تحریر: شاہد شکیل
دنیا بھر میں کروڑوں افراد ہر صبح الارم بجتے ہی بیدار ہونے کے بعد واش روم اور ناشتہ کے بعداپنے اپنے جاب پر روانہ ہوجاتے ہیں تمام دن دفاتر اور دیگر روزگار میں مغز ماری کرنے کے بعد شام یا رات گئے تھکے ہارے گھر لوٹنے کے بعد کچھ وقت فیملی کے ساتھ گزارتے ہیں شام کا کھانا کھانے اور اگر چند منٹ ٹی وی دیکھنے کا وقت میسر ہو تو دیکھنے کے بعد بستر میں چلے جاتے ہیں ،یہ عام سی روٹین ہے جس پر تقریباً دنیا کا ہر انسان وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو عمل کرتا ہے لیکن کبھی کبھی ہم اس عام معمول سے اکتاہٹ محسوس کرتے اور عاجز آ جاتے ہیں کہ یہ کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں کب اس مشینی لائف سے جان چھوٹے گی ،لیکن اگر ہم چاہیں تو اپنی روز مرہ زندگی اور معمولات کو کنٹرول کرنے اور عاجز ہونے کی بجائے خوش اور مطمئن رہ سکتے ہیں۔
ایک آزاد اور سٹریس فری زندگی کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جب انسان اپنے روزمرہ کے معاملات کو ہوش وحواس قائم رکھ کر سلیقے اور ترتیب سے منیج کرے اس کا مطلب یہ نہیں کہ کلاسیکل طور طریقوں سے یا جیسی روٹین جاری ہے اس میں تیزگی لائی جائے یا مزید وقفہ کرنے سے خوش وخرم یا مطمئن ہو سکتے ہیں بلکہ سب سے زیادہ اس بات پر انحصار کرتا ہے اوریہ بات ہر انسان کیلئے جاننا ضروری ہے کہ وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے کتنا وقت درکار ہے اور معاملات کو کیسے ہینڈل کیا جائے کہ قیمتی وقت کی بچت ہو اور معاملات بھی خوش اسلوبی سے سٹریس فری پایہ تکمیل تک پہنچیں،ہر انسان اندازہ لگانے کے بعد فیصلہ کر سکتا ہے کہ کون سے اقدامات کب اور کیوں کرے یا کون سا طریقہ اختیار کرے تاکہ زندگی آسان اور آزاد رہے۔امریکا میں روزمرہ تیز رفتار زندگی کو ہینڈل کرنے کے عمل کو لائف لیڈر شپ کہا جاتا ہے۔
جس کے معنی ہیں کہ آپ اپنی زندگی کی شپ کے کیپٹن ہیں اور خود اپنے ہوش وحواس میں زندگی کا پہیہ چلانے کیلئے وقت اور حالات کو مدنظر رکھ کر تعین کر سکتے ہیں کہ زندگی کی راہوں میں کئی بار طوفان اور آندھیوں کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن آپ اپنی زندگی کے سٹئیرنگ کو مضبوطی سے تھامے ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور ہمت رکھتے ہیں زندگی کی اونچی نیچی راہوں میں چلتے چلتے ہزاروں تجربات کا سامنا کرتے ہوئے اس نقطہ پر پہنچے ہیں کہ ہر وقت تیزرفتاری درست عمل نہیں بلکہ کئی بار سست روی اور تحمل مزاجی بھی کامیابیوں کا حصہ اور سیڑھیاں ہیں لیکن اس کیلئے لائف اور فیوچر پلان کا ہونا لازمی ہے۔
محقیقین کی فلاسفی کے مطابق اصل چیزیں بنیاد،جڑ،قوانین اور اثرات ایک دوسرے سے کسی حد تک منسلک ہیں اور ان کے عقب میں انسانی خیالات،سوچیں اور ان پر عمل دوسرا حصہ ہیں کیونکہ بنیاد اور عوامل کے بغیر کبھی نتائج ظاہر نہیں ہو سکتے ،بنیاد یا جڑ ہی عمل کی وجوہات ہیں ،مثلاً اگر ہمارے ساتھ کچھ ہوجائے تو اس کی وجوہات کے عقب میں ایک جڑ یا بنیاد کا عمل دخل ہوتا ہے اور ہر انسان کے ساتھ یہ فطری عمل ظاہر ہوتا ہے لیکن جب تک زندگی میں توازن اور ہم آہنگی کا فقدان ہو گا ہر انسان ناخوش اور غیر مطمئن رہے گا، اپنی سر گرمیوں کو یقینی بنانے اور لیول یا کنٹرول میں رکھنے کیلئے بہت سوچ بچار ،اعتماد،افکار اور ذمہ داری کے تحت ہی منزل پر پہنچ سکتے ہیں بدیگر الفاظ انسان کی زندگی کا مقصد ایک بنیاد ہے اور ہم خوش یا مطمئن اس صورت میں ہی رہ سکتے ہیں کہ اگر خود خوش ہیں تو دوسرے کو خوش رکھ سکتے ہیں ۔
اگر ہم اپنی خوشی کی پرواہ نہیں کریں گے تو کوئی ہماری مدد نہیں کرے گا۔جیسے کہ بنیاد اور انسانی خیالات ایک دوسرے سے منسلک ہیں اسی طرح انسان کا مقصد اولین درجہ رکھتا ہے کئی انسان خوشیوں سے دور ہوتے ہوئے بھی دوسرے انسانوں کی خوشی میں شریک ہوتے اور انہیں خوشیاں دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انہیں کبھی خوشی نصیب ہی نہیں ہوتی،بدیگر الفاظ یہ بھی ایک معمہ ہے کہ آپ کسی کو خوش نہیں رکھ سکتے کیونکہ آپ ناخوش ہیں،محقیقین کا کہنا ہے اگر آپ خوش رہنا چاہتے اور خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں تو دل سے خوشی کا اظہار کریں وہ باس ہو ، ورکرز ہوں،قریبی دوست ہوں ،
انجان لوگ ہوں ،ملازمین ہوں یا کوئی بھی انسان ہو اگر آپ کا مقصد خوشی حاصل کرنا اور مطمئن رہنا ہے تو پہلے خود خوشی کا اظہار کریں اور محسوس کرائیں کہ آپ خوش اور مطمئن ہیں تاکہ مد مقابل افراد بھی آپ کی خوشی کو محسوس کر سکیں اور آپ جیسا رویہ اختیار کر سکیں کیونکہ مثبت رویہ انسان کے اندر سے پیدا ہوتا ہے اور جو افراد ذہنی طور پر مثبت رویہ رکھتے ہیں وہ عام طور خوش ، مطمئن اور متوازن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں لیکن بنیادی طور پر ہر انسان میں اپنے اعمال پر کنٹرول کرنے کی ہمت اور طاقت ہونی چاہیے ۔
اگر آپ توازن برقرار نہیں رکھ سکتے یعنی موڈ خراب ہے تو کبھی اپنی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے،پچاس فیصد ہماری خوشیوں کا دارومدار ہمارے باہمی تعلقات کا نتیجہ ہوتا ہے جنہیں شئیر کرنے سے دوطرفہ خوشیوں کا تبادلہ ہوتا ہے منفی رویہ اختیار کرنے سے دوسروں کے ساتھ تعلقات اور رد عمل سے مقام کھویا جا سکتا ہے،مثلاً ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر آپ کسی انسان کو سمجھ نہ پائیں اسکی باتوں کو محسوس نہ کر سکیں تو روحانی اور جسمانی طور پر اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں نیند میں خلل پیدا ہو سکتا ہے یا اپنے آپ کو اکیلا اور ناخوش محسوس کرسکتے ہیں،منفی خصلتوں کی وجہ سے دیگر افراد کو نظر انداز کرنے سے طویل عمر تک بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں ،فعال کی تبدیلی اہم جزو ہے اسکے لئے سب سے پہلے اپنے ضمیر کی آواز پر توجہ دینا لازمی ہے کہ آپ کے پاس کیا ہے
اور کسی ضرورت مند کو کیا پیش کر سکتے ہیں ،کس قسم کے کونفلکٹ میں کن اعمال اور رویئے سے معاملات حل کئے جا سکتے ہیں معاملات کا تعلق روزگار سے ہویا خاندانی مسائل ہر قسم کے تنازعات کو خوش اسلوبی اور خوش اخلاقی سے حل کرنے میں آپ کی جیت ہے،کسی قسم کی کشیدگی کو ایک الارم سگنل سمجھا جائے کیونکہ زندگی میں اگر کشیدگی کو محسوس کریں تو اپنے آپ سے سوال کیا جائے۔
کہ کیا میں اس مسئلے کو حل کر سکتا ہوں اور جواب نہیں کی صورت میں کوشش کی جائے کہ ہر پہلو و نکات کو مدنظر رکھ کر مسئلے کا حل تلاش کیا جائے جو عام طور پر بنیادی مسئلہ ہوتا ہے اور ہر انسان اسے کسی زمرے میں نہیں لاتا یا اس طرف دھیان نہیں دیتا۔کسی قسم کی کشیدگی یا مسائل و معاملات کو حل کرنا مشکل کام نہیں ہر کام کا وقت مقرر ہوتا ہے لیکن خوشی اور اطمینان سے پایہ تکمیل پہنچایا جا سکتا ہے کیونکہ انسان اتنا پاور فل ہے کہ اپنی عقل ،حس اور سوجھ بوجھ کے سہارے ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تحریر : شاہد شکیل