تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
یہ دن منانے کا مقصد شاعروں کی حوصلہ افزائی کرنا ،شاعری کے معاشرے پر اثرات ،شاعری کا معاشرے کی اصلاح کے لیے کردار کا مطالعہ کرنا ہے ، اس دن اپنی پسندیدہ شاعری کا مطالعہ اور موازنہ کیا جاتا ہے ۔ یہ دن دنیا بھرمیں 21 مارچ کو 1999 ء سے منایا جا رہا ہے ۔لفظ شاعری کا مفہوم ہے، موزوں الفاظ میں کسی واقعہ ،حادثہ ،کیفیت،نظریے ، ماضی ،حال مستقبل وغیرہ کو بیان کرنا ۔شعر کہتے ہیں جاننے ،پہچاننے ،واقفیت کو ۔اس میں دو مصرے ہوتے ہیں ۔شاعر معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے ،ہر فرد جو سوچتا ہے ۔اسے چاہتا ہے دوسروں تک پہنچائے ،اپنی سوچ و خیالات دوسروں تک مناسب ،موزوں الفاظ میں پہچانے کو شاعری کہتے ہیں ۔
اسلام میں شاعری کی کچھ اقسام کی اجازت نہیں ہے ۔ایسے شعراء کو بھٹکے ہوئے،بہکے ہوئے ، لوگ کہا گیا ہے(سورة الشعر ا ا یت 224 )اسی طرح شاعری کی کچھ اقسام کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ جس طرح ،بہودہ گفتگو،گالی دینا وغیرہ سے اسلام میں روکا گیا ہے، ایسے ہی گھٹیا شاعری منع ہے ،جس طرح اچھی گفتگو کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، ایسے ہی اچھی شاعری کی اجازت ہے، اس لیے یہ کہنا کہ اسلام میں شاعری کو پسند نہیں کیا جاتا مناسب نہیں ہے ۔
شاعری کی بہت سی اقسام ہیں،جن میں سے چند ایک کا مختصر ذکر درج ذیل ہے ۔
”حمد”جس میں اللہ سبحان و تعالی کی تعریف بیان کی گئی ہو ۔اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کے نظمی اندازِ بیاں کو” نعت ”کہتے ہیں ۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ اکرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔
”غزل” کا لفظ غزال سے نکلا ہے اور غزال ہرن کو کہتے ہیں۔غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عشق و محبت کا ذکر کرنا ہے بھی بتایا گیا ہے ۔اشعار پہ مشتمل مجموعہ غزل کہلاتا ہے۔ اک غزل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔مطلع ،مقطع اور اشعار “مطلع “پہلے شعر کو اور آخری کو جس میں شاعر کا تخلص ہوتا ہے، اسے “مقطع “اور درمیان میں جو اشعار ہوتے ہیں، ان کو “اشعار” کہا جاتا ہے ۔ایک غزل کم ازکم پانچ اشعار پر مشتمل ہوتی ہے ۔زیادہ کی قید نہیں ۔غزل کے سب سے بہتر شعرکو”بیت الغزل ”کہا جاتا ہے ۔”شعر”جس میں دو مصرے ہوتے ہیں پہلے مصرع کو” مصرع اولیٰ ” اور دوسرے مصرع کو ” مصرع ثانی” کہتے ہیں صرف ایک شعر کو ” فرد” کہا جاتا ہے ۔ ”نظم ”سے مراد ایساا صناف سخن ہے جس میں کسی بھی ایک خیال کو مسلسل بیان کیا جاتا ہے ۔ نظم میں ردیف و قافیہ کی پابندی نہیں ہوتی
”مسدس ”چھ شعروں کے ایک قطعہ پر مشتمل شاعری کو کہتے ہیں۔”رباعی ”عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چار کے ہیں۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے ، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے ۔رباعی کے آخری دو مصرعوں خاص کر چوتھے مصرع پر ساری رباعی کا انحصارہوتا ہے ۔
“قطعہ “شاعری کی ایک صنف ہے، یہ چار مصروں پہ مشتمل ہوتا ہے، اس کے پہلے مصرہ میں قافیہ یا ردیف کی کوئی قید نہیں ہے لیکن دوسرے مصرے میں قافیہ لازمی موجود ہوتا ہے ۔”سہر ا ”شادی کے موقع پر دلہا کے لئے گائے جانے والے گیت کو سہرا کا نام دیا جاتا ہے ۔
”منقبت”اشعار کے ذریعے کسی کی تعریف کرنے کو منقبت کہتے ہیں لیکن عام طور پر یہ لفظ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تعریف میں لکھے ہوئے اشعار کو کہا جاتا ہے ۔ ”سلام”یہ شاعری کی ایک قسم ہے جو زیادہ تر شہدائے کربلا کے مدح میں لکھی جاتی ہے۔ ”’ ہجو”ایسی غزل یا نظم، خواہ کسی بھی ہیئت میں ہو، جس میں کسی کی مخالفت میں اس پر طنز کیا جائے یا اس کا مذاق اڑایا جائے کو کہتے ہیں۔”وسوخت”محبوب کے بے وفائی یا لاپروائی کے بیان کے لئے لکھی جانے والی شاعری کو کہتے ہیں۔ ”گیت”ایسی غزل کو کہتے ہیں جسے سراور آلات موسیقی کے ساتھ گایا جاتا ہے ۔”قصیدہ”، قصد سے ہے ،اسے تعریف کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
”مثنوی”کو شاعری کا ناول ہی سمجھیں ،ایسی نظم جس میں دو مصرے جن میں قافیہ و ردیف ہو ۔مثنوی میں ایک ہی واقعہ یا قصہ بیان کیا جاتا ہے۔ ”مناجات”کا مطلب ہے دعا کرنا ،دعائیہ شاعری کو مناجات کہا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ ، قوالی، ریختی،ماہیا،دوہا،ہائیکو،وغیرہ بھی شاعری کی اقسام ہیں ۔
آج شاعری کے عالمی دن کے موقع پر مجھے اپنے وطن کے ادیبوں ،شاعروں سے کہنا ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں دہشت گردی،انسانیت کی ناقدری،نا انصافی ،نااہلی ،بدعنوانی ،فرقہ واریت اور نفرت کا راج ہے ،اور ہمارے شعراء کی اکثریت صرف لب ورخسار ،غم جاناں کی شاعری کر رہی ہے ،خدارہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ادب اور سماج کا آپس میں گہرا رشتہ ہے ،سماج ادب سے تشکیل پاتا ہے ۔اردو کے شعراء میں جو مقام ،شبلی ،حالی،اقبال کو ملا اسی سبب سے ملا ۔ہم یہ نہیں کہ رہے کہ رومانی شاعری نہ کی جائے ہم یہ کہ رہے ہیں موجودہ عہد کو سامنے رکھ کر اس کے مسائل پر بھی شاعری کی جائے۔ یہ ہی بات ہمارے محترم شاعر جناب (جبار واصف)نے اس نظم میں کہی ہے ۔ان کے بہت سے شکریے کے ساتھ۔
عالمی دن ہے شاعری کا آج ۔۔آج کے دن سخن وروں سے مری
عاجزانہ سی اِک گزارش ہے۔۔جتنے صدمات اِس جہاں کے ہیں
ان کو قرطاس پر اتاریں سب۔۔تا کہ ادراک ہو مسائل کا
تا کہ احساس کچھ اجاگر ہو۔۔رِستے زخموں کا بکھری لاشوں کا
بھوکے بچوں کااور مائوں کا۔۔بین کرتی ہوئی ردائوں کا
سسکیوں، آنسووں کا ، آہوں کا۔۔نہ کہ ہم وہ سخن کریں موزوں
بات جس میں ہو مہ جبینوں کی۔۔راہ بھٹکی ہوئی حسینوں کی
تذکرہ جس میں ہو ادائوں کا۔۔ذکر ہو جس میں بے وفائوں کا
جس میں زلفوں کے کچھ فسانے ہوں۔۔سرخ ہونٹوں کے کچھ ترانے ہوں
جن کو دِلی کے نامور شاعر۔۔لکھ چکے اور لکھ کے مر بھی چکے
آئو مل جل کے آج عہد کریں۔۔جتنے صدمات اس جہاں کے ہیں
ان کو قرطاس پر اتاریں گے۔۔تا کہ ادراک ہو مسائل کا
تا کہ احساس کچھ اجاگر ہو۔۔۔
تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال