تحریر: ابنِ نیاز
ابھی تو ١٦ دسمبر ٢٠١٤ کے زخم ہی تازہ تھے، پھولوں کے گلدستوں پر جما ہوا لہو بھی ابھی صاف نہیں ہوا تھا، ابھی تو رستے زخموں سے مرہم بھی خشک نہیں ہوا تھا کہ پھر سے اس قوم پر قیامتِ صغرٰی ٹوٹ پڑی۔ صوبہ سندھ کے اس شہر میں جس کی اچار سارے پاکستان میں مشہور ہے اور نہ صرف کھائی جاتی ہے بلکہ کھانے کے بعد انگلیاں تک چاٹی جاتی ہیں بلکہ بعد میں بھی کافی دیر تک چٹخارے لیے جاتے ہیں، شکار پر جس کا نام ہے۔ اس شہر میں کی ایک امام بارگاہ میںبم دھماکہ ہوا جس میں پچاس سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ جمعة المبارک کا دن تھا ، جنوری کی ٣٠ تاریخ تھی۔ کون سوچ سکتا ہے کہ اس بابرکت دن بھی کوئی بدبخت اپنی عاقبت خراب کرنے اتنی گھٹیا اور ذلیل حرکت کرے گا۔ ابتدائی تحقیق میں عینی شاھدین کے مطابق ایک شخص ایک تھیلا لیکر امام بارگاہ میں داخل ہوا اور اسکے تھوڑی دیر بعد ہی دھماکہ ہو گیا۔ آج دو ہفتوں سے زیادہ کا وقت ہو گیا۔ مزید کیا تحقیقات ہوئیں،کیا کچھ سامنے آیا اور کیا کچھ چھپایا گیا، آپ نے اخبارات میں پڑھ لیا ہو گا۔میں اس تفصیل میں ہر گز نہیں جانا چاہتا کہ پھر بات کہیں اور نکل جاتی ہے۔ مجھے نہ اپنے دل پر قابو رہتا ہے نہ ہی دماغ میں امنڈتی سوچوں پر اختیار رہتا ہے۔
ابھی یہ صورتِ حال تازہ ہی سمجھئے کہ پشاور ایک بار پھر خون کی بارش میں ڈوب گیا۔دشمنوں کی سازشیں کتنی خوفناک ہیں اور پاکستان میں کتنی گہرائی میں اپنی جڑیں مضبوط کیے ہوئی ہیںکہ دایاں دکھا کر بایاں ہاتھ لگایا جارہا ہے۔ کچھ ایسا ہی شکار پور اور اب پشاور میں بھی ہوا۔ ایک سکول پر حملہ کرنے کے بعد پھر یہ دھمکیاں دینے لگے کہ ابھی تو اور سکول بھی نشانے پر ہیں، ہمارے سیاستدانوں کا، حکومت کا بلکہ اکثریت کا دل و دماغ اسی سمت میں پھیر دیا۔ تمام تعلیمی ادارے بشمول سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں دو سے تین ہفتوں کے لیے بند کر دیے گئے تاکہ بہترین قسم کے حفاظتی اقدامات کیے جا سکیں۔ یوں توجہ تعلیمی اداروں کی طرف پھیر دی گئی۔جب یہ اقدامات کیے جارہے تھے تو میں اپنے آفس میں بیٹھا اپنے ساتھیوں سے یہی بات کہہ رہا تھا کہ ہمارا دشمن بہت سیانا ہو گیا ہے۔ اس نے پوری قوم کی حکومت کو کس کام پر لگا دیا ہے۔ سب کی توجہ ایک جانب مبذول کرا دی ہے اور باقی ہر سمت سے آنکھیں گویا بند کرا دی گئی ہیں۔ تعلیمی اداروں کے ان حفاظتی اقدامات کے پردے میں ہمارا دشمن کسی اور طرف سے حملہ کرے گا۔ وہ چاہے خود کش دھماکوں کی صورت میں ہوں یا پھر اسی طرح دہشت گردوں کے حملے کی صورت میں۔
میری اس بات کی گواہی میں شکارپور کی امام بارگاہ میں ہونے والا دھماکہ اور اب پشاور ، حیات آباد کی امام بارگاہ میں ہونے والا خود کش حملہ بہترین مثال ہے۔ دشمنوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، لیکن ہم اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ وہی دشمن جو ہمیں اندر باہر سے للکا ر رہا ہے ہم اس کے ساتھ دوستی کی باتیں کر رہے ہیں۔ جب اللہ نے ایک فیصلہ سنا دیا ہے ، کائنات کے سب سے بڑے منصف نے ایک فیصلہ سب سے بڑی انصاف کی کتاب لوحِ محفوظ پر تحریر کر دیا ہے کہ یہود و نصارٰی کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے (اس آیت کی تشریح کو اگر مزید پھیلایا جائے تو وہ سب غیر مسلم آجاتے ہیں جو کسی بھی طرح اسلام کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس لسٹ میں ہندو سب سے اوپر ہیں۔) تو ہم پھر کیوں ان یہود و ہنود و نصارٰی سے پیار کی پینگیں بڑھارہے ہیں۔ اب شکار پور اور پشاور کی امام بارگاہوں میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائی میں کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے، قرائن سے ظاہر ہے کہ کم از کم وہ مسلمان نہیں ہو سکتے۔ بے شک حملہ کرنے والے مسلمان ہوں گے لیکن یہ پوری سازش تیار کرنے والے داڑھی مونچھ لگا کر ، بالوں میں خضاب لگا کر، آنکھوں میں سرمہ سجا کر ، چہرے پر فیئر اینڈ لولی کریم سے جھوٹا نور سجا کر مسلمان صورت بنائے ہمارے ازلی دشمن ہر گز مسلمان نہیں ہوں گے۔ انھوں نے سارا منصوبہ تیار کیا ہو گا اور پھر مختلف ہیر پھیر منصوبے پر عمل پیرا ہونے والے افراد تک اسی پہنچایا ہو گا۔ وہ عمل پیرا ہونے والے کون لوگ، حضور پاک ۖ کی حدیث کے مطابق خوارج لوگ۔ جن کے باقاعدہ ملک دشمن عناصر سے روابط ہیں۔چاہے وہ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھے ہیں یا ان کو باہر سے فنڈ دیا جاتا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں ، انکی تربیت جس میں اسلحہ کا استعمال، خالی ہاتھ لڑائی، مختلف قسم کے بموں کو کیسے استعمال کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
جب ہمارے ان دشمنوں سے اور کچھ بھی نہیں بن پڑتا۔ جب وہ دیکھتے ہیں پاکستانی قوم پھر سے متحد ہو گئی ہے تو ان کے اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے، ان میں ناچاقی پیدا کرنے کے لیے وہ پھر سے سر گرم ہو جاتے ہیں۔ان کے شیطانی دماغ آپس میں ملتے ہیں اور سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کر دیتے ہیں۔خالی دماغ شیطان کا کارخانہ کے مصداق انھوںنے اپنے دماغ خالی ہی اسی لیے رکھے ہوتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف اور بالخصوص پاکستان کے خلاف آئے روز نت نئے منصوبے لائے جاتے رہیں۔یہ تو میرا ذاتی خیال تھا اور اب بھی ہے کہ جس طرح ان دشمنوں نے آپس میں ایکا کیا ہوا ہے اور پاکستان کو نعوذ بااللہ، میرے منہ میں خاک، تباہ کرنے کے لیے ایک ہو لیے ہیں، تو قیامت تک ان کا سدھرنا ناممکن ہے۔ انھوں نے ہر زخم کے بعد ایک نیا زخم لگانا ہوتا ہے۔ اب بھی میڈیا رپورٹ بھی یہی کہہ رہی ہے کہ پشاور آرمی سکول اور حیات آباد پشاور کی امام بارگاہ پر ہونے حملوں میں کافی مماثلت تھی اور دونوں کے تانے بانے افغانستان سے جا کر ملتے ہیں۔آخر یہ ہر بار ایسا ہی کیوں ہوتا ہے؟ افغانستان کا نام ہی کیوں سامنے آتا ہے۔ اور خاص طور پر جب سے پاکستان میں طالبان نامی دہشت گرد تنظیم سامنے آئی ہے، تب سے افغانستان کا نام سامنے آنے لگ گیا ہے۔ جس طرح میں ایک دفعہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ افغانستان میں بیٹھ کر کوئی افغانستانی یہ منصوبے نہیں بناتے۔ بلکہ وہاں پر پاکستان کے ازلی دشمن اور نعوذ بااللہ اس کو روئے زمین سے مٹانے کا خواب دیکھنے والے ان سازشوں کے پیچھے ہوتے ہیں۔اب بھی صورتحال یہی ہے۔ اسی طرح کے حلیوں میں یہ دہشت گرد حملہ کرنے آئے تھے، جس طرح کے آرمی سکول پر حملہ کرنے کے لیے آئے تھے اور جہنم واصل ہوئے تھے۔
میرے وطن کے حکمرانو! خدا سے ڈرتے ہو یا نہیں، لیکن کم از کم اس کے نام لیوا تو ضرور ہو۔ میرے وطن کے سیاست دانو، اس مٹی سے اگا ہوا جو کچھ کھایا ہے، اسکا حساب تو دو۔ جو نمک یہاں کا چکھا ہے، اسکا حق تو ادا کرو۔ کیوں اس قوم پر عذاب کی صورت میں وطن دشمنوں سے مل جاتے ہو۔ اگر ملتے نہیں بھی ہو تو کیوں ان کی طرف داری کرتے ہو۔کیوں ببانگِ دہل انڈیا کا نام نہیں لیتے ہو۔ کیوں امریکہ ، مردود اسرائیل کا نام لیتے ہوئے گناہ سمجھتے ہو۔اس وقت روئے زمین پر پاکستان کے سب سے بڑے دشمن یہی تینوں ملک تو ہیں۔ آپ سب صاف طور پر دیکھتے ہو کہ ہر تیسرے چوتھے ماہ صدر امریکہ انڈیا کا دورہ کرتا ہے، وہاں پر ان سے مختلف ہتھیاروں کی ترسیل کے لیے معائدے کرتا ہے اور پاکستان کو بھینگی آنکھ سے بھی نہیں دیکھتا۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہہ کر انڈیا سے ہی واپس چلا جاتا ہے کہ انڈیا سے کیے گئے ان معائدوں کا پاکستان کو کوئی نقصان نہیںپہنچتا۔ کوئی پوچھے کہ انڈیا جو ادھر اتنا اسلحہ جمع کر رہا ہے، اس کی پاکستان کے علاوہ کس کے ساتھ دشمنی ہے۔ کیا چین کے ساتھ پنگا لے گا، جس کی صرف بندروں کی فوج نے اسکی دھلائی کر کے رکھ دی تھی۔سری لنکا ، مالدیپ، بھوٹان ، بنگلہ دیش چھوٹے چھوٹے ملک ہیں، وہ کیسے اس سے دشمنی کر سکتے ہیں۔ اور ویسے بھی پہلے سے ہی ان پر بیک ڈور پالیسی کے تحت انڈیا کی ہی حکومت ہے۔تو اب امریکہ سے پوچھا جائے کہ وہ اسلحہ کیوں انڈیا کو بیچ رہا ہے۔ تو امریکہ کوئی بھی واضح جواب نہیں دے سکے گا۔
میرا سوال تو وہی رہ گیا کہ پھر ہم کیوں انڈیا سے دوستی کی باتیں کرتے ہیں۔ کیوں امریکہ سے پیار کی پینگیں مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ پچھلے پچاس سال سے ہم نے امریکہ سے کبھی بھی کوئی فائدہ اس طرح کا حاصل نہیں کیا، جس کی بنیاد میں امریکہ کا ذاتی مفاد شامل نہ ہو۔ اگر امریکہ نے کبھی قرضہ بھی دیا تو اسکی بھی کچھ شرائط رکھی گئیں۔ اور ہم نے من و عن تسلیم کرکے قرضہ لے لیا۔ اب موجودہ مثال ہی لے لیں۔ پاکستان کو پھر کچھ کروڑ ڈالر قرضہ دیا گیا ہے۔ باقی شرائط تو جو بھی ہوں گی سو ہوں گی، لیکن ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو فالتو محکمے ہیں ان کو ختم کیا جائے۔ آخر مریکہ نے یہ کیوں نہیں کہا جو فالتو وزراء ہیں ان سے وزارتیں واپس لی جائیں۔ جیسے ایک وزیر ہے تو اسی کا ایک مشیر بھی ہے، ایک وزیرِ مملکت بھی ہے۔ یعنی ایک ہی محکمہ کے تین تین وزرائ۔اگر پچاس محکمے ہیں تو ایک سو پچاس وزرائ۔ اگر ہم سووزراء کم کر دیں تو کتنے اخراجات بچ سکتے ہیں۔ویسے تو ہم دنیا کی پیروی مختلف انداز میں کرتے ہیں تو کیا پارلیمنٹ بنانے میں یہ کام نہیں کر سکتے۔
جناب عالیان۔ ہمارے یہ دشمن جو آئے روز نئے سے نئے زخم لگانے کے بہانے ڈھونڈنتے ہیں اور نہ صرف ڈھونڈتے ہیں بلکہ لگا بھی دتے ہیں، کبھی بھی کسی بھی صورت میں پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے۔ میری اور پوری قوم کی یہ التجا ہے کہ ان سے صرف اتنا تعلق واسطہ رکھیں جتنا جائز ہے، جیسے ہوائی سفر کے لیے کسی ملک کے اوپر سے گزرنا پڑتا ہے، کوئی تجارت کرنے کے لیے مال کو وطن عزیز میں لانے کے لیے راہداری چاہیے ہوتی ہے، تو یہ واسطہ کافی ہے۔ اگر دوستی ہی کرنی ہے تو مسلمان ممالک آپس میں کریں۔ آپ میں ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ ایک دوسرے کی طاقت بنیں۔ کہ یہ کفار آپ میں اندروں خانہ ایک ہیں۔روس کو دیکھ لیں۔ ١٩٩٢ میں اسکے ٹکڑے ہوئے تھے اور آج پھر وہ آہستہ آہستہ ہمسایہ ممالک پر قبضہ جمانے کے لیے پر تول رہا ہے۔ اسکا پہلا ہدف ہمیں یوکرائن نظر آرہا ہے۔ مجال ہے جو امریکہ، اسرائیل ، برطانیہ یا انڈیا نے آواز لگائی ہو کہ روس یہ غلط کر رہا ہے۔ اور اگر کوئی صدا لگائی بھی ہے تو وہ نقار خانے میں طوطی کی آواز والی صدا ہو گی۔ اگر مخلص ہوتے تو کیا یہ آواز ویسی نہیں ہو سکتی تھی جیسی مشرقی تیمور کو آزاد کرنے میں لگائی تھی، جس میں انھوں نے مہینوں کے اندر اندر اسکو آزاد کراکر ایک الگ ملک بنوا دیا تھا۔
روز اک نیا زخم اک نئے بہانے سے لگا دیتا ہے
میرا دشمن دشمنوں سے مل کر تباہی کی صدا دیتا ہے
تحریر: ابنِ نیاز