تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
ہر سال 15 ستمبر کے دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم جمہوریت منایا جا رہا ہے۔ Democracy (جمہوریت) لوگوں کے سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی نظاموں کے تعین کیلئے ان کی آزادنہ رائے پر منحصر ایک عالمی قدر ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں عوام کی شرکت پر زور دیتا ہے، اس نظام کے زریعے عوامی اکثریت خفیہ یا عام رائے دہی کے ذریعے فیصلے کرتی ہے۔ اس دن کے منائے جانے کا مقصد جمہوریت کیلئے عوامی شعور بیدار کرنا اور غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کیلئے آواز بلند کرنا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2007ء میں جمہوریت کا عالمی دن منانے کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔15ستمبر 2008ء کو پہلا عالمی یوم جمہوریت منایا گیا تھا۔ اب دنیا کی زیادہ تر اقوام جمہوریت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکی ہیں۔ تاہم وطن عزیز پاکستان میں جمہوری اقدار خاصی کمزور ہے مگر بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں رائج جمہوریتیں متعددمشترکہ پہلوؤں کی حامل ہیں تاہم دنیا میں جمہوریت کا کوئی واحد نمونہ یا واحد رنگ نہیں ہے۔ جمہوریت کو فروغ دینے اور مستحکم بنانے کیلئے حکومتوں کی کوششوں کو معاونت فراہم کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں متعدد سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔تاہم اقوام متحدہ، اپنے چارٹر کے مطابق کسی رکن ملک میں اس کی خصوصی درخواست کے بغیر کوئی سرگرمی شروع نہیں کرتی۔
بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اچھی اور دیانتدار قیادت کے فقدان کا سامنا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک تقریباً نصف سے زائد عرصہ تک ملک میں غیر جمہوری قوتوں کی حکمرانی رہی ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کے مطابق تو ملت کے تمام افرادکو معاشرتی اور معاشی مساوی حقوق حاصل ہیںمگر جمہوری نظام کے باوجود امراء ہی اقتدار پر قابض نظر آتے ہیں ۔امراء کی حکمرانی کے باعث قانون و انصاف اور دیگر امور میں غریب عوام پر جس طرح کا سلوک رواء رکھا جاتا ہے اس کی کسی جمہوری ملک میں مثال نہیں ملتی۔ گزشتہ 68 سال سے پاکستان میں جمہوریت کے جس ماڈل پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔
اس کا نہ تو علامہ اقبال کے جمہوری تصور سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی قائد اعظم پاکستان ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں امیر و غریب میں امتیاز برتا جاتا ہو۔ موجودہ جمہوری نظام میں شہریوں کو مساوی مواقع حاصل نہیں ہیں۔ کروڑوں افراد کو اپنی خداداد صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔اگر کبھی موقع مل جائے تو پنکچر لگانے والا بھی بی اے کے امتحان میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرلیتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غریب عوام میں ٹیلنٹ موجود ہوتا ہے مگر ان کو پروان چڑھانے کے مواقع موجود نہیں ہوتے۔ پاکستان میں موجود جمہوریت امیروں کی جمہوریت ہے جسکے ثمرات امیروں میں ہی گردش کرتے رہتے ہیں۔ عوام کا اس جمہوریت میں پانچ سال کے بعد پرچی پر مہر لگانے کے سوا اور کوئی اور کردار نہیںہوتا۔
حکمران اشرافیہ عوام کا اعتماد حاصل کرکے اقتدار میں آتی ہے اور پھر اقتدار کی طاقت کو جس شرمناک اور سنگدلانہ طور پر عوام کیخلاف ہی استعمال کرتی ہے اسکی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ملتی۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور انتخابات کو ہی جمہوریت سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ جمہوریت ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس میں گڈ گورننس بنیادی تقاضہ ہے۔ جس جمہوریت میں گڈ گورننس نہ ہو اسے جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔جمہوری ملکوں میں عوام کے حقوق سلب کرنے والے افراد کی کمی نہیں ، ایسی جمہوریت میں طاقتور طبقات سیاست اور حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں اور ایسی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں جن کا فائدہ اشرافیہ کو پہنچتا ہے۔ ملک کے وسائل امیر طبقات کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے رہتے ہیں۔
دنیا بھر کے بہت سے ملکوں کے جمہوری نظام عوام کے بنیادی حقوق کو بری طرح نظر انداز کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ غربت میں اضافہ ہورہا ہے ، ان ملکوں میں اقتدار اور طاقت امیروں کے ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ پاکستان میں ”امیروں کی جمہوریت” کو عوام بھگت رہے ہیں۔ حکمران اشرافیہ اربوں روپے سڑکوں، پلوں، میٹرو وغیرہ پر صرف کرتے ہیں۔ تعمیرات اور مواصلات میں چونکہ منافع کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاجر حکمران جب بھی اقتدار میںآتے ہیں انکی پہلی ترجیح میٹروز اور موٹرویز کی تعمیر ہوتی ہے تاکہ کرپشن کے ذریعے لوٹ مار کی جاسکے۔ یہ حکمران عام آدمی پر سرمایہ کاری نہیں کرتے نہ ان کو تعلیم کی مناسب سہولتیں فراہم کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے۔
عام آدمی کو ہنر سکھانے اور ان کو اپنے پائوں پر کھڑے کرنے کی بجائے قومی سرمائے سے اربوں روپے کے لیپ ٹاپ تقسیم کردیتے ہیں جسکا مقصد سیاسی شہرت حاصل کرنا اور اپنی جماعت کے ووٹ بنک میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں مغربی ممالک کی طرح تعلیم اور صحت کے وسائل مہیا نہیں کیے جاسکے۔ حکومت کے پالیسی سازوں کو یہ معلو م ہونا چا ہیے کہ مغربی ملکوں نے اس وقت تعلیم اور صحت پر توجہ دی تھی جب وہ ممالک امیر نہیں تھے اور تعلیم و صحت پر توجہ دیکر ہی ان ممالک نے ترقی کی تھی۔
پاکستان کے صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب میں گزشتہ سات سال سے سیاسی و جمہوری جماعتیں برسر اقتدار ہیں مگر ان صوبوں میں ترقی کے اشاریے شرمناک ہیں۔ جمہوری سیاسی قیادتوں کا پاکستان سے تعلق واجبی سارہ گیا ہے اکثر حکمرانوں کے تمام اثاثے پاکستان سے باہر موجود ہیں، وہ پاکستان میں صرف اقتدار انجوائے کرنے کیلئے آتے ہیں، مدت اقتدار پوری ہونے یا ملک میں ان کی کرپشن عیاں ہونے پر یہ واپس بیرون ملک منتقل ہوجاتے ہیں۔جب تک موجودہ جمہوری سسٹم کو تبدیل نہیں کیا تا موٹرویز اور میٹروز اور گرین ٹرین کے باوجود پاکستان اور پاکستان کے غریب عوام کی ترقی منجمندہی رہے گی۔جمہوری سسٹم کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ ملک سے کرپشن اور اقرباء پروری کا مکمل خاتمہ ہو او رتمام حکمران اور سیاسی شخصیات ملک سے لوٹا ہوا سرمایہ واپس پاکستان لائیں۔
پاکستانی قوم کا موجودہ رویہ ہے کہ حالات کا ماتم کیا جائے اور کڑھ کڑھ کر زندگی گزار دی جائے۔ حالانکہ اشرف المخلوقات ہونے کی بناء پر انسانوں کا فرض ہے کہ وہ ظلم اور استحصال کو قبول کرنے کی بجائے مزاحمت کریں، اپنے ووٹ اور حق رائے دہی کے ذریعے ظالموں ، چوروں ، لٹیروں اور ملک دشمن کے آلہ کاروں ، اقتدار کے بھوکوںکا راستہ روکیں ۔ دوسرے لوگوں میں ووٹ کی طاقت کا شعور بیدار کریں۔ آج حالات یہ ہیں کہ ہم اپنا ووٹ ، اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کرتے اور صرف بیس فیصد کہیں پچیس فیصد ٹرن آوٹ پر وہی لوگ ہم پر حاکم مسلط ہوجاتے ہیں ۔
جنہیں ہم پسند ہی نہیں کرتے ، جو ہمارے اور ہمارے ملک کے خیر خواہ نہیں ہوتے۔اگر ہم نے ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو نہ صرف ہر ہر انتخاب میں اپناحق رائے دہی استعمال کرنا ہوگا بلکہ اقتدار کے لائق ایسے قابل لوگوں کو آگے لانا ہوگا جو ملک و قوم کی بغیر کسی لالچ کے خدمت کرسکیں۔ہم عوام ملک کی حالت بدل سکتے ہیں ، عالمی یوم جمہوریہ کا یہ پیغام ہے کہ ہر ہر شخص ایسی حقیقی جمہوریت کو فروغ دے جو کہ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی ضامن ہو، اور امیر و غریب، حکمران و کسان، محنت کش اور سرمایہ دار،معمار و صنعتکار میں امتیاز نہ برتتی ہو۔تبھی ملک و قوم میں حقیقی خوشحالی آئے گی۔
رانا اعجاز حسین رابطہ نمبر:0300-9230033
ای میل:ranaaijazmul@gmail.com