پیرس۔ عالمی ادارہ برائے صحت کا کردار دنیا میں انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ کیونکہ یہ تنظیم دنیا کو درپیش صحت کے مسائل جن میں پھیلنے والی بیماریاں اور دواؤں کے خلاف مدافعت شامل ہیں کو ختم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ ادارہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دنیا کی رہنما صحت کی تنظیم کے طور پر بحال کرے۔ تاکہ ادارے کو باہمی روابط اور شراکت داری کے مروجہ اصولوں کو قائم کرتے ہوئے دنیا کے لوگوں کی صحت و تندرستی کو بھی ممکن بنانا چاہئے۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر جو سابقہ وزیر مملکت برائے سائنس اور عالمی ادارہ صحت کی ڈائریکٹر جنرل کی امیدوار بھی ہیں نے سائنس پو جو کہ فرانس کا ایک اعلی تعلیمی ادارہ ہے کی جانب سے منعقدہ تقریب جس کا عنوان ”امیدوران برائے ڈائریکٹر جنرل عالمی ادارہ صحت“ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہی۔
اس پروگرام میں جین میری لی گوبین وزیر مملکت برائے ترقی فرانس کے علاوہ طلباء و طالبات، شعبہ سائنس پو کے اساتذہ اور ماہرین برائے صحت کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
ڈاکٹر ثانیہ نے کہا کہ اگر انہیں عالمی ادارہ صحت کی رہنمائی کا موقع ملا تو وہ اس کی کھوئی ہوئی ساکھ کو شفافیت اور احتسابی عمل سے دوبارہ حاصل کریں گی۔ وہ اس بات کی بھی کوشش کریں گی کہ ڈبلیو ایچ او کے بنیادی اور خصوصی فرائض کو مرکوزیت اور غیر جانبداری سے ادا کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش ہو گی کہ وہ ڈبلیو ایچ او کو ایک مؤثر، شفاف، جوابدہ اور منظم تنظیم بنا سکیں تاکہ وہ ثبوت کے تحت فیصلہ سازی کر سکے۔
ڈاکٹر ثانیہ نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی مالی، تکنیکی اور ادارہ جاتی صلاحیتوں کو بہتر کریں گی تاکہ وہ بیماریوں کے حادثاتی پھیلاؤ کو دیگر ممالک کی مدد اور ان کی تربیت کے ساتھ قابو پاسکے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ عالمی ادارہ صحت کی فراہمی کے لیئے ضروری ہے کہ وہ دیگر ممالک کو تکنیکی امداد فراہم کر سکے تاکہ وہ SGD کے اہداف کو آسانی سے حاصل کرسکیں۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتران امیدواروں میں شامل ہیں جن کی نامزدگی عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کے طور پر کی گئی ہے۔ دوسرے دو امیداروں میں تدروس ایدہانوم جن کا تعلق ایتھوپیا اور مسٹر ڈیوڈ نبارو جن کا تعلق لندن سے ہے شامل ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا حتمی الیکشن مئی 2017 میں ہوگا اور اس انتخاب کیلئے 194 ممالک کی مدد درکار ہوگی۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر عالمی ادارہ صحت کے کمیشن کی کو چیئر کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔
اس تقریب کا اہتمام 150 سالہ پرانے اعلی تعلیم کے ادارے سائنس پو فرانس نے کیا تھا۔ جو کہ 13000 طلبہ و طالبات جن کا تعلق 150 ممالک سے ہے کو ڈپلومہ اور ڈگری کے کورسز کروا رہی ہے۔