تین برس پہلے دنیا بھر کا میڈیا لندن کے ایک اسٹیج پر اس شخص کے بارے میں رپورٹنگ کے لیے جمع تھا، جو ایک ہیمبرگر کھانا چاہتا تھا۔ آخر اس میں ایسی کونسی خاص بات تھی ؟ خاص بات یہ تھی کہ اس ہیمبرگر کی قیمت تین لاکھ پچیس ہزار ڈالر تھی۔ یہ ہیمبرگر اس ریسرچ کا نتیجہ تھا، جو گزشتہ کئی برسوں سے جاری تھی اور اس کے لیے سرمایہ کاری گوگل کے شریک بانی اور مشہورتر امریکی کاروباری شخصیت سیرگے برین نے کی تھی۔
سائنسدان گائے کے ایک خلیے سے 20 ہزار گوشت کے ریشے تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور حیاتیاتی طور پر یہ گوشت ہی تھا۔ ایسا گوشت جو کسی جانور کو ذبح کیے بغیر حاصل کیا گیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں اسے اُگایا گیا تھا۔ سائنسدانوں کی طرف سے یہ ایک ثبوت تھا کہ مصنوعی طریقے سے گوشت اگایا جا سکتا ہے۔ تین برس پہلے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس ’’کلچرڈ میٹ‘‘ کو مارکیٹ تک لانے میں ابھی بیس سے تیس برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
تاہم ایک اسرائیلی فرم نے ان اندازوں کا غلط ثابت کر دکھایا ہے۔ رواں برس کے آغاز پر ایک اسرائیلی فرم نے چکن کا گوشت مصنوعی طریقے سے پیدا کرنے یا اگانے کا طریقہ دریافت کر لیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ آئندہ پانچ برسوں کے اندر اندر اگائے گئے چکن والے برگر مارکیٹ میں دستیاب ہوں گے۔
سپر میٹ کمپنی کی ایک خاتون ترجمان شیر فریڈمین کا اس بارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ ایک بہترین حل ہے کیوں کہ اس طرح آپ کسی کو اپنی عادتیں تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کر رہے۔ آپ لوگوں کو وہی پراڈکٹ دے رہے ہیں، جو وہ صدیوں سے کھاتے آ رہے ہیں۔‘‘
دنیا کی زیادہ تر لیبارٹریاں گوشت کو مصنوعی طریقے سے اگانے پر تجربات کر رہی ہیں لیکن سُپر میٹ کی جانب سے چکن پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
اس کمپنی کا مقصد مرغی کے خلیے سے ایسے چکن بریسٹ تیار کرنا ہے، جنہیں ایک ’میٹ اوون‘ کی طرح ایک مشین میں تیار کیا جا سکے۔ ایسے اوون یا ایسی مشینیں گھروں پر بھی رکھی جا سکتی ہیں، سپر مارکیٹوں میں بھی اور ریستورانوں میں بھی۔
لوگ ایسی مشینوں میں ایک کیپسول رکھا کریں گے اور یہ کیپسول اگتے ہوئے گوشت کی شکل اختیار کر لیا کرے گا۔
امریکی سرمایہ کار کے برین برگر میں ’سیرم یا خوناب‘ کی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے جبکہ اسرائیل کی کمپنی ہیبریو یونیورسٹی کے پروفیسر یاکووف ناہمیاس کی وہ ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہے، جو انہوں نے خلیات سے متعلق سن دو ہزار چھ میں متعارف کروائی تھی۔
چکن اگانے کا خیال نیا نہیں
دنیا میں چکن اگانے کا خیال نیا نہیں ہے۔ تقریبا ایک صدی پہلے بھی یہ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں موجود تھا۔ 1932ء میں ونسٹن چرچل نے اپنے ایک مضمون ’’ففٹی ایئرز ہینس‘‘ میں لکھا تھا، ’’ہمیں اس فضول بات سے پرہیز کرنا ہو گا کہ ہم صرف بریسٹ یا پھر ونگز کھانے کے لیے مکمل چکن کو ضائع کریں۔ ہمیں کسی طریقے سے یہ مختلف حصے علیحدہ علیحدہ اگانے چاہییں۔‘‘
سُپر میٹ سے دنیا کو کیا فائدہ ہوگا؟
سپر میٹ کمپنی کا کہنا ہے کہ گوشت اگانے سے دنیا کے ماحول کو صاف ستھرا رکھا جا سکتا ہے۔ اندازوں کے مطابق سطح زمین کا نصف قابل استعمال حصہ جانوروں کو پالنے یا پھر ان کے لیے خوراک اگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ انسانوں کے خوراک اگانے کے لیے زمین کا صرف چار فیصد قابل استعمال حصہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔
عام گوشت کے مقابلے میں مصنوعی طریقے سے حاصل ہونے والے گوشت میں ننانوے فیصد زمین کم استعمال ہوتی ہے جبکہ گوشت کے حصول میں ضرر رساں گیسوں کا اخراج بھی چھیانوے فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ سپر میٹ چین اور بھارت جیسے ان ممالک کی ضروریات پوری کر سکتا ہے، جہاں آبادی انتہائی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق تمام تر کامیاب تجربات کے باوجود ابھی یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ عوام اسے کتنی جلدی قبول کریں گے۔ دوسری جانب ایسی کمپنیوں کو فی الحال بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور ہر تاجر اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے میں تیار نہیں ہے۔