تحریر: شاہ فیصل نعیم
دنیا کے دوبڑے نظام جن میں سے ایک برابری اور دوسرا آزادی کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ مگر میں ایک ایسے نظام کا ماننے والا ہوں جو آزادی بھی فراہم کرتا ہے اور برابری کا بھی درس دیتا ہے مگر ان دونوں کے درمیان پیمانہِ عدل رکھتا ہے کہ کہیں ایسا نا ہو آزادی اس قدر بڑھ جائے کہ غریب کا نام و نشان ہی مٹ جائے اور برابری بھی ایک حد سے آگے نا بڑھنے پائے کہ محنت کرنے والے مایوس ہو جائیں۔ ایسا نظام ِ عدل ہمیں اسلام دیتا ہے وہ اسلام جس کی تعلیمات کو خدا تعالیٰ کی ذات نے قرآن میں رکھا ، قرآن کو سینہِ مصطفیۖ میں رکھا اور پھر یہ نور سینہ بہ سینہ منتقل ہوا جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی انسانیت کے دلوں کی اندھیر نگریوں میں۔
قرآن کے نور سے مینارہ ِ نور بنتے ایک شخص کو تاریخ فاروقِ اعظم کے نام سے جانتی ہے ۔ یہ دورِ نبویۖ ہے دنیا نبوت کے فیضان سے سیراب ہو رہی ہے۔ دنیا کی بہتری کے لیے زبانِ مبارکۖ سے ادا ہوتے الفاظ قانون بنتے جا رہے ہیں ۔ ایسا قانون جس سے بعد میں آنے والے زمانے رہنمائی طلب کریں گے۔ ایک مسلمان اور غیر مسلم دربارِ رسالت میں حاضر ہوتے ہیں اور اپنے کسی معاملے پر منصفِ انسانیتۖ سے فیصلہ طلب کرتے ہیں۔
آپ ۖ دونوں کی بات سننے کے بعد غیر مسلم کے حق میں فیصلہ دے دیتے ہیں۔ مسلمان فیصلے سے مطمن نہیں ہوتا اور عمرفاروق کے پاس چلا جاتا ہے۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ آپ غیرمسلموں کے بہت خلاف ہیں اس سے میرے حق میں فیصلہ کریں گے ۔ جب وہ دونوں آپ کی پاس جاتے ہیں اور مسلمان اپنا مسئلہ بیان کرتا ہے تو غیر مسلم آپ سے کہتا ہے کہ عمر کوئی بھی فیصلہ سنانے سے پہلے یہ سن لیں کہ آپۖ اس معاملے کا فیصلہ میرے حق میں کر چکے ہیں۔
آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو جاتا ہے آپ اندر جاتے ہیں تلوار لاتے ہیں اور مسلمان کا سر قلم کر دیتے ہیں۔ جب اس معاملے کی خبر آپ ۖ تک پہنچتی ہے تو آپۖ کہتے ہیں کہ عمر نے جو بھی کیا ٹھیک کیا۔ آپۖ کا ہر حرف حرفِ آخر ، آپۖ کے الفاظ کے بعد کسی کے الفاظ میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ آپ ۖ کے کیے فیصلوں کو بدل سکے جو اس عظمت کو سمجھتا ہے وہ فاروقِ اعظم قرار پاتا ہے اور جو اس کے برعکس گیا وہ کلمہ گو ہوتے ہوئے بھی واجب القتل قرار دیا جاتا ہے۔
یہ عہدِ فاروقی ہے دربار لگا ہوا ہے فاروقِ اعظم جلوہ گر ہیں۔ اچانک آپ کی آنکھوں سے آنسوں ٹپکنے لگتے ہیں ۔ صحابہ عرض کرتے ہیں:
“اے امیرالمومنین ! آپ کی آنکھوں میں آنسوں کیسے”؟
آپ جواب دیتے ہیں:
“لوگو! آج جب میں سلطنت ِ اسلامیہ کے تخت پر برجمان ہوں تو مجھے وہ صحرا یاد آتا ہے ۔ جب میرے باپ خطاب نے مجھے اونٹوں کو ایک لائن میں کھڑا کرنے کے لیے کہا تھا ۔ صحابہ میں ایک اونٹ کو قطار میں سیدھا کرتا تو دوسرا قطار سے ہٹ جاتا دوسرے کو قطار میں کھڑا کرتا تو پہلا ہٹ جاتا ہے۔ جب میرے باپ خطاب نے یہ ماجرا دیکھا تو اُس نے مجھے بہت مارا اور کہا:
“اے عرب کے بیٹے ہوتے ہوئے تم پانچ اونٹ ایک قطار میں کھڑے نہیں کر سکتے”؟
آج جب میں پلٹ کر اُس صحرا میں دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی حقیقت نظر آتی ہے”۔ پھر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:
“لوگو ! ایک وہ وقت تھا ایک یہ وقت ہے کہ عمر کی سلطنت کا عالم یہ ہے کہ سورج طلوع بھی سرزمینِ اسلامیہ میں ہوتا ہے اور غروب بھی۔ اب بتائو یہ آقاۖ کے قدموں کا فیضان نہیں تو اور کیا ہے”؟
ہم کون تھے ؟ ہم کیا تھے؟ ہماری کیا اوقات تھی ؟ لوگو! ہم جانوروں سے بھی بدتر ہوا کرتے تھے ہمیں جو وقار ملا و ہ آقا ۖ کے قدموں کی خیرات ہے۔
ایک وقت تھا جب ہم آپۖ سے دور تھے ہم درندوں سے بد تر تھے پھر ہم نے کالی کملی کو تھا م لیا تو دنیا ہمارے قدموں میں جھک گئی ۔ ہر زمانہ ہمارا تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ ہم نے آقا ۖ کا دامن چھوڑ دیا دنیا والوں کے دروازوں پہ دستک دینے لگے ۔ اُسی دن سے بربادی ہمارا مقدر ٹھہری۔ ہم آج بھی اُسی اندھیری رات میں ۔ اگر ہمیں روشنی چاہیے تو ہمیںپھر لوٹنا ہو گا شمعِ رسالت کی طرف۔
تحریر: شاہ فیصل نعیم