تحریر :پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
ساری دنیا میں سینئر سیٹزنز کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔مگر سب سے بد قسمت ملک مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں ان لبِ موت افراد سے وہ بہمانہ سلوکی کیا جاتا ہے جس کی دنیا کے کسی برے سے برے خطے بھی میںمثال موجود نہیں ہے۔اے جی سندھ میں دھکے کھانے والی یہ مخلوق 70سے 80سالہ ہے جس نے اپنی زندگی کے بہترین دن اس مملکت کی خدمت میں صرف ۔کیئے مگر جب ان کے پر کٹ گئے اور یہ لوگ ریٹائرمنٹ کی اذیتناک زندگی میں داخل ہوئے تو انہیں ان ہی اداروں میں اورجوموجودہ سندھ حکومت کے انڈر میں ایسی خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔
ہمارے ایک انتہائی اعلیٰ تعلیم ےافتہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر دوست جو پرو فیسر کے عہدے سے قریباََ آٹھ سال پہلے ریٹار ہوئے تھے، کے ساتھ اے جی سندھ میں صبح 9 بجے سے شام ساڑھے 6 بجے تک ناچیز کو بھی انتہائی اذیت اور خواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ہمارے دوست ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ حکام کی جانب سے پینشن اون لائن کرانے کا حکم ہو ا تو ہماری خواری کے ایام کامیںمزید اضافہ ہوگیا۔ اس سے پہلے ہمیں بینک سے آسانی کے ساتھ ہر ماہ،مانہ پینشن مل جایا کرتی تھی۔ بینک میں پہلے بھی اون لائن پینشن پہنچتی تھی۔بینک کا عملہ ہماری پینشن بُک پر پینشن کے آنے کا اندران کر لیا کرتا تھا اور کمپیوٹر فارم نکال کر پینشنرز سے دو روپے کا ٹکٹ لگوا کر دستخط کروا کرپینشن کے حصول کی انڈیکیشن دیدیتا اور فوری طور پر ہماری پینشن بھی ہمارے ہاتھ میںہوتی تھی اور سب سے اہم بات یہ ہوتی تھی کہ ہمارے زندہ ہونے کا بھی پریکٹکلی ثبوت حکام کو مل جایا کرتا تھا اور ہمارا زندہ ہونا ویریفائی ہو جایا کر تا تھا اور ہم معمولی سی پریشانی کے بعد پینشن وصول کر کے خوشی خوشی گھر لوٹا آیا کرتے تھے۔
اے جی سندھ کی کار کردگی کے حوالے سے ہمارے دوست کا کہنا ہے کہ جس قدر تکلیف دہ مرحلہ ریٹائر منٹ کے بعد اپنے جائز واجبات کے وصول کرنے کا تھا وہ ایک الگ المناک کہانی ہے جس کے دوران اے جی سندھ کا ہر ملازم مگرمچھ کی طراح منہ کھولے ہمیں ہضم کر جانے کے لئے بیٹھا ہوا دکھائی دیتا تھا۔میں صرف جی پی فنڈز سیکشن کی ایک مثال دیتا ہوں جس سے پورے اے جی سندھ کی مینٹا لیٹی کا اندازہ کیا جاسکی گا۔جب جی پی فنڈز کی سلپ نکلوائی گئی تو مجھ سے کہا گیا کہ شبیر صاحب کے پاس جائیں وہ آپ کی پے منٹس کا بل بنا کر دیں گے۔جب انہوں میری جی پی فند کی سلپ دیکھی تو جیسے اُن کے منہ میں پانی بھر آیاہو۔ جتنے میرے ڈیوز تھے اُس سے بھی ڈیڑھ دولاکھ کم کر کے موصوف نے فرمایا کہ آپ کو اتنے پیسے ملیں گے اور وہ بھی جب آپ مجھے دس ہزار روپے دیں گے تو میں آپ کی پیمنٹ جاری کروا دون گا۔ ورنہ دیگر صورت آپ کے جوتے گھیس جائیں گے مگر پیمنٹ ملنا پھر بھی مشکل رہے گا۔ہمارے دوست نے موصوف سے کہا کہ یہ ڈیڑھ دو لاکھ روپے آپ کس خوشی میں کم کر رہے ہیں میرے بھائی؟تو موصوف بولے جس قدر بھی ہوسکا میں آپ کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کروںگا۔پھر دس ہزارروپے کی رقم لے انہوں نے ان کا کام تو کرایا مگر اصل پیمنٹ سے انہیں کم لینے پر ہی اکتفا کرنا پڑا ۔اسی طرح کموٹیشن اور دگر وصولیوں میں بھی انہیں اپنے جائز پیسے نکلوانے میں خطیر رقم سے ہاتھ دھونا پڑے ۔اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو سالوں ڈیوز کے حصول کے لیئے مارے مارے پھرتے رہتے ۔جس کی انہوں کئی مثالیں بھی دیں۔اس حوالے سے اکثر خود کشیوں کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔مگر ہمارے حکمرانوں اور اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔
ہمارے دوست کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے قرباََ ایک ماہ پہلے بینک کے عملے نے کہا کہ گزیٹیڈ آفیسرزکی تنخواہ اون لائین ملا کرے گی۔دو عدد فارم دے کر بینک مینیجر نے کہا کہ اان کے ساتھ ایک عدد اینڈیمینٹی بونڈ دو افراد کے شناختی کارڈذ کی کاپیز اور ان کے اینڈیمنٹی بونونڈ پر دتخط کرواکر لائیں تو ہم آپ کو آن لائن کے لئے کاغذات ویریفائی کر کے دیدیں گے۔ تو آپ انہیں اے جی سندھ میں جمع کرا کے اپنی پینشن آن لائن کرا لیں۔ اس حوالے سے کاغذات اے جی کےاے آر ڈی سیکشنمیں ہمار ے دوست نے جاں جو کھوں میں ڈال کرد جمع کرا دیئے۔ تو ان سے کہا گیا کہ بیس دنوں کے بعد معلو کریں۔ اے جی سندھ مدت کی دی ہوئی مدت پوری ہونے پر پہنچے تو کہا گیا کہ دس دنوں کے بعد آئیں اسطرح تسیرے چکر میں جا کر کامیاب ہوئے ۔تو کہا گیا کہ کل پینشن بُک کی کاپی ساتھ لاکر اپنی آن لائن پینشن کی معلومات کر لیں۔
اب ہم اپنے دوست کے ساتھ کی جانیوالی اے جی سندھ یاترا کی طرف آتے ہیں۔جب اے جی سندھ کے عملے کے بلانے پر اگلے دن صبح 9 بجےاے آر ڈی سیکشن کی ایک طویل قطارمیںہمارے محترم دوست کے ساتھ ہم بھی شغلاََلگ گئے کہ” تیری محفل میں قسمت کا تماشہ ہم بھی دیکھیں گے“ قریباََ گیارہ بجے مرد و خوتین کی قطار میں نمبر آیا تو آنلائن پیمنٹ کی سلپ نکال کر متعلقہ فرد نے ہمارے دوست کے حولے کردی۔جو خوشی کی مارے پھولے نہیں سما رہے تھے۔مگر جب انہوں اپنی پے سلِپ کو پڑھا تو اُن کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔کیونکہ پینشن بک پر درج پینشن سے5000روپے کم درج تھے۔جہاں سے پے سلَپ ایشو کی گئی تھی اُسی کمرے میں متعلقہ آفیسر سے کہا کہ پینش کی رقم کم لگائی گئی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ سامنے کمرے میں کمپیوٹر پر نعیم صاحب آڈیٹر ہونگے وہ آپ کی پیمنٹ کو درست کردیں گے۔ نعیم صاحب سیٹ پر نہیں تھے انہیں میرے دوست نے کہاں کہاں تلاش نہیں کیا؟ایک کمرے میں کسی نے بتایا کہ نعیم برابر پینش سے متعلق کمرے میں بیٹھے ہیں۔ پہلے تو وہ کمرہ ہی لاک تھا مگر ایک صاحب کو باہر نکلنے کے لئے کمرہ کھلا تو ہم دنوں اُس کمرے میں داخل ہوا ہی چاہتے تھے۔ کہ نکلنے والے صاحب نے پوچھا کس سے ملنا ہے ہم نے معدبانہ عرض کی کہ نعیم صاحب سے ملنا ہے۔ تو موصوف نے جواب دیا کہ نعیم صاحب تو آج آئے ہی نہیں ہیں ۔ تو ہم نے اپنی تسلی کیلئے اندر بیٹھے ہوئے کلرکوں سے پوچھا تو ایک صاحب نے بتایا کہ جوصاحب ابھی باہر گئے ہیں وہ ہی تو نعیم صاحب تھے۔ہم نے باہر جب نکل کر دیکھا تو نعیم صاحب یہ وہ جا!اور چھلاوے کی طرح غائب ہو گئے۔ اسی اُدھیڑ بُن میں ہمیں کمرہ کمرہ پھرتے ہوئے دوپہر کے دو بج گئے مگر ہمارااکام ہونے میں نہیں آیا۔یہ صاحب سیٹ پر بجے کے بعد بیٹھتے ہیں۔
مجبور ہوکر ہم ایک مرتبہ پھرآر ڈی سیکشن کے کمپیوٹر ولے نوجون کے پاس گئے کہ شائد وہ اس مسئلے کو حل کردے مگر اُس کے پاس بھی اتنارش تھا شائد کئی مرتبہ بجلی کے بریک ڈاﺅں کی وجہ سے ا تھا۔اُن صاحب کے پاس ہم پھر گئے اور نے اپنی بار بار کی ناکامی بھی بتائی تو انہوں نے ایک اور صاحب جن کا نام راشد بروہی تھا کے پاس بھیج دیا کہ یہ تمام حساب کتاب وہ ہی بنا کر بھیجتا ہےوہ آپ کے مسئلے کو حل کر دےگا۔جب ان اعلیٰ حضرت کے پاس گئے تو آدھے گھنٹے تو انہوں نے الجھائے رکھا اور پھر فرمایاکہ ریکارڈ کے انچارج ادریس صاحب سے اپنی فائل نکلوا کر لے آئیں تو میں آپکا ریکارڈ ٹھیک کردوں گا۔مگر ادریس صاحب نے بھی ٹال مٹول سے کام لیا اور فائل نکال کر نہیں دی۔ نظر بچاکر پتلی گلی سے وہ بھی نکل لیئے ۔ اور ہم ہمارے 69سالہ دوست مسلسل خواری میں ایک کمرے سے دورے کمرے میں دھکے کھاتے رہے مگر ہمارے دوست کا کام ہو کر نہیں دیا۔اب شام کے 5بج چکے تھے آر ڈی سیکشن والے صاحب بھی تقریباََ فارغ تھے۔
انہوں نے کمپویٹر پر ہمارے دوست کا پے ریکارڈ دیکھ کرفرمایا کہ میں اس میں تبدیلی نہیں کر سکتاآپ نعیم حب کے پاس ہی جائیں اب وہ سیٹ پر آپ کا مل جائیں گے یہ وقت ساڑھے 5 بجے کا تھا دیکھا کے اُن کی سیٹ کے گرد اور بھی کئی بزرگ مرد و خواتیں اپنے معاملات درست کرانے کی غرض سے بیٹھے تھے۔ ہم بھی انتظار میں بیٹھ گئے۔ ہمارا خیال ہے کہ رشوت کے حصول کا وقت چھٹی کے بعد ان کے لئے بہت مناسب ہوتا ہے۔موصوف نے اپنے ٹاﺅڈ کی لائی ہوئی دو تی سپلپیں نکال کر دیں۔بہترین پرنٹ دے رہا تھا۔ کہ اچانک پرنٹر کا کارٹرج نکال کر یہ تاثر دیتے ہوئے کہ کارٹرج خراب ہو گیا ہے کارٹرج پرنٹر سے نکال کر یہ جا وہ جا ! لوگ ساڑھے 6 بجے تک بیٹھے انتظار کرتے رہے ۔مگر وموصف نہیں آئے اورپتہ چلا کہ ان کے ٹاﺅڈ کو دو ہزار روپے ہاتھ میں دو اور اپنا کیس اپنے حق میں کرو الواس طرح شام ساڑھے 6شابجے کے بعد ہم لوگ تھکے ماندے واپس پہنچے اور وہ بھی بھر پور نا کامیوں کے بعد۔کیا وزیرِ اعظم پاکستان محترم نواز شریف صاحب ،اکاﺅنٹینٹ جنرل آف پاکستان، اکاﺅنٹینٹ جنرل آف سندھ اور متعلقہ ادارے ان بوڑھے اور پریشان حال لوگوں پر رحم کھائیں گے؟؟؟ اور اس ظالمانہ کرپشن سے لوگوں کو نجات عطافرمائیں گے؟
تحریر :پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbirahmedkarachi@gmail.com