تحریر : علی عمران شاہین
اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو عطا کردہ عظیم ترین نعمتوں میں ایک بڑی نعمت جنگلات بھی ہیں۔ اللہ نے اپنے بندوں کے لئے بنائی عالیشان جنتوں میں باغات اور نبانات کا خصوصی ذکر ملتاہے ۔لمبے اور گھنے سائے والے درخت ،ان کے سائے ا ور ان سے پیدا ہونے پھلوں اور میووں کو اللہ نے جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں میں بیان کیا ہے۔کرہ ارضی بھی تودرختوں اور سبزے کی وجہ سے ہی سب سے زیادہ خوبصورت و شاداب ہے۔انسان اپنے ارد گرد درخت اور سبزہ ہی دیکھنا چاہتا ہے۔دنیا میں جنگلات سے کہیں بڑھ کرصحرا اور برفانی گلیشئیرز ہیں لیکن کتنے لوگ ہیں جو سکون حاصل کرنے کے لئے صحرائوں یا گلیشئیرز کا رخ کرتے ہیں ؟لیکن کتنے دکھ کی بات ہے کہ یہی انسان آج انہی درختوں کا سب سے بڑا دشمن بن چکا ہے،جی ہاں!وہی درخت اپنے قاتل اسی انسان کی بے شمار ضروریات پورا کرتے ہیں۔اگر ان نباتات کو زمین سے خارج کیاجائے تو انسانی زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں ۔یہی درخت جہاں ماحول کو خوبصورت بناتے ہیں، وہیں ہوا کو صاف رکھنے، آندھی اور طوفانوں کا زور کم کرنے، آبی کٹاؤ روکنے، آکسیجن میں اضافے اور آب و ہوا کا توازن برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی موجودہ دور کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے تودرخت ہی اس پیچیدہ مسئلے کا ایک اچھا اور آسان ترین حل ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق ایک بڑا درخت 36ننھے منے بچوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے جبکہ10بڑے درخت نہ صرف ایک ٹن ائیر کنڈیشنر جتنی ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں بلکہ ساتھ ہی فضائی آلودگی اور شور کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گندے نالوں کے اطراف موجوددرختوں کی جڑیں پانی کے گندے مادوں کو جذب کرکے ناگوار بو کم کرتی ہیں، جبکہ پتے ماحول کو صاف ہوا مہیا کرتے ہیں۔ماہرین موحولیات ا ور سائنس دانوںکی متفقہ رائے ہے کہ ہر ملک کی خوشحالی، بقا ،ترقی اور آگے بڑھنے کے لئے اس کا 25فیصد حصہ ہر صورت جنگلات پر مشتمل ہونا لازمی ہے لیکن انتہائی دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت دنیا میں رقبے کے لحاظ سے 37واں لیکن آبادی کے لحاظ سے چھٹا نمبر رکھنے والے ہمارے پیارے پاکستان میں جنگلات کا وجود تیزی سے مٹنے کے باعث اب ہمارے جنگلات صرف بمشکل تک4فیصد رہ گئے ہیں۔اس کا خوفناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے ملک میں اب وہ سلسلہ وار بارشیں بہت حد تک ختم ہو کر رہ گئی ہیں،جن پر ہماری زراعت کا سب سے زیادہ انحصار تھا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ بھارت ہمارا پانی تیزی سے بند کررہاہے۔ اس کام کے لئے وہ مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ہمارے حصے کے دریائوں پر بھی بیسیوں چھوٹے بڑے سینکڑوں ڈیم بنا رہا ہے جن میں سے کئی مکمل ہو چکے ہیں۔اسی وجہ سے ہمارے دریائوں میں پانی کا بہائو بہت کم ہو گیا ہے ۔بھارت کی اس آبی جارحیت کو ہر ممکن طریقے سے روکنابہرطور ضروری ہے تو اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پانی کی اس کمیابی ،ماحولیاتی اور ہر سال سیلابوں سے ہونے والی تباہی ہماراا پنا حصہ بھی شامل ہے۔
اس ناقابل تلافی نقصان میں جنگلات کی دن رات بربادی ہی بنیا د ہے اور یہ کام ہمارے اپنے اسی ملک کے لوگوں کا ہی کیا دھرا ہے ۔1994میں موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کی ہی حکومت تھی کہ ملک میں ایک خوفنا ک سیلاب نے تباہی مچائی تھی۔سیلاب کے محرکات پرجب غور کیا گیا توماہرین کی آراء سے پتہ چلاکہ گزشتہ طویل عرصہ میں آزاد کشمیر اور ہزار ہ کے جنگلات کو برے طریقے سے کاٹا گیا ہے ،جس کے باعث اب زمین میں بارشی پانی روک کر جمع کرنے کی صلاحیت بہت کم ہو گئی ہے۔اس پر میاں نواز شریف نے جنگلات کی کٹائی پر مکمل پابندی عائد کرکے جنگلات بڑھانے پر توجہ مرکوز کی لیکن انہیں جلد ہی اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔اس کے بعد آنے والی حکومتوںکے ادوار میں یہ پابندی صرف نام کی حد تک ہی رہ گئی اور جنگلات کا تیز تر صفایا شروع ہو گیا۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ وطن عزیز کے ہزارہ ڈویژن کے اضلاع ایبٹ آباد،مانسہرہ ،کوہستان اور تورغر کے انتہائی قیمتی جنگلات کو سب سے زیادہ اوربے دردی سے صاف کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ کاغذات کی حد تک پابندی بھی عائدہے، لیکن اس کی کسی کو پروانہیں ہزارہ کے ان علاقوں میںپہنچ کر اور دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ پورے علاقے میںاس حوالے سے قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ راقم کا ہزارہ کے دور دراز علاقوں میں سفر کے دوران بار بار کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جنگل سمگلر چوکیداروں کی معمولی پیسے سے مٹھی گرم کر کے بلا خوف و خطر طاقتورجیپیںاور فور وہیل گاڑیاں لے کر ہر وقت بلند و بالا جنگلوں میں گھسے، ان کے صفائے اور سبز سونے کی لوٹ مار میں مصروف رہتے ہیں۔وہ یہ لکڑ ی لے کرجب چلنا شروع کرتے ہیں تواس لکڑی کو روکنے کے لئے جگہ جگہ قائم چیک پوسٹوں پر بھی وہ معمولی نذرانہ دے کر بآسانی اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ جنگل سمگلر صرف ان چھوٹے اہلکاروں کو ہی نہیں خریدتے بلکہ لگ بھگ سارا محکمہ جنگلات ہی ان سے اپنا حصہ بقدر جسہ وصول کرتا ہے۔ہزارہ میں اس سبز سونے کی لوٹ مار کے لئے سڑک کے علاوہ تربیلا جھیل کا بھی استعمال کیا جاتا ہے ،جہاںلکڑی کشتیوں اور لانچوں کے ذریعے پہلے ہری پور اور پھر آگے منتقل کر دی جاتی ہے۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہاں ملک دشمن جنگل سمگلروں کا نشانہ دیودار اور بیاڑ کے قیمتی درخت ہی ہوتے ہیں۔ان درختوں کے جوان ہونے کے لئے ڈیڑھ سو سے دوسو سال کا عرصہ درکا ر ہوتا ہے جنہیںپلک جھپکنے میںیہ”جنگلاتی دہشت گرد”زمین بوس کر کے جیب میں چار پیسے ٹھونس لیتے ہیں۔ ہزارہ کے جنگلات کو دن رات کاٹنے والے جنگل سمگلر اس قدر طاقتور ہیں کہ یہ کسی کی جان لینے سے بھی نہیں چوکتے ۔ان مخالفین ان کی اسی ہیبت سے بھی زبان بند رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہزارہ کے جنگلات کے یوں تیزی سے کٹنے کا نتیجہ وہاں کے عوام سے ہی پوچھ لیجئے کہ ا ب ان کے علاقوں کا کیا حال ہو گیا ہے ۔ ملک میں سب سے سر سبز و شاداب سمجھا جانے والا علاقہ ہزارہ جسے دنیا ”گرین ہزارہ ” کے نام سے پکارتی تھی ، اب اسی ہزارہ میں سارا سال بہنے والے پانی کے خوبصورت چشمے اور آبشاریں ناپید ہو چکی ہیں اور بہت مشکل سے کہیں خال خال ہی آبی جھرنے دیکھنے کو ملتے ہیں۔علاقے کا حسن خوبصورت پرندے ،پھول اور ہریالی جویہاں کی سب سے بڑی پہچان تھی ، جنگلات کے خاتمے اور پھر بارشیں نہ ہونے سے سب تیزی سے ختم ہورہا ہے ۔بہت سے علاقوں میں توان قدرتی رعنائیوں کا نام و نشان بھی مٹ چکا ہے۔وہی ہزارہ جہاں سے آنے والے پا نی پورا ملک سیراب ہوتا تھا، اب اس کے اپنے موسم اور بارشوں کے سلسلے بہت حدتک بدل چکے ہیں۔ یہ حال باقی ملک کا ہے جہاں درختو ں کی بے پناہ کٹائی سے جنگلی حیات کا ہی خاتمہ ہو چکا ہے۔
بھارت نے دریائے راوی کا پانی قیام پاکستان کے ساتھ ہی مکمل بند کر دیا تو علاقہ بنجر ہو گیا تو دوسری طرف لاہور شہر میں چند سال میںلگ بھگ 40 ہزار درخت کاٹے گئے جس سے اب لاہور کاماحول ہی بدل چکا ہے اور خوبصور ت پرندوں کا وجود مٹ چکا ہے اور پانی کی سطح خوفناک حد تک نیچے جا رہی ہے۔بھارتی آبی دہشت گردی کے ساتھ اگر ان مٹتے جنگلات کو بچانے کی فوری تدبیر نہ کی گئی تو اللہ نہ کرے، خونی دہشت گردی سے کہیں بہت پہلے ہمیں یہ جنگلاتی ہشت گردی نہ لے ڈوبے۔آخر کیا وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کے جنگلات تو بہت حد تک محفوظ ہیں لیکن ہزارہ کے جنگلات اور ملک کے باقی درختوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ زیر اعظم جناب و نواز شریف کے ساتھ وزیر اعلیٰ صوبہ خیبر پرویز خٹک سے عالمی یوم جنگلات کے موقع پر گزارش ہے کہ اس سنگین مسئلے کی بھی فوری فکر کریں اور عمران خان اس حوالے سے اپنا حالیہ وعدہ بھی پورا کریں کہ شاید پھر مہلت نہ ملے۔
تحریر : علی عمران شاہین