اسلام آباد (ویب ڈیسک ) وفاقی دارالحکومت کے پوش سیکٹرز میں لڑکیوں کو محبت اور آئس نشے کا عادی بنا کر ان سے جسم فروشی کروائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں جواں سالہ لڑکیوں کو محبت کا جھانسہ دے کر آئس نشہ کروایا جاتا ہے جس کے بعد ان سے اسلام آباد کے پوش سیکٹرز میں جسم فروشی کروائی جاتی ہے۔
حال ہی میں اس معاملے میں دو سگی بہنوں میں سے ایک کنواری لڑکی نے حاملہ ہونے پرتھانہ کھنہ کی حدود کے ایک نجی کلینک میں بیٹے کو جنم دیا ۔ پولیس ذرائع کے مطابق لڑکی سے جسم فروشی کروانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نومولود کو مبینہ منظم و خطرناک مافیا کی جانب سے ممکنہ طور پر قتل کیے جانے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ پولیس ذرائعنے بتاہا کہ تھانہ شالیمار پولیس کو ریسکیو ون فائیو پر کسی خاتون وکیل سے کال کر اس حوالے سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ایف الیون مرکز میں واقعہ گولڈن ہائٹس جہاں پر لگژری اپارٹمنٹس قائم ہیں، پر ایک شخص خاتون کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے جس پر پولیس فوری طور پر موقع پر پہنچی۔وہاں موجود ایک شخص نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ اس کا نام شیخ عبد الرؤف ہے اور وہ کراچی سے تعلق رکھتا ہے۔ جس خاتون کو وہ مار رہا تھا وہ اُس کی بیویہے جو اُس کی نافرمانی کر رہی تھی ۔ پولیس نے ملزم کو حراست میں لے کر مذکورہ لڑکی کو بھی تھانہ منتقل کرنے اس کا بیان ریکارڈ کیا تو ”میری” نامی لڑکی نے بتایا کہ وہ ملزم کی بیوی نہیں ہے بلکہ ملزم نے اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک جعلی نکاح نامہ بنوا رکھا ہے۔اسی طرح اس نے کئی دیگر لڑکیوں کے جعلی نکاح نامے بھی بنوا رکھے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق میری کرسچن ہے جس کی عمر 25 سال ہے ۔ میری نےپولیس کو بتایا کہ میرا تعلق لاہور سے ہے، شیخ عبد الرؤف ایک بہت ہی منظم ، با اثر اور خطرناک جسم فروش مافیا کا سرغنہ ہے جو جواں سال لڑکیوں کو مختلف شہروں میں ملازمتوں کا جھانسہ دے کر اسلام آباد منتقل کرتا ہے اور محبت کا جھانسہ دے کر آئس نشے پر لگاتا ہے۔
جب لڑکیاں نشے کی عادی ہو جاتی ہیں تو پھر ملزم اپنے با اثر گاہکوں کے سامنے انہیں پیش کرتا ہے۔ شالیمار پولیس کے مطابق ملزم شیخ عبد الرؤف صدیقی کے خلاف مقدمہ درج کر کے ملزم کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ اسلام آباد کی ضلعی عدالت کے علاقہ مجسٹریٹ سے حاصل کر لیا گیا ہے جبکہ ملزم کے منظم گروہ میں موجود دیگر افراد کو بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔واضح رہے کہ پاکستان کی کئی مشہور یونیورسٹیوں سمیت تعلیمی اداروں میں نشے کے عادی طلبا و طالبات کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی طلبا سب سے زیادہ جس نشے کا استعمال کرتے ہیں وہ کرسٹل میتھ ہے جسے عام زبان میں ”آئس” کہا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں بھی ”آئس” نامی اس نشے کا استعمال دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔آئس” سپلائی کرنے والے منشیات فروش طلبا کو یہ جھانسہ دے کر اس نشے کا عادی بناتے ہیں کہ اس سے ان کی ذہنی صلاحیت میں اضافہ اور یاد داشت اچھی ہو گی۔ اس نشے کے عادی افراد 10 سے 12 گھنٹے حیرت انگیز حد تک چُست رہتے ہیں اور جاگتے رہتے ہیں ، اسی وجہ سے طلبا کو کئی جسمانی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ”آئس” نامی یہ نشہ کسی بھی شخص کو اپنا اس قدر عادی بنا لیتا ہے کہ اگر کوئی نشے کا عادی شخص خود بھی اس سے چھُٹکارا حاصل کرنا چاہے تو ایسا نہیں کر سکتا۔