پاکستان کی تقدیر میں اول دن سے ہی افراتفری لکھ دی گئی ہے۔ جہاں ہم پاکستان کو مسلم امہ کا قلعہ بتاتے ہیں وہیں پہ اسے خود اپنے ہاتھوں سے عدم استحکام کا شکار بنانے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے مگر جمہوریت کو یہاں پنپنے نہیں دیا گیا۔ کبھی اہل سیاست نے اپنی جگہ بنانے اور دیگر مدمقابل کو نیچا دکھانے کے لئے کسی فوجی جرنیل کے تلوے چاٹے اور جمہوریت کی پیٹ میں چھرا گھونپا تو کبھی کسی جنرل صاحب کو سیاست کا شوق چڑھا اور اس نے پارلیمنٹ پر چڑھائی کر دی۔ کبھی آئی۔ جے۔ آئی بنی تو کبھی جنرل پاشا جی کی کہانیاں سننے کو ملیں۔
آج ایک مرتبہ پھر وطن عزیز سیاسی اکھاڑا بنا ہوا ہے جہاں پر کچھ ظاہری اور کچھ باطنی قوتیں اپنی اپنی زور آزمائی میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ اس وقت تمام تر مہربانوں کی نگاہ ناز کا مرکز و محور ابھرتی ہوئی جماعت تحریک انصاف ہے۔ بدقسمتی سے فرشتے تحریک انصاف سے خائف بھی ہیں کہ وہاں خان صاحب کو اپنے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا اس لئے کہیں ایسا نہ ہو اقتدار میں آ کر خان صاحب آنکھیں ہی نہ بدل دیں کہ جائو تم کون؟ میں تو تمہیں جانتا ہی نہیں۔ اس لئے فرشتے بھی گن گن کر قدم آگے بڑھا رہے ہیں مگر فرشتوں کی بھی مجبوری ہے کہ ان کے پاس اور کوئی آپشن بھی نہیں۔ لگتا یہ ہے کہ اس بار قدرت نے فرشتوں کا بھی ناطقہ بند کرنے کا سوچ لیا ہے۔
اب لوٹوں کو جس سمت مرضی لڑکھا دو، اب وہ پزیرائی نہیں ملے گی جو کبھی آئی۔ جے۔ آئی کو ملی تھی۔ اور دھاندلی بھی اب اپنا اثر اس لئے نہیں دکھائے گی کہ اب عوام نعروں کی نہیں عمل کی تبدیلی چاہتی ہے۔ فرشتوں کی مرہون منت آنے والے لیڈر عمل کے وصف سے عاری ہوتے ہیں جو نظام نہیں صرف چہرے بدلنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہوگا کہ فرشتوں کو اپنی ہار ماننا پڑے گی۔ کرپٹ اشرافیہ کا احتساب کرنا پڑے گا اور انتخابی اصلاحات اگر نہ ہوئیں تو ایک شدید ترین عوامی ردِعمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ لگتا یہ ہے کہ ڈاکٹر طاھرالقادری کے انقلابی فکر کی آبیاری ہو چکی ہے اب اس دھرتی پر انقلاب آئے گا۔ جس انقلاب کو روکنے کے لیے بڑے جتن کیے گئے مگر تاحال حاصل وصول کچھ نہ ہو سکا۔ ہر جماعت سے چن چن کر وہ سب بڑے نام تحریک انصاف میں ڈالنے کے باوجود، ایک خوف سا طاری ہے، کسی انہونی کا خوف جس نے تمام قوتوں کو محتاط کر رکھا ہے۔
نواز شریف کی واضح غداری آصف زرداری کی کرپشن اور لوٹ کے واضح شواہد ہونے کے باوجود نہ احتساب بیورو، نہ عدلیہ اور نہ دیگر کوئی حتمی فیصلہ کر پا رہے ہیں کہ ان حالات میں اگر ان کرداروں پہ ہاتھ ڈالتے ہیں تو سامنے خان صاحب کھڑے ہیں اور خان صاحب قابل اعتبار نہیں۔ دوسری طرف بڑی قد آور شخصیت ڈاکٹر طاہرالقادری کی ہے جو کسی طور پر بھی اپنے نظریے پر کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں۔ اب ان حالات میں آئندہ الیکشن کھٹائی میں پڑتے نظر آ رہے ہیں۔ طویل المدت قومی حکومت اس لئے ناگزیر ہوتی جا رہی ہے کہ اس کے بغیر 90 دن میں نہ تو انتخابی اصلاحات لائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی موجودہ کرپٹ سسٹم میں کوئی ردو بدل ممکن ہے۔ موجودہ سسٹم کے تحت پاکستان میں استحکام کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور غیر مستحکم پاکستان عالمی بھیڑیوں کے لئے تر نوالہ ثابت ہو گا۔
عوامی بےچینی جس کی ایک شکل ہم تحفظ ناموس رسالت دھرنوں کے دوران دیکھ چکے ہیں اور اب بھی اگر قوم کو الیکشن کے نام پر وہی سب کچھ دیکھنے کو ملا جو سابقہ کئی دہائیوں سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں تو آئندہ آنے والے چند ماہ کافی مخدوش رہیں گے۔ پس اب ان ظاہری و باطنی قوتوں کو واضح فیصلہ کرنا ہو گا اور پاکستان کو حقیقی اسلامی جمہوری مملکت بننے کے راستے میں رکاوٹ بننے کی بجائے خود احتسابی کے ذریعے احتساب، اصلاحات اور پھر انتخابات کی راہ خود ہموار کرنی چاہئیے اور بے وقت کے اور بے مقصد ایڈوانچرز سے تائب ہو کر ریاست پاکستان اور پاکستانی قوم کے حال اور مستقبل کا سوچنا چاہیئے کہ یہ وقت کا تقاضہ ہے۔