فٹبال ورلڈ کپ کی تاریخ کے چند خوشگوار اور ناخوشگوارلمحات پرایک طائرانہ نظر،2026 ورلڈ کپ ووٹنگ میں شمالی امریکا کو 134 اور مراکش کو 65 ووٹ ملے
تحریر ؛اصغر علی مبارک
فٹبال کا کھیل دنیا کا واحد کھیل ھے جسے دنیا بھر میں پسندیگی کے ا عتبار سے نمبرون کھیل کہا جاۓ تو بے جا نہ ھوگا ، پاکستانی فٹبال اس بار بھی ورلڈ کپ میں استعمال ھورہا تو دوسری جانب پاکستانی فٹبال کے گڑھ لیاری میں عوام کا جوش دیدنی ھے روس میں ہونے والے ورلڈ کپ فٹ بال کی آمد سے قبل لیاری کے فٹ بال کے جنونی شائقین نے ٹورنامنٹ کی مناسبت سے علاقے کو چاکنگ اور ٹیموں کے پرچموں سے سجا دیا ھے ۔
نوجوان شائقین نے اپنی پسندیدہ ٹیموں کے جھنڈے بنائے اور فٹ بال کھیلنے مصروف ہیں ،پرتگال کے شہرہ آفاق کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو کی شاندار ہیٹ ٹرک کی بدولت سابق عالمی چمپیئن اسپین کے خلاف فٹ بال ورلڈ کپ 2018 میں اپنے پہلے میچ کو برابر کردیا۔جس سے انکے فین خوش نظر آتے ھیں تحم آئس لینڈ کے خلاف میسی آف کلر نظر آے جبکہ مصری ہیرو صالح ان فٹ ہو کر بینچ پر بیٹھ کریوروگوائےکے خلاف ٹیم کی شکست کا نظا رہ کرتے نظر آے روس کے شہر ایکٹرن برگ کے ارینا میں کھیلے گئے گروپ اے کے دوسرے میچ میں ریوراگوئے کی ٹیم مصر کے مدمقابل تھی جسے اپنے سب سے بڑے اسٹار محمد صلاح کی خدمات حاصل نہیں تھیں۔محمد صلاح گزشتہ ماہ چیمپیئنز لیگ کے فائنل میں کندھے کی انجری کا شکار ہوئے تھے اور اسی وجہ سے ایونٹ میں اپنی ٹیم کے افتتاحی میچ میں شرکت نہ کر سکے۔
یوئیفا چیمپیئنز لیگ میں مصری بادشاہ کے نام سے پہچانے جانے والے فٹبالر محمد صلاح اپنی بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے لیونل میسی اور کرسٹیانو رونالڈو کی راہ پر گامزن ہوگئے۔
چیمپیئنز لیگ میں بہترین ٹرکس اور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے لیورپول کے فارورڈ کھلاڑی محمد صلاح کو رواں سال کے سب سے بہترین کھلاڑی کے ایوارڈ سے نوازا گیا جبکہ اس سیزن وہ انفرادی طور پر 11 گولز کر کے ایک لیگ میں سب سے زیادہ گولز کرنے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ان کی اس کارکردگی پر انہیں فٹبال کے مداحوں کی جانب سے خوب سراہا جا رہا ہے اور ان کے کلب لیورپول کے مداحوں نے ان کے لیے ایک گانا بنایا جس کے بول کچھ یوں ہیں۔(اگر وہ تمہارے لیے کافی اچھا ہے تو وہ میرے لیے بھی کافی اچھا ہے)”(اگر وہ مزید اسکور کرتے ہیں تو میں بھی مسلمان ہوجاؤں گا)(اگر وہ مسجد میں بیٹھے ہیں تو میں بھی وہیں ہونا چاہوں گا،ہر چار سال بعد فیفا ورلڈ کپ کے شائقین کھلےدل سےورلڈ کپ مقابلو ں کا استقبال کرتے ہیں۔ اپنی ٹیموں کی ہمت بندھاتے ہوئے وہ اپنے پسندیدہ ترین کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، اور جہاں کچھ کھلاڑی اپنے شائقین کو مایوس نہیں کرتے، وہاں کچھ مایوس کرتے بھی ہیں۔ شمالی امریکا نے ورلڈ کپ 2026 کی میزبانی کا شرف حاصل کر لیا جہاں مالی وسائل اور سفری سہولیات پر شکوک کے سبب مراکش فٹبال کی تاریخ میں پہلے 48ٹیموں پر مشتمل عالمی کپ کی میزبانی سے محروم ہو گیا۔ادھر امریکا نے 1994 میں ورلڈ کپ کی میزبانی کی تھی اور اب 32سال بعد ایک مرتبہ عالمی کپ کی مشترکہ طور پر میزبانی کرے گا جہاں اس کے ساتھ میکسکو اور کینیڈا 10میچوں کی میزبانی کریں گے۔ادھر ماسکو میں منعقدہ فیفا کانگریس میں 2026 کے عالمی کپ کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں شمالی امریکا کو 134 اور مراکش کو 65 ووٹ ملے۔2018 اور 2022 ورلڈ کپ کے لیے 2010 میں ہونے والی ووٹنگ پر شکوک و شبہات کے سبب اس مرتبہ فٹبال فیڈریشن نے ووٹ کو پبلک کردیا تھا تاکہ عوام اور رکن ملکوں کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔ 2026 کے ایونٹ میں پہلی مرتبہ 32 کے بجائے 48 ٹیمیں شرکت کریں گی اور گزشتہ تمام ایونٹس کے مقابلے میں اس ٹورنامنٹ میں 16زائد ٹیموں کو شرکت کا موقع ملے گا۔امریکا نے ایونٹ میں ہونے والے 80میں سے 60میچوں کی میزبانی کی پیشکش کی تھی جہاں کینیڈا اور میکسکو بھی 10، 10 میچوں کی میزبانی حاصل کریں گے لیکن کوارٹر فائنلز سے آگے تمام مقابلوں کی میزبانی امریکا کرے گا۔1994 میں ورلڈ کپ کے کامیاب انعقاد اور سب سے بڑے ٹورنامنٹ کے لیے دستیاب بہترین انفرااسٹرکچر کی بدولت امریکا کو ایونٹ کی میزبانی کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا جہاں اس کے برعکس مراکش میں تمام 14اسٹیڈیمز کو باقاعدہ تعمیر یا پھر ان کی بڑے پیمانے پر مرمت کرنی پڑتی جس کے لیے 16ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار تھی۔مراکش کو میزبانی نہ ملنے کی ایک اور ممکنہ وجہ ورلڈ کپ سے حاصل ہونے والے ممکنہ منافع میں کمی ہے جہاں فیفا نے تخمینہ لگایا تھا کہ اگر ایونٹ کا انعقاد مراکش میں کیا گیا تو 1.07 ارب ڈالر کی آمدنی ہو گی اور اس کے مقابلے میں شمالی امریکا سے تقریباً دگنی 2 ارب ڈالر کی آمدنی کا امکان ہے۔کینیڈا پہلی مرتبہ ورلڈ کپ میچوں کی میزبانی کرے گا جبکہ میکسکو بھی 1986 ورلڈ کپ کی میزبانی کے بعد 40 سال میں پہلی مرتبہ عالمی کپ کی میزبانی کا شرف حاصل کرے گا۔ میکسیکو 1970 کے ورلڈ کپ کی بھی میزبانی کر چکا ہے، اور تیسری مرتبہ ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والا یہ دنیا کا واحد ملک بن جائے گا۔ایونٹ کا فائنل نیویارک کے میٹ لائف اسٹیڈیم میں منعقد کرانے کی تجویز پیش کی گئی ہے جس میں 87ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ورلڈ کپ کی بولی شمالی امریکا کی جانب سے جیتے جانے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان ملکوں کو عالمی کپ کی میزبانی کے لیے ترجیح دی گئی جنہوں نے کرپٹ اسپورٹس رہنماؤں کے خلاف خفیہ تحقیقات کے ذریعے بڑھ چڑھ کر کارروائی کی۔اب اس بات کا اختیار فیفا کے پاس ہے کہ کن شہروں کو ورلڈ کپ کی میزبانی دی جاتی ہے جبکہ ابھی تک یہ بات بھی غیرحتمی ہے کہ آیا تینوں ملکوں کو ورلڈ کپ تک براہ راست رسائی دی جائے گی یا انہیں کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑے گا۔گزشتہ 8 ورلڈ کپس کے خوشگوار اور ناخوشگوارلمحات پر نظر ڈال کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں فٹبال ورلڈکپ کا آغاز ہوچکا ہےاور اس کے ممکنہ فاتح کا نام ایک مہینے پہلے ہی سامنے آگیا ہے۔جی ہاں واقعی، ویسے تو عام طور پر بک میکرز کی جانب سے ٹیموں کی ممکنہ کامیابی یا ناکامی کو مدنظر رکھ کر شرطیں لگائی جاتی ہیں، مگر اب 2018 چل رہا ہے اور دنیا مشین لرننگ اور آرٹی فیشل ٹیکنالوجی (اے آئی) میں بہت زیادہ پیشرفت کرچکی ہے۔اب ان دونوں ٹیکنالوجیز کی مددد سے ہی متعدد گروپس نے روس میں جاری فٹبال ورلڈکپ کے حوالے سے پیشگوئیاں کی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے ایک جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم بھی ہے۔اس حوالے سے اس ٹیم نے مشین لرننگ ٹیکنالوجی اور کمپیوٹرز کو استعمال کرتے ہوئے ہر ٹیم کی جانب سے ہر میچ میں کیے جانے والے متوقع گولز کی پیشگوئی کی۔اس پیشگوئی کے لیے ٹیموں کی قابلیت اور انفراد سطح پر کھلاڑیوں کی ماضی میں کارکردگی کو بھی مدنظر رکھا گیا۔اور سائنسدانوں نے ورلڈکپ کے فاتح کے طور پر کس ٹیم کا نام چنا؟ ویسے یہ اتنا بھی غیرمتوقع نہیں کیونکہ یہ ٹیم ماضی میں بھی ایک بار چیمپئن بن چکی ہے۔اور وہ ٹیم ہے اسپین، جس کے تحقیقی ٹیم کے مطابق ورلڈکپ جیتنے کے امکانات 17.8 فیصد ہیں، جبکہ جرمنی دوسرے، برازیل تیسرے، فرانس اور بیلجیئم بالترتیب چوتھے اور 5 ویں نمبر پر ہیں۔تاہم تحقیقی ٹیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسپین کو یقینی فاتح کے طور پر نہیں چنا، بلکہ یہ انتخاب ورلڈکپ مقابلوں کے اسٹرکچر کو دیکھتے ہوئے کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ اسپین کو جرمنی پر معمولی سبقت اس لیے حاصل ہے، کیونکہ موجودہ چیمپئن ٹیم کے حوالے سے اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہیں کہ وہ کوارٹرفائنل تک نہیں پہنچ سکے گی، تاہم اگر وہ لاسٹ ایٹ مرحلے میں پہنچتی ہے تو جرمن ٹیم اسپین کے مقابلے میں زیادہ فیورٹ ہوجائے گی۔دوسری جانب فنانشنل کمپنی گولڈمین Sachs نے برازیل کو 2018 کے ورلڈ کپ مقابلے کا فاتح چنا ہے، جو کہ فائنل میں ممکنہ طور پر جرمنی کو شکست دے کر چیمپئن بنے گا۔اس کمپنی کے مطابق 2 لاکھ ڈیٹا ماڈلز اور پورے ورلڈکپ کے 10 لاکھ سمولیشن کے بعد یہ انتخاب کیا گیا۔مشین لرننگ ٹیکنالوجی نے ٹیموں اور کھلاڑیوں کی صلاحیت کے ساتھ ان کی ماضی کی کارکردگی کا تجزیہ کرکے یہ پیشگوئی کی۔ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ 2014 میں بھی اس کمپنی نے برازیل کی کامیابی کی پیشگوئی کی تھی مگر جرمنی نے کامیابی حاصل کی۔
1986
میزبان ملک: میکسیکو
چیمپیئنز: ارجنٹینا
رنر اپ: مغربی جرمنی
ہیرو: ڈیگو میراڈونا (ارجنٹینا)
ولن: ڈیگو میراڈونا (ارجنٹینا)
گولڈن بال: ڈیگو میراڈونا (ارجنٹینا)
گولڈن بوٹ: گیری لینیکر (انگلینڈ) 6 گول
ارجنٹینا نے میراڈونا کو ورلڈ کپ فائنل اسکواڈ سے 1978ء میں پہلا ٹائٹل جیتنے کے بعد ہی نکال دیا تھا مگر 8 سال بعد میراڈونا نے ارجنٹینا کو ان کی دوسری ورلڈ کپ فتح میکسیکو میں دلوائی۔ وہ 1986ء کے ہیرو اور ولن کیوں ہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کا زاویہ نگاہ کیا ہے۔ وہ دنیا بھر میں مقیم ارجینٹینیئن لوگوں کے ہیرو ہیں کیوں کہ انہوں نے کوارٹر فائنل میں انگلینڈ کو ہرانے میں اپنی ٹیم کی اس وقت مدد کی جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سیاسی تناؤ کی وجہ سے خراب تھے۔ولن اس لیے کیوں کہ انگلینڈ کے شائقین کا ماننا تھا کہ میراڈونا کا ان کے خلاف پہلا گول جائز نہیں تھا کیوں کہ انہوں نے اسکور کرنے کے لیے سر کے بجائے اپنے ہاتھ کا استعمال کیا تھا، جسے میراڈونا نے خود ‘خدا کا ہاتھ’ قرار دیا تھا۔ جو بھی ہو، مگر ارجینٹینیئن کپتان کا دوسرا گول سابق چیمپیئنز کو مقابلے سے باہر کرنے اور اپنی ٹیم کو ورلڈ کپ جتوانے میں مددگار ثابت ہوا۔
1990
میزبان ملک: اٹلی
چیمپیئنز: مغربی جرمنی
رنر اپ: ارجنٹینا
ہیرو: لوتھر میٹہاؤس (مغربی جرمنی)
ولن: آدھے فِٹ ڈیگو میراڈونا (ارجنٹینا)
گولڈن بال: سیلواتور شیلاسی (اٹلی)
گولڈن بوٹ: سیلواتور شیلاسی (اٹلی) 6 گول
کم ترین اسکور والے ورلڈ کپ فائنلز میں سے ایک اس فائنل میں مغربی جرمنی بہتر مگر کچھ حد تک بے رحم فریق کے طور پر ابھرا۔ انہوں نے گزشتہ فائنل (جس میں ارجنٹینا نے فتح حاصل کی تھی) کے ری پلے جیسے مقابلے میں فتح حاصل کی اور ان کے کپتان لوتھر میٹہاؤس سے زیادہ کوئی بھی خوش نہیں تھا جنہوں نے بحیثیت کھلاڑی 1982ء اور 1986ء میں دو لگاتار شکستوں کے بعد 1990ء میں بالآخر ٹرافی اٹھائی۔ایک نیم فِٹ میراڈونا اپنے گھٹنے کی انجری اور فارم میں نہ ہونے کے باعث اپنی ٹیم کے مرکزی اٹیکر نہیں بن سکے۔ زیادہ گول اور زیادہ لڑاکو کھلاڑیوں والی ٹیم جرمنی 2014ء کے فائنل سے پہلے تک کے بدصورت ترین فائنل میں فتحیاب ہوکر ابھری۔اس مقابلے کو راجر ملِا کے کیمرون کے لیے خوشی سے ناچنے کی وجہ سے اور سیلواتور شیلاسی کے لیے یاد رکھا جائے گا جنہوں نے ورلڈ کپ میں پہلی بار آمد کے ساتھ ہی دونوں ‘گولڈن’ ایوارڈز اپنے نام کر لیے۔
1994
میزبان ملک: امریکا
چیمپیئنز: برازیل
رنر اپ: اٹلی
ہیرو: رومیریو ڈی سوزا فاریا (برازیل)
ولن: روبرٹو باجیو
گولڈن بال: رومیریو (برازیل) 5 گول
گولڈن بوٹ: ہریستو استوئخکوف (بلغاریہ)، اولیگ سیلنکو (روس) 6 گول
برازیلین اسکواڈ پورے ٹورنامنٹ میں نمایاں رہا جس کی بنیادی وجہ ان کے مایہ ناز فٹبالرز تھے جن کی قیادت رومیریو کر رہے تھے جو اس وقت زبردست فارم میں تھے۔ رومیریو نے برازیل کے 11 میں سے 10 گول کیے تھے۔رنگ برنگے حامیوں کا اپنے ہی برِاعظم کے شمالی حصے میں پہنچنا اور بیبیتو کا ہالینڈ کے خلاف گول کرکے اپنے بیٹے کی پیدائش کا جشن منانا، یہ وہ لمحات ہیں جس کی وجہ سے امریکا میں ہونے والا 1994ء کا ورلڈ کپ فٹبال کی تاریخ کے بہترین ورلڈ کپس میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔اطالوی فٹبال ہیرو رابرٹو باجیو اتنے خوش قسمت نہیں رہے، جن کا مقابلے میں آخری ایکشن گیند کو گول پوسٹ تک بھیجنے کے بجائے ہوا میں اچھال دینا تھا۔ باجیو کی مہنگی غلطی کی وجہ سے برازیل ورلڈ کپ میں چوتھی دفعہ کامیاب ہوگیا اور اطالوی لوگوں نے آج تک باجیو کی اس غلطی کو نہ بھلایا ہے اور نہ معاف کیا ہے۔
1998
میزبان ملک: فرانس
چیمپیئنز: فرانس
رنر اپ: برازیل
ہیرو: زین الدین زیڈان (فرانس)
ولن: رونالڈو لوئس نزاریو ڈی لیما (برازیل)
گولڈن بال: رونالڈو لوئس نزاریو ڈی لیما (برازیل)
گولڈن بوٹ: ڈیور سوکیر (کروشیا) 6 گول
برازیل 1994ء میں فٹبال کی دنیا کے عروج پر تھے تو انہوں نے 1998ء کے فائنل سے قبل پست ترین مقام حاصل کیا جب ان کے اسٹار فٹبالر رونالڈو کو دورہ پڑا۔ شروع میں تو وہ ٹیم شِیٹ میں تھے بھی نہیں، اور انہیں میچ کی ابتداء کے بعد ہی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ اس کے بعد دفاعی چیمپیئنز ایک بالکل مختلف ٹیم کے طور پر نظر آئے جنہوں نے 3 کے مقابلے میں صفر گول کیے۔ فرانس کی فتح کا کریڈٹ ابھرتے ہوئے زین الدین زیڈان کے 2 گولز کو بھی جاتا ہے جو کچھ فائنلز بعد ولن بننے والے تھے۔
2002
میزبان ملک: جاپان اور جنوبی کوریا
چیمپیئنز: برازیل
رنر اپ: جرمنی
ہیرو: رونالڈو (برازیل)
ولن: اٹلی اور فرانس کی قومی ٹیمیں
گولڈن بال: رونالڈو (برازیل) 8 گول
گولڈن بوٹ: اولیور کان (جرمنی)
ایشیاء میں ہونے والا پہلا ورلڈ کپ تھا اور پہلا ورلڈ کپ جس میں متحدہ جرمنی کی ٹیم فائنل میں پہنچنے میں کامیاب رہی۔ مگر کوئی بھی ٹیم رونالڈو کا مقابلہ نہیں کرسکی جنہوں نے روبرٹو کارلوس، ریوالڈو، جوناتھن کیفو اور رونالڈینو کی مدد سے مخالف ٹیموں پر زبردست حملے کیے۔نہ صرف یہ کہ انہوں نے 4 سال قبل پڑنے والے ‘دورے’ کا ازالہ کیا، بلکہ 8 گول کرکے گولڈن بال حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ اس دفعہ کے ولن دفاعی چیمپیئن فرانس اور سابق چیمپیئن اٹلی رہے، جو پہلے ہی راؤنڈ میں مقابلے سے باہر ہوگئے۔
2006
میزبان ملک: جرمنی
چیمپیئنز: اٹلی
رنر اپ: فرانس
ہیرو: میروسلاو کلوز (جرمنی)
ولن: زین الدین زیڈان (فرانس)، مارکو مٹیرازی (اٹلی)
گولڈن بال: زین الدین زیڈان (فرانس)
گولڈن بوٹ: میروسلاو کلوز (جرمنی) 5 گول
میزبان جرمنی ٹیم کے بارے میں شروع سے ہی مانا جا رہا تھا کہ وہ مقابلہ جیتیں گے مگر وہ ریکارڈ 11ویں مرتبہ سیمی فائنل میں پہنچنے کے بعد مقابلے سے باہر ہوگئے۔ ان کے مرکزی اسڑائیکر کلوز ایک انعام ثابت ہوئے کیوں کہ انہوں نے 5 گول اسکور کرکے اپنی ٹیم کو فائنل فور تک پہنچانے میں کردار ادا کیا۔مگر فائنل کے واقعات نے اس زبردست ٹورنامنٹ کی ساری چمک دھمک چھین لی کیوں کہ یہ عظیم فرانسیسی کھلاڑی زین الدین زیڈان کا آخری میچ ثابت ہوا۔ وہ شخص جو 2 ورلڈ کپ فائنلز میں گول اسکور کرنے والے 3 کھلاڑیوں میں سے ایک تھا، اسے اطالوی کھلاڑی مٹیرازی کو اضافی وقت کے دوران لفظی جنگ کے بعد سر مارنے کا قصوروار پایا گیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ دونوں کے درمیان ہوا کیا تھا مگر یہ جدید دور کے ایک لیجنڈ کے کریئر کا افسوسناک اختتام تھا۔
2010
میزبان ملک: جنوبی افریقہ
چیمپیئنز: اسپین
رنر اپ: نیدرلینڈز
ہیروز: ڈیگو فورلان (یوراگوئے)، تھامس میولر (جرمنی)، ڈیوڈ ویلا (اسپین)، ویزلے اسنیدار (نیدرلینڈز)
ولنز: ریفری
گولڈن بال: ڈیگو فورلان (یوراگوئے)
گولڈن بوٹ: تھامس میولر(جرمنی) 5 گول
ورلڈ کپ ووزیلا (پلاسٹک کے نرسنگھے) کو مقبول بنانے کے لیے زیادہ مشہور ہوا، مگر اسے ریفری کے ان متنازعہ فیصلوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے جو کھیل کا پانسہ متاثرہ ٹیم کے حق میں پلٹ سکتے تھے۔انگلینڈ اور میکسیکو دونوں نے فیفا کے صدر سیپ بلاٹر کی معذرت قبول کی مگر یہ دیر سے آئی۔ انگلینڈ کے ایک واضح گول کو جرمنی کے خلاف میچ کی شروعات میں ناقابلِ قبول قرار دیا گیا جبکہ ارجینٹیا نے کارلوس ٹیویز کی کک کو آف سائیڈ پر ہونے کے باوجود ریفری نے قبول قرار دیا۔نوجوان فارورڈز ٹورنامنٹ پر حاوی رہے اور مقابلہ ہسپانوی ٹیم جیتنے میں کامیاب رہی، جو پہلی مرتبہ ہی فائنل پہنچے تھے اور اپنا ابتدائی میچ ہار کر ٹورنامنٹ جیتنے والی واحد ٹیم کے طور پر سامنے آئے۔فائنل میں 14 یلو کارڈز کے باوجود یہ ایک زبردست میچ تھا جس میں دونوں یورپی ٹیموں نے ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دیے رکھا۔
2014
میزبان ملک: برازیل
چیمپیئنز: جرمنی
رنر اپ: ارجنٹینا
ہیروز: لائیونل میسی (ارجنٹینا)، نیمار جونیئر (برازیل)، جیمز روڈریگیز (کولمبیا)، میسوت اوزیل (جرمنی)
ولن: لوئی سواریز (یوراگوئے)
گولڈن بال: لائیونل میسی (ارجنٹینا)
گولڈن بوٹ: جیمز روڈریگیز (کولمبیا) 6 گول
24 سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ گروپ میچوں کے تمام فاتحین کوارٹر فائنل میں پہنچے اور ارجنٹینا اور جرمنی (سابقہ مغربی جرمنی) نے فائنل میں ایک دوسرے کا سامنا کیا۔اور پہلی بار تھا کہ ورلڈ کپ فائنل میں لائیونل میسی کا جادو نظر آیا۔ ان کی ٹیم ٹائٹل نہیں جیت پائی لیکن وہ اپنی ٹیم کو رنر اپ تک پہنچانے کی پوزیشن میں کامیاب رہے جہاں جرمنی اپنے پرانے حریفوں سے نہایت بے رحم انداز میں پیش آیا۔ میولر کی قیادت اور اوزل کی مدد سے تجربہ کار کلوز اور دیگر کھلاڑیوں نے میزبان برازیل کو سیمی فائنل میں چاروں شانے چت کرکے 1-7 سے شکست دی۔2014 کے ورلڈ کپ میں سواریز اور شیلینی دانتوں سے کاٹنے واقعے کے بعد جس شخص کا سب سے زیادہ تذکرہ ہوا، وہ یوراگوئے کے اسٹرائیکر لوئی سواریز تھے، جو اپنی ‘ناقابلِ قبول’ حرکات کی وجہ نشانے پر تھے۔ انہیں مخالف کھلاڑی کو دانتوں سے کاٹنے کی وجہ سے پہلے جرمانہ کیا گیا، پھر 9 میچز کے لیے معطل کیا گیا اور پھر 4 ماہ کے لیے ان پر پابندی عائد کردی گئی۔ ہاں، آپ نے ٹھیک پڑھا، دانتوں سے کاٹنے کا واقعہ جس میں اطالوی کھلاڑی شیلینی بھی شامل تھے۔ثالثی عدالت برائے اسپورٹس نے سواریز کو بارسلونا کے لیے تربیتی اور دوستانہ میچز میں حصہ لینے کی اجازت دے دی مگر تب تک نقصان ہوچکا تھا