جرمنی (انجم بلوچستانی) برلن بیورو اورمرکزی آفس برلنMCBیورپ کے مطابق گذشتہ دنوں برلن کے ہوٹل Centrovital کے کانفرنس ہال میںBürgerrechtsbewegung Solidarität (BüSo) کے اراکین کا باقاعدہ عام اجلاسDr. Wolfgang Lillgeکی صدارت میں منعقد ہوا،جس میںاراکین کے علاوہ مختلف جرمن سیاسی پارٹیوں
ا ور سماجی تنظیمات کے عہدیداران، مہمانان اعزازی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔اجلاس کی نظامتکے فرائضFimmen Elke نے سر انجام دئے۔چیرمین ایشین جرمن رفاہی سوسائٹیAGRS،پاکستان عوامی تحریک PATیورپ کے چیف کوآرڈینیٹر،عالمی چیرمین کشمیر فورم انٹر نیشنلKFI محمد شکیل چغتائی واحد ایشین کمیونٹی رہنما تھے،جوپارٹی رہنما Stephan Ossenkopp کی دعو ت پر مہمان اعزازی کے طور پرتشریف لائے۔
اس اجلاس میںBüSo کی وفاقی صدر، Schiller Institut کی خالق و سربراہ مسزHelga Zepp-LaRouch نے
سانحہ ء پیرس کی شدیدمذمت کی اور”نئی شاہراہ ریشم کے بارے میںBRICS ممالک کی حکمت عملی”کے موضوع پراپنا تفصیلی مقالہ پیش کیا،جس میںانہوں نے سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر دہشت گردوں کی سر پرستی کا الزام لگایا۔انہوں نے مشرق بعید، افریقہ اور ایشیا کے بارے میںامریکن اور یورپی پالیسی پر تنقید کی۔ انہوں نے بتایا کہ انکے شوہرLaRouchامریکہ میں ان پالیسیوں کے خلاف سر گرم عمل ہیں اور وہ یورپ میںاسکی مخالفت کرتی رہیں گی۔
انہوں نے پارٹی کی جانب سےBRICS ممالک برازیل،روس، چین ،انڈیا و جنوبی افریقہ کے شاہراہ ریشم کے بارے میں مشترکہ اقتصادی منصوبہ کوبروئے کار لانے کی پر زور حمایت کی۔انہوں نے روس و امریکہ کے درمیان تیسری ایٹمی جنگ کا خدشہ ظاہر کیا،جو شام اور یمن کے حالات کی وجہ سے چھڑ سکتی ہے۔ سوال و جواب کی طویل نشست میںزیادہ تر سوال جرمنی کی اندرونی سیاست،معاشی مشکلات اور پناہ گزینوں کے بارے میں تھے۔
ایشین کمیونٹی رہنما محمدشکیل چغتائی نے پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے سانحہ پیرس پر دکھ کا اظہار کیا اور ہرقسم کی دہشت گردی کی مذمت کی۔انہوں نے مسز لاروش کے مقالہ کو سعودی عرب کے خلاف چارج شیٹ قرار دیا اورسوا ل کیا کہ وہ گیارہ ستمبر کے ضمن میںاسرائیل کا تذکرہ کرنا کیوں بھول گئیں،جبکہ ١١ ستمبر کو یہودیوں کی ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے غیر حاضری کی افواہیںکئی روز تک اخبارات کی زینت بنتی رہیں؟ انہوں نے ہیلگا لاروش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ” دنیا کو فلسطینیوں پر اسرائیل ا ور کشمیریوں پرانڈیا کے بہیمانہ مظالم کیوں نظر نہیں آتےِ؟
انکی پارٹی اس بارے میں کیا کہتی ہے؟صرف امریکہ اور یورپ کی مخالفت کافی نہیں،انہیںاسرائیل اور انڈیا کی غیر جمہوری،غیر اخلاقی اور غیر انسانی پالیسیوںکو بھی غلط قراردینا ہوگا۔ میں کسی شخصی بادشاہت کے حق میں نہیں ،تاہم ١١ستمبر کو بنیاد بنا کرصرف سعودی عرب کو مطعون کرنا مناسب نہیں۔” انہوںنے کہا کہ” میںاس نظریہ سے متفق نہیں کہ مستقبل میںروس اور امریکہ کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
اگردنیا نے مسلئہ کشمیر کے حل میں دلچسپی نہ لی تواس خطہ کی دو ایٹمی قوتوں یعنی پاکستان اور انڈیا میں ایٹمی جنگ کے خطرات زیادہ ہیں۔لہٰذا آپ کی پارٹی کو انڈیا کی حمایت سے قبل اس بارے میں بھی ضرورغور کرنا چاہئے۔انڈیا میں ہونے والے افسوسناک واقعات مثلاً گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میںمسلمانوں کا قتل اور کشمیری مسلمانوں پر عرصہ دراز سے ہونے والے انڈین سیکورٹی فورسز کے مظالم نے انڈیا کی نام نہاد جمہوریت اور سیکولرازم کا پردہ چاک کر دیا ہے۔آپ ان غیر جمہوری اور انسانیت سوز رویوں کی حمایت کس طرح کر سکیں گی؟”
مسز لاروش نے اسرائیل کے فلسطینیوں پر کئے جانے والے ظلم و ستم کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کیا اور ان کی حمایت کی، تاہم انڈیا کے بارے میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا اورنہ ہی انڈیا میں ہونے والے و اقعات پر کوئی تبصرہ کیا۔انہوں نے انڈیا اور پاکستان کے اختلافات کو برٹش انڈیا کے زمانہ میں سلطنت برطانیہ کی پالیسی قرار دیا تاکہ یہ دونوں ممالک اپنی توانائیاںمسلئہ کشمیر اور دیگر جھگڑوں میں صرف کرتے رہیں۔انہوں نے نریندر مودی کی تعریف کرتے ہوئے شاہراہ ریشم پرBRICS ممالک کی مشترکہ حکمت عملی میں انڈیا کے کردارکو قابل قد ر قرار دیا۔
پہلے سیشن کے خاتمہ پر محمدشکیل چغتائی نے ہیلگا لاروش سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا اورانہیں بتایا کہ انکی نمائندہ،شلر انسٹیٹیوٹ کی نائب صدر،
Amelia Robinson امریکہ سے برلن آئیں،تو انہوں نے جامع مسجد منہاج القرآن کے کمیونٹی سنٹر میںتشریف لا کرلار وش فیملی
اورشلر انسٹی ٹیوٹ کے مقاصد اور جدوجہد پر لیکچر دیا۔جہاں ان کی صاف گوئی سے متاثر ہو کر چغتائی صا حب نے انہیں حلقہ بگوش اسلام ہونے کی دعوت دی تھی۔
مسز لاروش نے چغتائی صاحب کوMrs. Robinson کی موت کی خبر دی ،جس پرانہوں نے دلی افسوس کا اظہار کیا۔یاد رہے کہ چغتائی صاحب کئی سال قبل ہیلگا لاروش کی برلن آمد پر ان کا ایک تفصیلی انٹرویو کر چکے ہیں۔انکی دوسری ملاقات بھی کامیاب رہی۔وہ دوسرے سیشن کے آغاز سے قبل ناسازیء طبع کی بناء پر اپنے میزبانوں سے اجازت طلب کر کے گھرواپس لوٹ آئے۔