تحریر : سید سبطین شاہ
جیساکہ ساری دنیا جانتی ہے، مسئلہ کشمیر ایک دیرینہ حل طلب مسئلہ ہے، آج کے دور کے بدلتے ہوئے عالمی تناظرمیں بھی اس مسئلے کی اہمیت اورتازگی مدہم نہیں پڑی۔ خاص طورپریورپ کے بااثرحلقوں میں آج بھی کشمیرکی آوازاٹھائی جاتی ہے۔ عالمی سیاست میں نت نئے طریقوں کی دریافت کے بعد سفارتکاری کے اندازبھی بدل گئے ہیں اور جو لوگ سفارتکاری کے نئے طریقوں نہیں اپناتے اور پرانااور روایتی طریقہ کارہی اپنائے رہتے ہیں ، وہ آج کے دور کی ابھرتی ہوئی بین الاقوامی سیاست میں آگے نہیں جاسکتے۔کئی قومیں اور ممالک عالمی سفارتکاری میں اس لیے پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ ان کے سفارتکارجدید دنیاکے ساتھ اب تک ہم آہنگ نہیں ہوسکے۔اس صورتحال کے باوجودمسئلہ کشمیرکی یورپ میں تازگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی مددآپ کے تحت عالمی سطح پر مسئلہ کشمیراجاگرکرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کشمیرکے لیے پر امن جدوجہد پر یقین رکھنے والے یہ ایسے لوگ ہیں جو نت نئے طریقوں سے دنیاکی توجہ اس تنازعے کی طرف مبذول کرواناچاہتے ہیں۔ راقم نے اپنے حالیہ دورہ یورپ کے دوران کچھ ایسے لوگوں اوران کے کام کو قریب سے مشاہدہ کیا۔ کشمیرکونسل ای یو (یورپ) بھی ایسے ہی افراد کی ایک ٹیم ہے جو بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے مطابق، مسئلہ کشمیرکی اہمیت دنیاکے سامنے لارہی ہے۔ گذشتہ دنوں یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر اور بلجیم کے دارالحکومت برسلز جانے کا اتفاق ہوا۔
یہ بات واضح ہے کہ جب سے برسلزیورپی یونین کا ہیڈکوارٹر بناہے۔ اس شہرکی رونقیں دوبالاہوگئی ہیں۔ یہ ایک عالمی مرکزہے جہاں سینکڑوں کی تعدادمیں دیگریورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ ہیں اور یورپی پارلیمنٹ ،یورپی کمیشن اورکونسل کے ہزاروں کی تعدادمیں سٹاف اور ان اداروں سے وابستہ دیگرافراد کارفرماہیں۔دنیاکے دیگرخطوں کے ساتھ یورپ کے معاملات بھی یہیں طے ہوتے ہیں۔آج دنیاکی نظریںیورپ کے ان اداروں اور ان اداروں کی نظریں دنیاپر ہیں۔ایسی صورتحال میںیہاں کسی بھی عالمی سطح کے حمایت میں لابی بنانا یااس مسئلے کے حق میں سفارتکاری کرنا آسان کام نہیں ۔ یعنی مقابلے کے اس دورمیں اورپھر یورپ جیسے دنیاکے مہنگے ترین ممالک میں رہ کرمظلوموں کی آوازبلندکرنابہت ہی مشکل اورمہنگا کام ہے۔آج یورپ کی بلند ترین سفارتی سطح پر مظلوم کشمیریوں کی آوازکو اٹھانے کاسہرا کشمیری رہنماء اورکاروباری شخصیت علی رضاسید کی سربراہی میں قائم کشمیرکونسل یورپ کے سرہے۔
کونسل کی ٹیم انتہائی قابل ستائش کام کررہی ہے۔یہ لوگ اپنی کاروباری مصروفیات سے قیمتی وقت نکال کرکشمیرکے لیے آوازبلند کررہے ہیں۔ان کی سفارتی سمجھ بوجھ اتنی گہری ہے کہ یہ جانتے ہیں کہ کس طرح اورکس طریقے سے یورپی کے بااثرلوگوں تک یہ آوازپہنچائی جاسکتی ہے۔انکا کام اتنامنظم ہے کہ لوگ ان پر اعتبارکرتے ہیں اوران کی بات کوسمجھنے لگے ہیں ۔ راقم کے چند دن کے قیام کے دوران یورپی پارلیمنٹ اوربرسلزپارلیمنٹ جانے کاموقع ملا۔انہی ایام میں برسلزکی سٹی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیرکے حوالے سے ایک تقریب تھی جس کا عنوان ’’کشمیرکی ثقافت: مستقبل کے تناظرمیں‘‘ تھا۔ اس پروگرام کی میزبانی کی فرائض رکن برسلز پارلیمنٹ ڈاکٹرمنظورالہی ظہورنے انجام دئیے جبکہ پروگرام کا اہتمام انٹرنیشنل کونسل فارہیومن ڈی ویلپمنٹ (آئی سی ایچ ڈی) اورکشمیرکونسل ای یو نے کیاتھا۔
مقررین میں میزبان اور منتظم کے علاوہ برطانیہ سے رکن یورپی پارلیمنٹ راجہ افضل خان اور راقم تھے۔ ایک کانفرنس کے علاوہ کشمیرکے متعلق ثقافتی اور ادبی نمائش اس پروگرام کا حصہ تھی جس کا مقصد پرامن طریقے سے مسئلہ کشمیرکو اجاگرکرناتھا۔زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد جن میں اراکین یورپی پارلیمنٹ، اراکین برسلزپارلیمنٹ، سفارتکار، دانشور، طلباء اور میڈیاپرسزشامل تھے، پروگرام میں شریک ہوئی۔دیگرشرکاء میں برسلزپارلیمنٹ کی صدر جولی دی گروٹ اوردیگر اراکین پارلیمنٹ آندرے ڈیبوس اور نادیہ الیوسفی اوررکن ای یو پارلیمنٹ ڈاکٹر سجادکریم شامل تھے ۔ اس تقریب کا مقصد کشمیرکی ثقافت کو پیش کرکے کشمیریوں کے مصائب کا اجاگرکرناتھا۔اسطرح کی تقریب کا مقصد بہت اہم ہوتاہے۔ آج کے دورمیں کسی بھی ایشو پر سفارتکاری کا موضوع اوراسے پیش کرنے کاانداز بہت اہم ہوتاہے اور اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ کس طریقے سے اور کتنے بہتر اندازمیں آپ اپنے موقف کو پیش کرتے ہیں۔ یہ تقریب اس لیے اہمیت کی حامل تھی کیونکہ اس کا انعقاد برسلزپارلیمنٹ کے اندرہوا اورپھر کئی یورپی پارلیمنٹرین اوراہم یورپی شخصیات نے کانفرنس میں شرکت کرکے کشمیری ثقافتی اور ادبی نمائش دیکھی۔
نمائش میں کشمیریوں کی مظلومیت کے بارے میں تصاویر بھی نمایاں تھیں۔اس طرح کی تقریبات کسی بھی ایشوکااٹھانے کے لیے بہت معاون ہوتی ہیں۔اس طرح کی تقریبات کے علاوہ کشمیرکونسل یورپ ایک عرصے سے کشمیرپر ایک ملین دستخطی مہم چلا رہی ہے۔اب تک بڑی تعدادمیں یورپ کے مختلف ممالک جن بلجیم، ہالینڈ، ناروے ، سویڈن، برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی شامل ہے، کے باشندوں سے کشمیرکے حق میں دستخط لئے جاچکے ہیں۔ مسئلہ کشمیرکوبھرطریقے سے اجاگرکرنے کا یہ ایک انوکھا طریقہ ہے کہ ایک ملین دستخط مکمل ہونے پر پارلیمنٹ کے قواعد کے تحت کشمیرکے موضوع کوپارلیمنٹ میں پیش کیاجاسکے گا۔کشمیرکونسل یورپ کا موقف ہے کہ اس کی جدوجہد کا مقصد مظلوموں کی آوازکو دنیاکے سامنے پیش کرناہے اورانہیں انصاف دلاناہے۔ کونسل کے اراکین کہتے ہیں کہ جب تک کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں مل جاتا، ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
یہ تو حقیقت ہے کہ کشمیری مظلوم ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت ان کا حق خودارادیت انہیں نہیں دے رہابلکہ ان پر روزبروزمظالم ڈھارہاہے۔ کشمیریوں کا جیناحرام کردیاگیاہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت ان مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے ہرحربہ استعمال کررہاہے۔ دنیاکے سامنے بھارت کا تعارف سب سے بڑی جمہوریت کے طورپر ہے۔ایسے حالا ت میں مسئلہ کشمیرکو دنیاکے سامنے احسن طریقے سے پیش کرنابہت محال ہوچکا ہے۔ اس کے باوجودجو لوگ اس وقت مسئلہ کشمیرکویورپ میں اجاگرکررہے ہیں ، انہیں نہ صرف مالی حوالے سے طاقتوربھارتی لابی کا سامناہے بلکہ بعض اوقات بھارت کو اہمیت دینے والی عالمی برادری کے بعض عناصر حقیقت پر مبنی ان کی بات سننے کے لیے بھی تیارنہیں ہوتے۔
حالانکہ عالمی برادری کو یہ پتہ ہے کہ کشمیری کتنے مظلوم ہیں اور ان کی یہ مظلومیت بہت پرانی ہے جس کا مداوا آج کے دورمیں اشد ضروری ہوگیاہے۔ کشمیریوں کی دیرینہ مظلومیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ علامہ اقبال جیسے فلسفی شاعر کشمیرکی بار ے میں اس وقت یہ کہنے پر مجبورہیں، ’’آج وہ کشمیرہے ، محکوم ومجبوروفقیر۔کل جسے اہل نظر کہتے تھے، ایران صغیر‘‘ اقبال نے کشمیرکے بارے میں یہ شاعری تقسیم ہند سے بہت پہلے کی اوراس شعرکا پہلا مصرہ کشمیرکی اس وقت کی صورتحال پر بتارہاہے کہ کشمیری آج محکوم اور مجبورہے اور دوسرا مصرہ کشمیرکی ثقافتی اہمیت بتارہاہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اگرچہ کشمیرایک چھوٹاخطہ یا ملک ہے لیکن اس کی تمدنی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ لوگ اسے ایران صغیر کہتے تھے ۔چونکہ خطے میں ایران کی ثقافت اور تمدن کی قدمت اوراہمیت بہت زیادہ ہے، اس لیے علامہ اقبال نے اس تہذیبی اہمیت کے پیش نظرکشمیرکو ایران صغیر کا نام دیا۔
اقبال اسی نظم میں کشمیریوں کی اعلیٰ عقل و دانش کی بات بھی کرتے ہے اورکشمیریوں کے ساتھ ناانصافی کے بارے میں پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ کشمیری کب تک انصاف کے منتظررہیں گے؟ یہ ایک ایسے فلسفی شاعر کی بات ہے کہ وہ آئندہ آنے والے زمانے کے حالات کو اپنی روحانی بصیرت سے مشاہدہ کرتاہے۔ یہ ایک ایسی دانشمندانہ شاعری ہے جو آج بھی قابل استفادہ ہے۔خصوصاً آج کے دورمیںآپ کشمیرکی ثقافت اور خوبصورتی کو سامنے لاکرکشمیریوں کی مظلومیت کو آسانی کے ساتھ دنیاکے سامنے پیش کرسکتے ہیں ۔کتنی افسوس کی بات ہے کہ اقبال نے آٹھ دس عشرے قبل کشمیرپر شاعری کرکے کشمیریوں کی مظلومیت کوبیان کیالیکن افسوس کہ آج اکیسویں صدی میں بھی کشمیری انصاف کے منتظرہیں۔
کشمیری کتنے مظلوم ہیں کہ دنیاکے کئی دیرینہ تنازعے حل ہوگئے لیکن مسئلہ کشمیرحل نہ ہوسکتا۔جب دنیا کشمیریوں کی مظلومیت کوسمجھ جائے گی تو مسئلہ کشمیرکے منصفانہ حل کے راستے خودبخودہموار ہوجائیں گے۔پھر دنیایہ بھی جان جائے گی کہ کشمیرکے مسئلے کا حل نہ ہونے کی وجہ سے علاقے کے امن کوسنگین خطرہ لاحق ہے اور بھارت کے ایک سابقہ وزیراعظم جوہرلال نہرونے بہت عرصہ قبل اپنے دوراقتدارمیں کشمیریوں سے ان کا حق خودارادیت دیتے کا وعدہ کیا تھا لیکن بھارتی حکومتوں نے اب تک اس عہد کا ایفاء نہیں کیا۔ کشمیری عظیم ثقافت اور تاریخ رکھتے ہیں اور اس پہلوکو اجاگرکرنے کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔کشمیرپرسفارتکاری اس وقت ہی کامیاب ہوگی جب اسے موجودہ حالات سے ہم آہنگ کیاجائے۔
تحریر : سید سبطین شاہ