تحریر:ابنِ نیاز
یہ خبر چند دن پہلے نظروں سے گزری تھی اور سوچ رہا تھا کہ اس پر کچھ لکھوں گا، لیکن زندگی کی مصروفیات نے اس خبر کو ذہن کے کسی گوشے میں دھکیل دیا۔ آج نیٹ گردی کرتے ہوئے ایٹمی پروگرام کا ذکر نظر سے گزرا تو خیالات کا ایک ہجوم بیکراں ایک ریلے کی صورت میں دماغ میں چل پڑا۔ جب بہت سے خیالات گڈ مڈ ہو جائیں تو بہت مضبوط قوت ارادی کے مالک افراد ہی ان شوریدہ خیالات میں سے اپنے مطلب کا خیال پاس رکھ لیتے ہیں اور باقی تحت الشعور میں سلا دیتے ہیں۔ اگرچہ میں ان افراد میں شامل تو نہیں لیکن اس وقت یہ قوت ارادی مجھے زور زبردستی استعمال کرنی پڑی۔ تا کہ ایک عدد وہ خفیہ راز جس کے بارے میں ساری دنیا جانتے ہوئے بھی انجان بنی رہتی ہے، عیاں کر دوں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ ہو سکتا ہے دوسروں کی طرح میری آواز بھی صدا بہ صحرا ثابت ہو، لیکن دل کا کیا کریں صاحب۔ اس پہ کس کا زور چلتا ہے۔ ویسے خبر میں جان ہوتی یا خبر بڑی ہوتی تو آج کی تاریخ تک میڈیا اس خبر کو ہر پانچ دس منٹ بعد اچھالے رکھتا اور دور دور کی کوڑیاں لاتا۔ لیکن ایک معمولی خبر کو کون پوچھتا ہے۔ چلیں ، کوئی پوچھے نہ پوچھے، ہم ہی پوچھ لیتے ہیں کہ اے خبر تجھے میڈیا میں آنے سے کس نے روکا؟ ایک آدھ بار ہی شائع ہونے کی ہمت تھی تجھ میں کیا؟ کیوں اور کس نے تجھ پر قدغن لگائی؟ ارے ارے ۔۔ خبردار جو اشرافیہ کو کچھ کہا۔ سمندر پار والے کم مسلم، زیادہ مسلم کا نام لیا۔ ارے کوئی مائی باپ کو بھی برا کہتا ہے۔ نہ نہ۔ یہ ظلم کبھی نہ کرنا۔ کیا ہوا جو تمھارا تعلق قبضہ گروپ سے ۔ ہو تو تم خاص بلکہ خاص الخاص۔ کیونکہ برے گھر کے اندر گھس کر اس محاورے کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ اپنی گلی میں تو کتا بھی شیر ہوتا ہے۔ واہ کیا کہنے۔ کیا للکارہ ہے۔ ویسے مجھے تمھارے دوغلے ہونے پر جو آخر میں بونگی ماری ہے ، سخت اعتراض ہے۔ اعتراض تو شروع والی باتوں پر ہونا چا ہیے تھا لیکن دل تو پاگل ہے، دل تو بچہ ہے۔ اور بچے ہمیشہ الٹی باتوں کی ہی ضد کرتے ہیں۔اس لیے اتنی چھوٹ تو ہمیں بھی ملنی چاہیے کہ ہم نے بھی دل کی سنی ہے۔
اے خبر! تجھ سے درخواست ہے بلکہ دس بستہ عرض ہے کہ ذرا تصویر سے نکل کر سامنے آ۔ آ بھی جا۔۔ لیں جی ! خبر نے میری سن لی اور سامنے آگئی آخر۔ ارے یہ کیا۔ یہ تو واقعی معمولی سی خبر ہے۔ ہائے رے۔ اللہ کے بندے تیرا کیا ہو گا۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ دل کی بجائے دماغ کی سنا کریں۔ اور ہم کہ ٹھہرے ان باتوں سے اجنبی۔ چلیں جی کوئی بات نہیں۔ اب جب نکل ہی آئی ہے بلی تھیلے سے باہر تو اس بلی کے خدو خال سے آپ کی بھی واقفیت کراتے ہیں۔ خبر کے مطابق اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے امریکہ کے دوریے کے دوران امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں سے خطاب کیا۔فصاحت و بلاغت کا نمونہ ہوگا یا نہیں، یہ تو سننے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ان کے خطاب میں جان تھی، تو صرف اسرائیل کے لیے تھی۔ان کے خطاب میں جان تھی جو لینی تھی اور لینی بھی ایران کی جان تھی۔ یاہو نے کہا کہ ایران دنیا کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے اور خاص طور پر یہ خطرہ اس وقت مزید بڑھ سکتا ہے جب امریکہ اور ایران کا جوہری معائدہ ہو جائے گا۔ اس معائدے کے نتیجے میں ایران کو گویا کھلی چھٹی مل جائے گی کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ سے جوہری ہتھیاروں کے سلسلے میں اپنی مرضی سے خریداری کر سکے۔ اسرائیلی کے لیے ایران جو پہلے ہی خطرہ بنا ہوا ہے، قابو سے باہر ہو جائے گا۔
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
جب اسرائیل، امریکہ، بھارت اس قسم کی بات کرتے ہیں تو دو کام کرنے کو دل بہت کرتا ہے۔ ایک تو جی چاہتا ہے کہ اپنے سر کے بال نوچ ڈالوں اور یا پھر قہقہے لگا کر پوری محفل کو کشتِ زعفران بنا دوں۔نیتن یاہو نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا کہ امریکہ نے اسرائیل کے میزائیل دفاعی نظام آئرن ڈوم کی تیاری میں جو تعاون کیا ہے ، پھر جو امریکہ نے فوجی امداد دی ہے ۔ نجی محافل میں میں اور سرعام اسرائیل کی حمایت کی ہے ، اس پر وہ ذاتی طور پر اور حکومت کی طرف سے بھی بہت مشکور ہیں۔ اور ان کے اس کردار کو سراہتے ہیں ۔اسے کہتے ہیں دایاں دکھا کر بایاں مارنا۔ یعنی جب امریکہ ایران کی امداد کر رہا ہے تو مجرم۔ اور اسرائیل کی حمایت کرے تو شاباش۔ واہ رے تیرے کیا کہنے۔
ایک سوال اٹھتا ہے کہ ایران کی جوہری طاقت بننے سے وہ دنیاکے لیے خطرہ کیسے بن سکتا ہے؟ ہاں اگر دنیا صرف امریکہ، اسرائیل کی حد تک ہے تو پھر تو کہہ سکتے ہیں۔ویسے بھی ایران تو اپنے دفاع کے لیے یہ صلاحیت حاصل کر رہا ہے۔ اگر امریکہ ، روس، برطانیہ، فرانس، چین اور سب سے بڑھ کر عالمی دہشت گرد اور امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل یہ حق رکھتا ہے ، جس کا کام ہی اپنے ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کرنا اور دور کے ممالک میں بلاواسطہ کرانا ہے، تو ایران سمیت بہت سے ممالک کا یہ لازمی حق ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے یہ صلاحیت حاصل کریں۔کم از کم اس سے یہ تو ہو گا کہ کوئی اس ملک کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔ اسکی ایک مثال پاکستان ہے۔ ١٩٩٨ ء میں جب انڈیا نے ایٹمی دھماکے کیے تھے اور اس کے بعد اس نے اپنی فوج بھی پاکستانی سرحد پر کھڑی کر دی تھی، اور دھمکیوںپر دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں اور ایس الگ رہا تھا کہ کہ انڈیا بزعم خود پاکستان کو بس پل بھر میں ہڑپ کر دے گا۔ لیکن جب پاکستان نے جوابی ایٹمی دھماکے کیے تو انڈیا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھ گیا کہ اب چونکہ وہ بلی کو نہیں دیکھ رہا تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔تو ایٹمی صلاحیت اپنے دفاع کے لیے ضروری ہے۔
امریکہ جو ہر اس ملک کے معاملات میں اپنی ٹانگ اڑانا اپنا فرض سمجھتا ہے جہاں جہاں اسکا سفارت خانہ ہے یا قونصلیٹ ہے۔ یہ سفارت خانے کم اور سازشوں کے اڈے زیادہ ہیں یا پھر جس جس ملک میں اس ملک کے باسی غدار ہیں اور امریکہ کا دم بھرتے ہیں، وہیں پر امریکہ کی ایک ٹانگ لازمی ہوتی ہے۔ افغانستان کے طالبان سے اسے کیا خطرہ تھا؟ صرف یہی نا کہ کہیں اسلام کی سچی اور کھری تعلیمات پھیلتے پھیلتے کہیں امریکہ تک نہ پہنچ جائیں۔ امریکہ نے اپنے حامی دہشت گردوں کی ٹیم نیٹو کے ساتھ مل ١ ٨٠٧٧ کر افغانستان پر میزائلوں اور بموں کی بارش کر دی۔ طالبان کو اپنی طرف سے ختم کرنا چاہا لیکن وہ آج بھی اس کانٹے کی طرح امریکہ کے گلے میں پھنسے ہوئے ہیں جس کو نہ اگلا جا سکتا ہے نہ نگلا جا سکتا ہے۔ مشرقی تیمور میں امریکہ بہارد نے مداخلت کر کے اسے آزاد کروایا گویا وہاں کے عوام کو انکا حق دیا۔ اسکا وہاں کیا کام تھا؟ وہ تو انڈونیشیا کا اندرونی معاملہ تھا۔ اردن، شام، عراق ، لیبیا وغیرہ میں داعش، نائجیریا میں بوکو حرام کو پیدا کر کے وہاں کے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ وہاں کے حکمرانوں کے تختے الٹ دیے۔
روس نے دس سال افغانستان میں جنگ لڑی۔ نتیجے میں یہاں سے بری طرح شکست کھا کر بھاگا۔ اور سونے پہ سہاگہ والی بات کہ اس شکت کے نتیجے میں اتنا کمزور ہوا کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ گیا۔ لیکن کتے کی دم سو سال بھی کسی لوہے کے پائپ میں رکھو تو وہ ٹیڑی کی ٹیڑی ہی رہتی ہے۔ روس کی لالچی طبیعت پھر جاگی ہے۔ اب پھر اس نے دوبارہ سے ان ممالک پر قبضہ کرنے کا پروگرام بنایا ہوا ہے۔ اور اس سلسلے کا آغاز اس نے یوکرائن سے کیا ہے۔ جہاں جہاں امریکہ مداخلت کرتا ہے وہاں روس بلاواسطہ یا بالواسطہ گھس جاتا ہے کہ امریکہ کے پائوں نہ جمنے دے۔ لیکن ہنوز دلی دور است۔ عالمی دہشت گرد اسرائیل نے فلسطین کی پاک زمین پر ناجائز قبضہ جمایا ہوا ہے۔ مزید کی ہوس نے اس کو اس حد تک بے چین کر دیا ہے کہ اپنے علاوہ ہر ملک اس کو دہشت گرد اور دنیا کے لیے خطرناک نظر آتا ہے۔ جیسے اس جیسا شریف ملک پوری دنیا میں کوئی نہیں۔ کیا کہنے اسکے۔۔۔ دوسرے ممالک کے سمندری حدود سے گزرنے والے بحری بیڑوں پر قبضہ کرنا، فضا میں اڑتے جہازوں کو مار گرانا اسکی شرافت کا بین الاقوامی ثبوت ہے اور یہ اسکی سرشت میں شامل ہے۔ کمال ہے۔ یعنی دنیا کے لیے خطرہ ایران ہے۔ امریکہ اسرائیل، روس اور بھارت نہیں۔
تحریر:ابنِ نیاز