تحریر: ایم پی خان
شوہروں پر بیویوں کے ظلم وستم کے واقعات ہر دور میں اور دنیا کے ہر حصے میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔ شوہر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا، چاہے وہ کتناہی مظلوم کیوں نہ ہو، کوئی اسے دلاسہ نہیں دیتااور نہ کسی کواسکی مظلومیت نظرآتی ہے، بلکہ الٹااسکی مظلومیت اسکی رُسوائی کاباعث بنتی ہے اورلوگ طرح طرح سے اسے ستانے لگتے ہیں بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ کسی زمانے میں شوہربیوی کو گھر سے نکالنے کی طاقت رکھتا تھا، لیکن موجودہ دور میں ایسے بے شمار واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ بیوی نے شوہر کو زبردستی گھر سے بے دخل کر دیا ہو۔
شوہر بیوی کے ساتھ معمولی تکرار کر لے، تو پوری دنیا بیوی کی طرفدار ہو جاتی ہے اور اسے طرح طرح کے مشورے دینا شروع کر دیتی ہے، حتیٰ کہ معاملہ کچہریوں تک پہنچ جاتاہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ،میڈیا، وکلاء اورقانون نافذکرنیوالے ادارے عورت کے حقوق کے لئے سرتوڑ کوششیں شروع کر دیتے ہیں ۔ لیکن بدقسمت مرد کے لئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا، یہاں تک کہ عورت کے لئے اٹھنی والی بے ہنگم آوازوں میں مردبے چارے کی اپنی آوازبھی دب جاتی ہے۔مردصرف اپنے ملک میں اس غیرمنصفانہ سلوک کا شکارنہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اسکے حقوق دبائے جانے کاسلسلہ بدستورجاری ہے۔عورتوں کے حقوق کے لئے دھڑادھڑ فلمیں بن رہی ہیں، دستاویزی پروگرام ہوتے ہیں، کتب لکھی جارہی ہیں۔
اخبارات میں کالم ، ادارئے اور خصوصی ایڈیشن چھپتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ عورتوں پر پاکستان جیسے پسماندہ فلم انڈسٹری میں بننے والی فلموں کو عالمی ایوارڈز دئے جاتے ہیں لیکن مرد کے حقوق کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔ ہماری عورتیں اب ، اللہ نظربد سے بچائے، کافی دلیر اور بہادر ہو چکی ہیں اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں لیکن انہیں اپنے فرائض کابھی احساس ہوناچاہئے۔ جب سے خواتین کے حقوق بہ الفاظ دیگر “خواتین کی آزادی” کے لئے عالمی تحریک شروع ہوئی ہے ، تواسکے زیادہ سے زیادہ اثرات مسلمان ممالک خصوصاپاکستان پرمرتب ہورہے ہیں ۔ خواتین کو جس قدر آزادی مل رہی ہے، مردکی زندگی اس قدراجیرن ہوتی جارہی ہے۔ معاش کے لئے محنت مزدوری مرد کرتا ہے جبکہ اسکے خون پسینے کی کمائی عورت پانی کی طرح خرچ کرتی ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ بعض عورتیں مردوں سے باہرکے کاموں کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی لے لیتی ہیں۔ میرے ایک دوست سے میں نے پوچھا کہ تم بیوی کے ساتھ برتن کیوں دھوتے ہو؟ انتہائی معصومیت سے کہنے لگا کہ ، وہ میرے ساتھ روٹی پکاتی ہے ، تومیں اسکے ساتھ برتن دھوتا ہوں۔ اس سلسلے میں مردوں کا ہمیشہ یہ شکوہ ہوتا ہے کہ انکے حقوق کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا ، نہ میڈیا انکا ساتھ دیتا ہے اورنہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے انکی دادرسی ہوتی ہے۔ سرکاری ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کاطرز عمل دیکھ کر تو یوں لگ رہاہے ،جیسے وہ بھی دنیا کے مظلوم ترین شوہروں کی فہرست میں شامل ہیں۔
ایسے حالات میں مولانافضل الرحمن صاحب نے قدرے جرات اور بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے ، تحفظ حقوق شوہراں چلانے کااعلان کیاہے۔جس کے ساتھ ہی پورے ملک کے مظلوم شوہروں میںخوشی کی لہر دوڑ گئی، کم ازکم انکے زخموں پر مرہم لگانے والا کوئی توہے۔اس قسم کی ایک تحریک ہندوستان میں بھی شروع کی گئی تھی ، جہاں باقاعدہ طورپر تحفظ حقوق شوہراں کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی ہے، جس کے اغراض ومقاصدیہ ہیں کہ شوہروں کے حقوق کاتحفظ یقینی بنایاجائے اورانہیں بیویوں کے ظلم وستم سے نجات دلائی جائے۔ کچھ عرصہ پہلے ، جب خواتین کی آزادی کاموجودہ تصورعام نہ تھا، شوہربیوی کو طلاق دیتاتھا اور اب بیویاں شوہروں سے زبردستی طلاق لے لیتی ہیں۔ اس لئے شوہروں کو بہت محتاط زندگی گزارناہوتاہے۔انہیں ہرمعاملے میں بیوی کامطیع اور فرمان برداربن کر رہنا ہوتاہے اور بیوی کے ہرحکم کے سامنے بلا تامل سرتسلیم خم کرنا ہوتا ہے۔
اکثر بیویاں ہائپرٹن سیو ، بلند فشارخون کی مریض ہوتی ہیں اور معمولی معمولی باتوں پر انکا بلڈپر یشرتیز ہوجاتا ہے اور پھر اگر شوہر، جسمانی لحاظ سے کمزور، نحیف اورحد درجے شریف قسم کاہو، تواسکاحال بہت براہوتاہے ۔ بیوی کی طرف سے چپل، چمٹے ،یاچمچ سے شوہر پر حملے ہوتے ہیں اور شوہر بے چارہ جوابی کارروائی میں بیوی کو ٹھنڈے پانی کاگلاس ہی پیش کرسکتاہے۔اس سلسلے میں دنیا کے تمام دوراندیش شوہر ، بیوی کے ممکنہ حملے سے بچنے کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پر حددرجے محتاط زندگی گزارتاہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر شوہروں کی پہلی اور آخری محبت کم ازکم انکی بیویاں نہیں ہوتیں اور اگرکسی کی پہلی محبت اسکی بیوی ہو، تووہ اسکی آخری محبت کبھی نہیں ہو گی اور ہمیشہ اپنے داغدارحال کا ذمہ داراپنابے داغ ماضی ہی ٹہراتاہے۔
محبت کی شادی کرنیوالے شوہر اکثر بیوی سے نالاں ہوتے ہیں اور تادم مرگ سچی محبت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار شوہر ہیں ، جواپنی بیوی کے ہاتھوں شدید اذیت میں مبتلا ہیں ۔ایسے ہی شوہروں کے حقوق کے لئے انکی ایک تنظیم ہونی چاہئے، جہاں وہ کھل کر اپنے مسائل بیان کرسکے اور پھر انکے مسائل کا مناسب حل تلاش کرنے کے لئے ٹھوس بنیادوں پر کام کیا جاسکے۔
نوٹ :اس تحریر میں میرا مقصد ہرگز خواتین کے حقوق کی مخالفت یا انکی دل آزاری نہیں ، بلکہ گنتی کے چند بے بس اور مجبور شوہروں کا حال لکھنا ہے۔
تحریر: ایم پی خان