تحریر: مریم جہانگیر، اسلام آباد
ہم خوش نصیب ایسے ملک پاکستان میں رہتے ہیں جہاں اگر پانی کی کمی ہو تو دریاؤں کا سینہ چیر کر دھرتی پانی ابلنے لگتی ہے۔ معیشت گرنے لگ جائے تو سونے تک کے خزانے مل جاتے ہیں۔ نمک کا انتہائی وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ سوئی گیس بھی اتنی ہے کہ آرام سے گزر بسر ہو جائے۔ لوگ ایسے ہیں کہ اگر گڈوی بجانے والی ہیں تو جسٹن ببیرکے انگریزی گانے خوبصورت لہجے میں گانے لگتی ہیں۔ سائیکل کی دکان والے کی بیٹی ہے تو ملک کیلئے تمغے جیت لاتی ہیں۔ تندور والے کا بیٹا ہے تو امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔ تعلیم تھوڑی سی عام ہوئی ہے تو حلال رزق کمانے کی چاہ رکھنے والے ڈبل ماسٹرز کے باوجود راولپنڈی کے کمرشل ایریا میں برگر کی ریڑھی لگائے کھڑا ہے۔ ماسٹرز کر کے کوئی رکشہ چلاتا ہے اور کوئی رکشہ چلانے والا یوٹیوب سے واٹر کٹ کی وڈیو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے رکشے کو پانی پر چلانے کی کوشش میں مگن ہے۔
ہم بد نصیب اتنے بدنصیب ہیں کہ ہمارے ملک میں بچوں کو دہشت گردی کے نام پر ملک عدم پہنچا دیا جاتا ہے۔ ڈرون حملے میں کسی بوڑھے بچے ‘ عورت یا مرد کی تشخیص نہیں ہوتی۔ مسجدوں میں بم دھماکے کئے جاتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر مذہبی تہواروں کے موقعوں پر ہزاروں لوگ لقمہ ئ اجل بنتے ہیں۔سکولوں کو لا محدود مدت تک کیلئے بند کر دیا جاتا ہے۔ بوڑھے والدین کو لاپرواہی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ قرآن پاک کو چوما جاتا ہے اور الماریوں میں سجا سجا کر رکھا جاتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔ اکثر معمر افراد سڑک پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں اور چلتے ہوئے لوگ بتاتے ہیں کہ یہ دکانوں کے مالک کا والد ہے مگر ذہنی توازن درست نہیں۔ وہ لوگ جن کے ہاتھوں ننھے منے بچوں کی پرورش اس وقت ہوئی ہے جب ان کے اذہان پر سوچ و سمجھ کی کوئی لکیر تک نہیں ہوتی۔ اب سڑکوں پر پھرتے نظر آتے ہیں اور اولاد کے پاس ان کے علاج کیلئے پیسے ہی نہیں۔ خیال رکھنے کیلئے وقت ہی نہیں۔ ہم چاہیں تو کیا نہیں کر سکتے۔ فرہاد نے دودھ کی نہر کھودلی تھی کیونکہ اس کی لگن سچی تھی سوہنی کچے گھڑے پر دریار پار کر گئی تھی لیکن ہم کیوں اپنی قوم کی ترقی اور ملک کے استحکام کیلئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ سب ہی بیشتر لوگوں کی اصل نیت جانتے ہیں لیکن خاموش ہیں۔
ایم کیو ایم کو کراچی کے دروبام کو لہولہان کرنے کیلئے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ دہشت گردی سے تحفظ کیلئے ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں جن سے عوام پر زندگی تنگ ہو جاتی ہے لیکن ایسا کوئی کام نہیں کیا جاتا جس کے ذریعے دہشت گردی کے آسیب سے چھٹکارا مل سکے۔ راستے بند کرنا اور فون سروس معطل کرنا آسان کام ہے لیکن تحفظ فراہم کرنا بے حد مشکل۔مذمت کرنا بہت آسان ہے لیکن مذمت تک پہنچائے جانے والے عوامل کو قابو کرنا مشکل ہے۔ سوشل ویب سائٹس پر ہزاروں دعوے ہیں لیکن حقیقتاً سب نفسانفسی کے اڑدھے کے منہ میں ہیں اور ہاتھ تو دور کی بات انگلی بھی نہیں ہلا سکتے۔ مجھے صاحبان صرف کسی ایک ایسے سیاستدان کا نام بتا دیں جس نے کسی کو گالی دی ہو اور آئندہ دنوں میں ہاتھ تھام کر تصویر نہ کھنچوائیہو۔ وقت کا رونا ہے سب ہی مصروف ہیں۔ ہم بھی اپنی کم عقل سے اس چالاکی کو مصلحت پسندی کا نام دے کر ہضم کر جاتے ہیں۔ جب تک ہم ذاتیات سے نکل کر اجتماعیت کا سفر طے نہیں کریں گے تو کچھ نہیں ہو سکے گا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انفرادی سطح پر بھی ہم فریب اورکینہ پروری کے دلدل میں گردن تک پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے دل میں بغض ہوتا ہے اور لبوں پر مسکراہٹ۔ لوگوں کو گلے سے لگا تو لیتے ہیں مگر چہرے پر انتہائی ضبط سجا کر دوسروں سے دعائیں منگواتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ ہم بھی لازماً دعا کریں گے۔ لیکن جائے نماز پر ہاتھ اٹھا کراپنی ضرورتوں کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی بے شمار عطائیں ہیں کہ ہماری خطاؤں پر بھی ہمیں سزا کا مستحق نہیں ٹھہرایا۔ ہمیں پھر بھی عطا کیا جاتاہے اور عطا پر عطا کیا جاتا ہے۔ پولیو کے وائرل ٹیکے لگا کر بھی ہمارے لوگوں کے اذہان نے تخلیق کرنا نہیں چھوڑا۔ محنت آج بھی ہمارے ہاں ہر طبقے کی باندی ہے۔ وحشت اورکرب ہاتھ پھیلائے اور بانہیں وا کئے کھڑے ہیں لیکن رب الرحیم کی عطاؤں کی وجہ سے ہم سفرِ زیست طے کئے جا رہے ہیں۔ ”ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ”کے پیش نظر بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور بہت سی آسانیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہم ظالموں کی رسی دراز ہے لیکن اگر اللہ نے رسی کھینچ لی تو؟ پھر کیا ہو گا؟ ہمیں اس نہج پر سوچنا چاہیے اپنی ذات کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ غلطیاں کم کرنی چاہیے تا کہ کچھ وقت مزید مل جائے۔ ہم خود کی بہتری کیلئے اتنا تو کر ہی سکتے ہیں۔ اگر اپنی ذات کے اندر کی برائیاں دور کریں۔ دھوکہ دہی سے اجتناب کریں تو سیاست کے نام پر جن دھوکے بازوں کے فریب کا ہمیشہ شکار ہوتے ہیں۔ ان کے ضمیر کی عدالت بھی ان کو خوابِ غفلت سے جگا ہی دے گی۔
کسی بھی کام کا وہ صلہ نہیں رکھتا
تمہارے چند لفظ ہو
یا پھر کوئی چھوٹا سا عمل
سب اپنے اپنے بیج بوتے ہیں
تمہاری سوچ کی نہر سے
ہزاروں سورج فکر کے
طلوع ہوتے ہیں
سانحہ در سانحہ کے بعد بھی
جب تم اک کام کرو گے
پھر اجالا ہو گا
اس اک کام کے واسطے
اپنی ہستی کو تیاگنا ہو گا
اپنے اندر کی میں کو مارنا ہو گا
شفق کے دھنک رنگ
فلک کی تابناکی کو پھر
اپنے جنوں سے رنگ دیں گے
تمہارے فکر کے سورج
لوگوں کے اذہان کو پھل دیں گے
پھر اجالاہو گا
پھر اجالا ہو گا
کہ کسی بھی کام کا وہ صلہ نہیں رکھتا
تحریر: مریم جہانگیر، اسلام آباد