تحریر: سید انور محمود
ذرا تصور کریں اُس شخص کا جو کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو اورجسکو اس بات کا یقین ہو کہ وہ بہت جلد اس دنیا سے چلا جایگا، اگر اسکی آخری خواہش پوری ہوجائے تو اپنی خواہش کی تکمیل کے بعد وہ شاید باقی زندگی چاہے وہ ایک لمحے کی ہی کیوں نہ ہو بہت خوشی سے گذارکر اس دنیا سے جائے گا لیکن بدقسمتی سے اگر ایسا نہ ہوسکے تو یقینا وہ اپنی باقی کی زندگی بہت ہی مایوسی میں گذارئے گا۔ 29 مارچ 2015ء کو کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں ایسا ہی ہوا جب آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو یکطرفہ مقابلے کے بعد سات وکٹوں سے شکست دے کر پانچویں مرتبہ کرکٹ کا ورلڈ کپ اپنے نام کرلیا۔ میلبورن فائنل سے قبل نیوزی لینڈ کے سابق کپتان مارٹن کرو نے اپنے ساتھیوں کو جذباتی پیغام بھیجا تھا جس میں مارٹن کرو کا کہنا تھا کہ میں کینسر کی بیماری سے لڑرہا ہوں ہوسکتا ہے کہ یہ میری زندگی کا آخری ورلڈ کپ ہو اس لئے میں اپنی ٹیم کو چیمپئن دیکھنا چاہتا ہوں۔
مارٹن کرو کینسر کے موذی مرض لیمفوما میں مبتلا ہیں۔ دو سال قبل مارٹن کرو کو لیمفوفا کینسر میں مبتلا ہونے کا پتہ چلا۔علاج کے بعد ان کا مرض دب گیا تھا لیکن گزشتہ ستمبر وہ ایک بار نمودار ہوگیا اور اب پہلے سے زیادہ شدید انداز میں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے انھیں بتایا ہے کہ انھیں جو مرض لاحق ہے اس کے صرف پانچ فیصد مریض ایک سال کے عرصے تک زندہ رہ پاتے ہیں۔ مارٹن کرو اپنی بیماری سے بچنے کے لئے کیمو تھراپی بھی نہیں کرارہے ہیں۔ وہ فائنل دیکھنے کے لئے خاص طور پر کرائسٹ چرچ سے میلبورن آئے تھے۔ مارٹن کرو نے ایک کرکٹ ویب سایٹ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ میری آگے کی قیمتی زندگی شاید مجھے کوئی اور میچ دیکھنے اور لطف اندوز ہونے کی عیاشی کا موقع فراہم نہ کرے۔
نیوزی لینڈ کی موجودہ ٹیم میں دو ایسے کھلاڑی بھی ہیں جن کی کامیابی میں مارٹن کرو کا بھی ہاتھ ہے۔ مارٹن گپٹل اور راس ٹیلر وہ کھلاڑی ہیں جن پر مارٹن کرو نے بہت محنت کی ہے۔ یہ وہی مارٹن گپٹل ہیں جنہوں نے 2015ء کے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ناقابل فراموش ناٹ آؤٹ ڈبل سنچری سکور کی تھی۔ ان دونوں کھلاڑیوں کی موجودہ فارم کو دیکھتے ہوئے فائنل سے پہلے مارٹن کرو کا کہنا تھا کہ ’ان دو بیٹوں جنہیں میں نے پیدا نہیں کیا، راس ٹیلر اور مارٹن گپٹل کو سیاہ کٹ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ میدان میں اترنے کا عمل دیکھنا میرے لیے بہت اطمینان کا باعث ہو گا۔میں سارا دن اپنے آنسوؤں کو روکے رکھوں گا۔ میری حالت نروس والدین کی طرح کی ہو گی۔ مارٹن کرو نیوزی لینڈ کے دوسرے کامیاب ترین بیٹسمین ہیں اور انھوں نے 45 کی اوسط سے 5444 رنز بنائے۔ مارٹن کرو نے 1992ء ورلڈ کپ میں اپنی ٹیم کی قیادت کی تھی اور ان کی ٹیم سیمی فائنل میں پاکستان کے ہاتھوں شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی تھی۔ مارٹن کرو نے ہمسٹرنگ ہونے کے باوجود نوے رنز سکور کیے تھے۔ مارٹن کرو نے خود ورلڈ کپ کے اکیس میچوں میں 55 کی اوسط سے 880 رنز سکور کیے۔
کرکٹ کے گیارویں ورلڈ کپ 2015ءکے مشترکہ میزبان آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ہی عالمی اعزاز کےلیے آمنے سامنے آئے، نیوزی لینڈ کی ٹیم نےاپنے تمام آٹھ میچز ہوم گراؤنڈ میں کھیلے اور تمام آٹھ میچز جیت کر اس عالمی کپ کی واحد ناقابل شکست ٹیم تھی لیکن کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو یکطرفہ مقابلے کے بعد سات وکٹوں سے شکست دے کر پانچویں مرتبہ کرکٹ کا عالمی کپ جیت لیا ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچی تھی۔ اس سے قبل اس نے عالمی مقابلے کے چھ سیمی فائنل کھیلے لیکن ہر بار اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔فائنل میں نیوزی لینڈ نے184رنز کا آسان ہدف دیا جو آسٹریلیا نے صرف3 وکٹیں گنواکر حاصل کر لیا۔
آسٹریلوی کھلاڑی اپنے بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھ کر فائنل کھیلے، کالی پٹی باندھنے کی وجہ کوئی احتجاج نہیں بلکہ گذشتہ سال سر میں گیند لگنے سے فوت ہونے والے آسٹریلوی بلے باز فلپ ہیوز کی یاد میں باندھی گیں تھیں، لیکن افسوسں مارٹن کرو کی آخری خواہش پوری نہ ہوسکی، کیوی ٹیم اپنے عظیم کھلاڑی کو خوشیاں نہ دی سکی۔آیئے دعا کریں کہ مارٹن کرو کی بقیہ زندگی بغیر کسی تکلیف کے آرام اور سکون سے گذر جائے۔
تحریر: سید انور محمود