والیٹر کی سب سے زیادہ دلچسپ کتابوں میں سے ایک ’’مائیکرو میگاس‘‘ ہے جو ہمارے اس گھمنڈ پر طنزکرتی ہے کہ ہم اس جہان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور زندگی کے کھیل کا اہم کردار ہیں۔ قصہ اس میں یہ ہے کہ کلب الجبار کا ایک باشندہ مائیکرو میگاس جو پانچ لاکھ فٹ قد کا مالک ہے زحل سیارے کے ایک باشندے سے ملتا ہے جو ٹھنگنا سا ہے اور جس کا قد صرف پندرہ ہزار فٹ ہے۔
وہ دونوں خلا میں مٹر گشت کا فیصلہ کرتے ہیں کلب الجبار کے باشندے کی شادی ابھی حال ہی میں ہوئی تھی اور اس کی بیوی نہیں چاہتی تھی کہ اس کا نوبیاہتا دلہا صرف دوسوسال کے مختصر ہنی مون کے بعد یوں آوارہ گردی کے لیے نکل جائے دلہا مگر اس کو تسلی دیتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ وہ جلد ہی لوٹ آئے گا پھر وہ دونوں دوست پچھل تارے کی دم پر چھلانگ لگاتے ہیں اور ستاروں کے جہان کی سیر پر نکل جاتے ہیں۔
لطف کی بات کہیے یا مقدرکی ستم ظریقی سمجھیے وہ دونوں آخرکار خاک کے ایک چھوٹے سے دھبے پر جا پہنچتے ہیں جس کو ہم نے زمین کا نام دے رکھا ہے وہ بحیرہ روم سے گزرتے ہیں جوان کے لیے ایک گڑھے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ وہاں ان کی مڈبھیڑ ایک جہاز سے ہوتی ہے جو ایک قطبی مہم سے فلسفیوں کو واپس لے کر آرہا ہے۔
جہاز پر بیٹھے ہوئے معزز فلسفیوں میں سے ایک اس کو بتاتا ہے کہ ’’اس لمحے بھی جب کہ ہم باتیں کررہے ہیں ہمارے نوع کے دس لاکھ ہیٹ پوش افراد اتنی ہی تعداد کے عمامہ پوشوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ ان کے جھگڑے کا سبب ایک چھوٹی سے پہاڑی فلسطین ہے، میں تمہیں یہ بھی بتادوں کہ اس فساد کا سبب یہ نہیں کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے والے ان افراد میں سے کسی کادعویٰ یہ ہے کہ وہ مٹی کے اس ڈھیرکے کسی ذرے کا مالک ہے۔ نہیں۔ وہ اپنی ملکیت کے لیے خون نہیں بہارہے بلکہ ان کا مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ جگہ اس شخص کی ملکیت قرار پائے جس کو سلطان کہا جاتا ہے یا اس دوسرے شخص کو مل جائے جو بادشاہ کہلواتا ہے اور یہ احمقانہ قتل عام فلسفی اپنی بات کو مکمل کرتا ہے’’ان گنت صدیوں سے اس زمین پر چلا آرہا ہے‘‘ دونوں فلکی مسافر سوچتے ہیں کہ اچھا تو یہ ہیں وہ احمق ذرے جو اس مضحکہ خیز دنیا پرآباد ہیں پھر وہ دونوں اس ننھے منے فلسفی کے ساتھ مزیدگفتگو کرتے ہیں۔
جو لاک کا شاگر د ہے وہ دیکھتے ہیں کہ یہ فلسفی خاصی پسندیدہ ہستی ہے۔مگر بدقسمتی سے جہاز پر ایک عالم بھی سوار ہے وہ ایک برخود غلط ساآدمی ہے جس نے چوکور ٹوپی اور چوغہ پہن رکھا ہے وہ گفتگو میں مداخلت کرتا ہے اور دوردرازکے سیاروں سے آنے والے ان مسافروں کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اوران کی دنیا ان کے سیارے ان کے سورج اور ستارے سب کے سب صرف اورصرف انسان کی خاطر تخلیق کیے گئے ہیں، یہ بات سن کر وہ مسافر بے ساختہ اس قدر زور سے ہنسے کہ ایسے قہقہے ہومرکے بقول صرف دیوتاؤں کے لیے ہی مخصوص ہوسکتے تھے ہنستے ہنستے ان کا یہ حال ہوا کہ ان کے کندھے اورپیٹ آگے پیچھے جھولنے لگے اس ہلچل میں جہاز جوکہ کلب الجبارکے باشندے نے اپنی انگلی کے ناخن پر رکھا ہواتھا ۔ زحل کے باشند ے کے جانگیے کی جیب میں جاگرا ، زحل والے نے جہاز کو جیب سے نکالا دوبار ہ سمندر پر رکھا اور پھر وہ اپنے فلکی ٹھکانوں کو لوٹ گئے۔
زمین کی سیاحت سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذکیا کہ یہ پاگل خانہ ہے جہاں دوسرے سیاروں کے پاگل رہتے ہیں کلب الجبار اور زحل کے رہنے والے دونوں دوست اگرکبھی مٹرگشت کرتے ہوئے پاکستان آدھمکیں اور ملک کا حال احوال خورد بین کے ذریعے دیکھنے بیٹھ جائیںاورجب وہ یہ دیکھیں گے کہ عہدوں، رتبوں، مرتبوں کے لیے لوگ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں، سازشیں عروج پر ہیں، کوئی اپنے آپ کو بادشاہ کہلوانا چاہتا ہے توکوئی وزیراعظم کے لیے مرا جارہا ہے۔
کوئی وزیروں اور مشیروں کے عہدوں کے لیے ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنے میں مصروف ہیں توکوئی زور زور سے چلا رہا ہے کہ میں سب زیادہ مالدارہوں اس لیے سب میری عزت کریں اور کرسی پر بیٹھنے کا حق میرا ہے توکوئی چیخ رہا ہے میرے پاس سب سے زیادہ ملیں، جاگیریں، ہیرے جواہرات اورپیسوں کے ڈھیر ہیں اس لیے ملک پر حکمرانی کا حق میرا ہے کوئی گلا پھاڑ پھاڑکر بول رہا ہے کہ عوام نے مجھیس ووٹ دیے ہیں کوئی مائی کا لال مجھے نہیں ہٹا سکتا۔
جھوٹ پہ جھوٹ بولے جارہے ہیں ہر شخص صرف اپنے آپ کو ایماندار اوردوسروں کو کرپٹ اور بے ایمان کہنے میں مصروف ہیں توکوئی خطوں کو لے کر ہواؤں میں لہرا رہا ہے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر سب ایک دوسروں کو دن رات برا بھلاکہہ رہے ہیں، ہر شخص عہدوں سے چمٹا رہنا چاہتا ہے خود چھپ چھپ کر سارے گناہ کررہے ہیں اور لوگوں کے سامنے آکردوسروں کوگناہگار ٹہرا رہے ہیں، کر پشن، لوٹ مارخودکررہے ہیں کمیشن اور رشوت خود لے رہے ہیں اورالزامات معصوموں پر لگاتے پھر رہے ہیں۔
حوروں کا ذکرعروج پر ہے، تعلیم کے نام پر جہالت پھیلانے کے لامحدود لوگوں کو اختیارات حاصل ہیں۔ ہر سانحے کے بعد حکومت کے سوا سب اپنی اپنی ذمے داری قبول کر رہے ہیں، سیاست دان،جمہویت کے نام پر اپنی جیبیں بھرر ہے ہیں۔ علما مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کررہے ہیں۔ بزنس مین اپنے منافعے کی خاطر زندہ لوگوں کو درگورکررہے ہیں۔ شرافت، ایمانداری، ذہانت، علم ، تہذیب وتمدن کوکوئی ٹین ڈبے والا اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
بے ایمانی کو ایمان کا درجہ حاصل ہے۔ تھانے بک رہے ہیں، اراکین پارلیمنٹ اپنے حلقوں کے لوگوں کے مسائل سننے اور حل کرنے کے بجائے مجر ے سن رہے ہیں۔ عقل سے خالی، نرے جاہل لوگ عقل مند اور دانشمندوں کی زندگیوں کے فیصلے کررہے ہیں۔ تابوتوں، رشوت،کمیشن کاکاروبار ترقی کرتا جارہا ہے ، ہرجائزکام ناجائزطریقے سے سرانجام پا رہا ہے ، ہر رشتے ہر چیز میں ملاوٹ ہے، لوگ زہریلا پانی پی رہے ہیں۔انسان صرف ایک روٹی کی خاطرخود کشی پر مجبور ہے، تو دونوں دوست ہنس ہنس کر پاگل ہوجائیں گے اور بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ دنیا کے پاگل خانوں میں سب سے بڑا پاگل خانہ ہمارا وطن عزیز پاکستان ہے۔