تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
رسولِ کائنات، فخر موجودات کو خالق ارض و سماء نے نسلِ انسانی کے لیے نمونہ کاملہ اور اسوئہ حسنہ بنایا ہے۔ اللہ نے آپ ۖ کے طریقہ کو فطری طریقہ قرار دیا ہے ۔ دنیا میں کسی بھی اور عظیم ہستی کے بارے میں یہ مثال پیش نہیں کی جا سکتی، جس کے حالات زندگی، انداز و اطوار، مزاج و رجحان، حرکات و سکنات، نشست و برخاست اور عادات وخیالات اتنے کامل طریقہ پر اتنے سائنسی انداز میں جمع کیے گئے ہوں۔جیسے آپ ۖ سیرة طیبہ کو جمع کیا گیا ہے ۔جس طرح آپ کے اقوال و افعال سند کے ساتھ تحقیقی طور پر ہم تک پہنچے ہیں ۔جس طرح آپ ۖ کے متوالوں نے محفوظ رکھاہے۔اس لیے آقا ۖ کے معمولات زندگی ہی قیامت تک کے لیے معیار حق ہیں۔
اسلام کیا ہے؟ ۔اسلام جو رسول خد ا ۖ نے کہا ہے یا جو کیا ہے۔ یعنی آپ ۖ کا قول و فعل اسوہ حسنہ۔دنیا میں آپ ہی وہ واحد ہستی ہیں ہر لمحہ ہر آن آپ ۖ کا ذکرِ خیر کہیں نہ کہیں ضرور ہو رہا ہوتا ہے ۔
آپ کی سیرت طیبہ حیات انسانی کے ہر گوشہ کا کامل احاطہ کرتی ہے ۔سیرة مبارکہ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے ۔”کہہ دیجئے ، اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو ، خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ، نہایت ہی مہربان ہے ۔ (القران)یعنی ہم مسلمان تب ہیں ،جب اتباع رسول ۖ کریں ۔ آپ ۖ نے فرمایا ہے، جس نے میرے طریقے سے اعتراض کیاوہ مجھ سے نہیں ہے۔
حضرت ذو النون المصری کہتے ہیں ” اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ انسان رسول اللہ ۖ کی عادات، ان کے افعال، ان کے احکام اور ان کی سنتوں کی پیروی کرے ”دین اسلام کے دو جز ہیں، ایک حقوق اللہ اور ایک حقوق العباد اور یہ دونوں جز لازم آپ ۖ کی سنت مبارکہ ہیں ۔حقوق اللہ میں اللہ کی عبادات مثلاََ نماز ،روزہ حج اور زکوہ و جہاد اور دیگر عبادات شامل ہیں۔
شرک اللہ معاف نہیں فرمائے گا ۔”بیشک اللہ اِس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے” دوسرے حقوق العباد کی ۔یہ بات بہت توجہ طلب ہے ۔امید ہے اسے توجہ سے ہی پڑھا جائے گا ۔اگر کسی بندے نے جان بوجھ کر کسی کی حق تلفی کی ہے تو جب تک وہ اْسے معاف نہیں کرے گا تب تک اللہ سبحانہ وتعالی اسے جہنم میں ہی رکھے گا ۔ نماز روزہ ادا نہ کرنا کسی بھی صورت معاف نہیں۔ اور نہ کوئی مسلمان یہ انداز اختیار کرے کہ میں چونکہ حقوق العباد پورے کرتا ہوں اس لیے حقوق اللہ پورے کیے بغیر ہی بخشا جاؤں گا۔ یہ سراسر گمراہ عقیدہ ہے۔
اللہ نے بندوں کے جو بندوں پر حقوق و فرائض مقررکیے ہیں، انہیں حقوق العباد کہتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔جھوٹ سے پرہیز کرنا اور ہمیشہ سچ بولنا ۔ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور ان کو دکھ نہ دینا ۔ غیبت سے پرہیز کرنا۔ کسی کو ذلیل نہ کرنا ۔ جھوٹا الزام نہ لگانا۔ بد گمانی سے پرہیز کرنا۔ غصہ نہ کرنا۔ دوسروں کے قصور کو معاف کر دینا۔ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا۔ ہر حال میں انصاف کرنا۔ بیوی ،بچوں کے ساتھ رحم والا سلوک کرنا اور ان کو دکھ نہ دینا۔ملاوٹ نہ کرنا۔رشوت نہ لینا اور نہ دینا۔ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرنا۔ ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہنا ۔ دوسروں کے لیے وہی پسند کرنا جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔
مال اللہ کی راہ میں اللہ کے بندوں کے لیے خرچ کرنا ۔ سادگی کے ساتھ زندگی گزارنا۔ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں ، اللہ کے ہر حکم کی ، جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے ، پابندی کرنا۔ اللہ کے رسول کی اطاعت کرنا ۔تقویٰ اختیار کرنا۔تکبر نہ کرنا۔خود برائی سے رکنا اور دوسروں کو روکنے کے لیے جد وجہدکرناوغیرہ ۔یہ سارے احکامات ، انسانی زندگی کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں ۔یاد رہے یہ سنت رسول ۖ ہے۔حقوق اللہ اور حقوق العباد پر عمل کر کے ہم مسلمان کہلانے کے حق دار ہیں۔
رسول اکرم ۖ کبھی چیخ کر بات کرتے تھے نہ قہقہہ لگاتے تھے ۔نہ شور کرتے تھے نہ چلاکر بولتے تھے ۔ہر لفظ واضح بولتے جو مجمع سے مخاطب ہوتے تو تین بار جملہ کو بالکل صاف صاف دہراتے تھے ۔جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے ۔کوئی آپ سے بات کرتا تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے۔ آپ ۖ ذاتی معاملہ میں کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے ۔اگر اللہ کی حرمت پامال ہوتی تو اللہ کے لئے انتقام لیتے ۔اپنا کام خود کرنے میں تکلف نہ فرماتے تھے ۔ کوئی مصافحہ کرتا تو اس کاہاتھ نہیں چھوڑتے تھے ،جب تک وہ الگ نہ کرلے ۔ جو ملتا کھا لیتے کھانوں میں کبھی عیب نہ نکالتے ۔ مریضوں کی عیادت کرتے۔ جنازوں میں حاضر ہوتے۔ فقراء و مساکین کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ۔ ہمیشہ خوش اخلا ق رہتے تھے ۔ لوگوں سے ہمیشہ نرمی کے ساتھ پیش آتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں رات بھر قیام کے سبب ورم ہو جاتا تھا ،آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاکیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (بخاری و مسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر چمڑے کا تھا ،جس میں کھجور کے تنے کی چھال بھری ہوتی تھی۔ اللہ کا ذکر اللہ کی بندگی کی بنیاد ہے کیونکہ ذکر سے تمام اوقات و احوال میں بندے کا اس کے خالق سے تعلق ظاہر ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ” رسول اللہ ۖ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے۔”
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال