتے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب نبوت ملی تو سب سے پہلی آیات یہ نازل ہوئیں۔(ترجمہ) پڑھ اپنے رب کے نام سے۔ جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔ وہ جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان آیات کو دہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں احکامِ الہٰی کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر ہونے سے پہلے ہی انصاف اور دیانتداری کی وجہ سے ملک بھر میں صادق وامین کے لقب سے مشہور تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصاف کے معاملے میں کسی سے رعایت نہ کرتے تھے چاہے آپ کا عزیزکیوں نہ ہو۔ عرب کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی تونہیں مانتے تھے لیکن وہ فیصلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کرواتے تھے۔ ایک دفعہ ایک عورت چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی تووہ لوگ فیصلے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لئے آئے۔ چوری ثابت ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی قانون کی رو سے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا۔ عرب کے بڑے بڑے سرداروں نے چاہا کہ یہ بڑے گھرانے کی عورت ہے۔ اس کی سفارش کرکے اسے بچائیں۔ ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سفارش کرنے کے لئے آئے تو آپ نے فرمایا: ” تم اللہ کی مقرر کی ہوئی باتوں میں سفارش کو دخل دیتے ہو۔”
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔” ہر نبی کی ایک دعا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے تو ہر ایک نبی علیہ السلام نے جلدی کرکے وہ دعا مانگ لی (دنیا ہی میں) اور میں یعنی حضرت محمدۖ نے اپنی دعا کو چھپا کر رکھا ہے قیامت کے دن اپنی اْمت کی شفاعت کے لئے اور اللہ چاہے تو میری شفاعت ہر ایک اْمتی کے لئے ہوگی بشرطیکہ وہ شرک پر نہ مرا ہو۔”
آج پورے عالم اسلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،پیغمبر انسانیت ،رُوحِ ایماں ، شانِ کائنات اورسراپا نور کے پیکر میں ڈھلے حضور نبی کریم ۖ کی ولادت با سعادت کی خوشی منائی جا رہی ہے۔ہر طرف آمد رسول کے نعرے لگ رہے ہیں مگرمیرا سوال ان لوگوں سے ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر تو جشن منا رہے ہیں مگر کبھی ان کی سنت پر عمل کیا؟ کیا کبھی ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے کی کوشش کی؟ جن چیزوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا کیا ہم لوگ اس سے دور رہے ؟ ہم جتنی خوشی اور جوش کے ساتھ یہ جشن مناتے ہیں کا ش اسی جوش و جذبے کے ساتھ ہم اپنے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرکے پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا کردیں۔ دنیا سے برائی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں۔ تمام مسلمان ایک کتاب اور ایک نبی کے سائے میں اکٹھے ہوجائیںتاکہ ہم غیر مسلموں کو بتا سکیں کہ ہم ایک خدا اور ایک رسول کے ماننے والے ہیں ۔اس طرح کسی غیر مسلم کی مسلمانوں کی طر ف آنکھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوگی۔
میری اس دن کے موقع پر اپنے رب العزت اورمالک کائنات سے یہی دعا ہے کہ تما م دنیا کے مسلمانوں کو نیکی کی ہدایت دے اور برائی سے ہمیشہ دور رکھے۔تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور قیامت کے حضوراکرم ۖ کی شفاعت سے بہر مند فرمائے۔
تحریر: عقیل خان آف جمبر
aqeelkhancolumnist@gmail.com