تحریر: حافظ محمد فیصل خالد
ہندوستان کا ہمیشہ سے یہ دعوی رہا ہے کہ وہ ایک پر امن ملک ہے جسکے باسی امن کے علمبردار ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تاریخی حقائق نے ہمیشہ نہ صرف ان بھارتی دعوئوں کو غلط ثابت کیا بلکہ ہندوستانی حکومت کے قول و فعل کے تضاد سے بھی پردہ پوشی کی۔لیکن ایسے تما م حقائق کے منظرِ عام پر آنے کے باوجود بھارت اپنی حرکاتِ مکروہہ سے باز نہ آیا۔ نام نہاد جمہوریت کے نام پر بھارت میں پر امن ہندئوں نے سر زمینِ ہند پر کبھی تو مسلمان اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی تو کبھی انکی عزتیں پاماک کی گئیں۔ کبھی سکھوں پر حملے کئے گئے تو کبھی عیسائی برادری کی عبادت گاہیں پر امن ہندئوں کی نظر ہوئیں۔
اسی طرح کا ایک واقعہ حال ہی میں ہندوستان کے دار الحکومت نئی دہلی میں مئور خہ 2-2-2015 بروز پیر ک پیش آیا جس میں پر امن ہندئوں سینٹ ایلفانسونامی چرچ میں دروازہ توڑ کر داخل ہو ئے اور چرچ میں موجود تبرکات اور عبادت کی چیزوں کو نقصان پہنچایا۔مقامی عیسائی رہنماء فادر میتھیو لالکوئی کے مطابق عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو عرصہ دراز سے ایک تسلسل کے ساتھ دانستہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یاد رہے اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ ماہ وکاس پوری کے علاقے میں بھی پیش آچکا ہے جس میں عیسائی برادری کی مذہبی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا گیا۔اس سے پہلے کرس مس سے چند روز پہلے دلشاد گارڈن کے سینٹ سیبیسٹیننامی چرچ پر اسرار طور پر جل گیا تھا ۔اور قانون نافظ کرنے والے ادرے ابھی تک ایسے واقعات کے پیچھے محرک مجرموں کا سراغ نہیں لگا سکے۔جائزہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے دن بدن بڑھ رہے ہیں جب حکمران جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ چند بعض متعصب تنظیمںاقلیتوں کو زبدستی ہندو بنانے کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
اب اس ساری صورتِ حال میں تمام عالمی اداروں کی چپ انکی یہ خاموشی انکے اراددوں کی عکاس ہے۔ دوہرے معیار کا یہ عالم ہے کہ ایسے واقعات اگر پاکستان میں پیش آئیں تو نہ صرف واویلا کیا جاتا ہے بلکہ ایسے واقعات کو بنیاد بناکر پاکستان کے استحقاق کو مجروح کیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب بھارت میں سرِ عام اقلیتوں کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے مگر کوئی بھی عالمی ادارہ اس اہم مسلے پر بولنے کو تیار نہیں ۔
اب یہاں بنیادی طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو عالمی سفاک ہندوستان کے ایسے تمام افعال کو نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان جس نے دہشتگردی کے خلاف عالمی میں جنگ میں ناقابلِ فراموش قربانیاں دیں ہیں اس کے ساتھ متعصبانہ رویہ کیوں؟
اس کی سب سے بڑی وجہ شایدیہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو اپنے مقصد کیلئے جتنا استعمال کرنا تھا کرچکا۔ اور اس وقت پاکستان کیلئے سوفٹ کار نر اس لئے رکھا کیونکہ اس وقت پاکستان کے ساتھ مفاداد مشترکہ تھے جبکہ اب صورتِ حال اس کے بر عکس ہے۔ افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان کے ساتھ امریکی حکمتِ عملیاں تبدیل ہو چکی ہیں۔
جبکہ بد قسمتی سے ہماری پالیسیاں ابھی بھی وہی ہیںجنکی وجہ سے ہم آج یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ باراک اوبامہ کے خالصتاََ ہندوستان کے حالیہ دورے نے ہندوستان کی عالمی سطح پر اہمیت کو واضع کر دیا ہے اور اس دورے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی جس میں ہندوستان کو خطے میں لیڈ کرانے کی خواہش کا اظہار کرت ہوئے اسکو ہر سطح پر تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔
لہذا اس بگڑتی صورتِ حال میں جہاں عالمی برادری نے اپنے اپنے ملکی مفادا کے پیشِ نظر اپنی حکمتِ عملیا بدلیں پاکستان کو بھی اپنی حکمتِ عملی بدلنی ہوگی۔اور خالصتاََ استحکامِ پاکستان کے جذبے کے تحت اپنی حکمتِ عملیاں وضع کرنا ہوں گی ۔ کیونکہ کوئی مانے یا نہ مانے دہشتگردی کے خلاف چھڑی عالمی جنگ اب براہ راست ہمارے گلے پڑ چکی ہے اور اب ہم ہی نے ہی اس سے نمٹنا ہے۔دعا ہے کہ مالکِ ارض و سماء ہمارے ملک کو شاد و آباد رکھے اور حکمرانوں کو اس بصیرت سے نوازے جسکی اس وقت ملک و ملت کو ضرورت ہے۔(آمین)
تحریر: حافظ محمد فیصل خالد