تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال 21 نومبر کو ماہی گیروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک ماہی گیر 68 سالوں میں تاحال اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں، سماجی و معاشی انصاف تو دور کی بات، انسانی حقوق کے تحت انھیں انسان تک نہیں سمجھا جاتا۔ملک میں40 لاکھ سے زائد ماہی گیر ہیں، جن کے لئے کسی حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ ہر حکومت ان کے حق میں بلند بانگ دعوؤں پر مشتمل تقریر کرتے ہیں ،لیکن عملاََ ان کے لیے کچھ نہیں کر تے ۔یہ ماہی گیر غربت کی لکیر کے نیچے سسک سسک کر جی رہے ہیں۔اور بے بسی کی موت مر رہے ہیں۔
ان کو صاف پانی ،دو وقت کی روٹی،صحت و تعلیم کے لیے سہولیات تو خواب و خیال ہیں ،پہننے کو سرچھپانے کے لیے چھت تک میسر نہیں ہے ۔سردی گرمی سے بچائوکے لیے ضروی اشیاء بستر ،کمبل میسر نہیں ہیں ۔، ان کے بچے علم کی روشنی سے کوسوں دور جہالتوں کے اندھیروں میں ڈوبے ہیں۔
یہ بات ہر کوئی کرتا ہے کہ ماہی گیر آج بھی بنیادی سہولیات اور حقوق سے محروم ہیں ،لیکن ان کے لیے کیا کچھ نہیں جاتا ،ہر سال یوم ماہی گیر پر کچھ شور اٹھتا ہے، دن گزرنے کے ساتھ ختم ہو جاتا یا اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔
ماہی گیری دنیا کا قدیم ترین پیشہ ہے ۔ ماہی گیروں کا عالمی دن منانے کا مقصد ماہی گیروں کو تمام شہری حقوق دلوانا ہے ۔
پاکستان میں ہر سال ماہی گیروں کی تنظیم فشر فوک فورم کراچی کے ساحلی علاقے جاموٹ جیٹی میں ایک رنگا رنگ میلے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں سندھ اور بلوچستان سے ہزاروں ماہی گیرشرکت کرتے ہیں ۔فشر فوک فورم کے مطابق ماہی گیر ملک کا سب سے محروم اور غریب طبقہ ہے ،جس کی اکثریت تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔
ماہی گیروں کی تنظیم فشر فوک فورم نے گزشتہ عالمی یوم ماہی گیر کے موقع پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا تھا ،جس میں پاکستان اور بھارت کے ماہی گیروں کی گرفتاری اور ان سے جنگی قیدیوں کا سا سلوک کرنے پر احتجاج کیا گیا تھا ۔ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ماہی گیر پر امن شہری ہیں اور سمندر میں اپنی روزی تلاش کرتے ہیں مگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث ماہی گیروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ماہی گیروں نے دونوں ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ سمندری حدود کو واضح کرنے کے لئے سگنلز یا لائٹ ہاؤس لگائیں تاکہ ماہی گیر غلطی سے سمندری حدود کی خلاف ورزی نہ کریں۔
اس وقت سینکڑوں ماہی گیر دونوں ممالک کی جیلوں میں قید ہیں ۔کوئی ان کا پرسان حال نہیں ۔کیا ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔ ۔’حقوق” ایک ایسا معتبر جملہ ہے ۔دیکھا گیا ہے ،سب اپنے اپنے حقوق کی باتیں کرتے ہیں، فرائض کو بھولے رہتے ہیں ۔اس کے برعکس ماہی گیر اپنے فرائض پورے کر رہے ہیں، لیکن حکومت ان کے حقوق پورے نہیں کرتی ۔ماہی گیر حقوق سے دستبردار ہو کر، گردن جھکا کر غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔
ماہی گیر بھی کیا کرسکتے ہیں، جہاں اور جس ریاست میں، سماج و معاشرے میں انسانی حقوق کتابوں تک محدود ہوں۔سمندر کا سینہ چیر کر،روزی کمانے والوں کا اپنا سینہ دکھوں ،غموں ،مجبوریوں،بے بسی ،غربت ،نے چیر کے رکھا ہوا ہے، وہ بے بس اتنے ہیں کہ اپنے ساتھ ہونے والے غیر انسانی حقوق ،اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے ،کیونکہ ان کی روزی ہوائی ہوتی ہے ۔وہ چھٹی نہیں کر سکتے ورنہ ان کے بچے بھوکے رہ جائیں گے ۔بے چارے ماہی گیروں کو ان کی محنت کے حساب سے پکڑی ہوئی مچھلیوں کے دام نہیں ملتے۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال