تحریر : ممتاز ملک، پیرس
پیرس میں گذشتہ ہفتے ہو ے والے خونی واقعات نے صدمے اور حیرت دونوں ہی سے ساری دنیا کو دوچار کر دیا. حیرت یہ کہ اتنے بڑے مضبوط اور محفوظ ملک میں یہ سب کر نے کا کیا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ؟ اور صدمہ اس بات کا کہ دنیا میں اب تک جہاں بھی ہمیں جانے کا موقع ملا ہے اور اس ملک فرانس کی شہری ہونے کے ناطے ہم یہ بات پورے وثوق کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس قدر محبت کرنے والی قانون پسند، نفیس،، صفائی پسند اور دھیمے مزاج کی مددگاراور ہمدرد قوم آپ نے شاید ہی کہیں دیکھی ہو گی۔
فرانس میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو خصوصا بہت ہمدردیاں ملتی رہی ہیں . اور ان پر اعتماد بھی یورپ بھر میں سب سے زیادہ فرانس ہی میں کہا گیا ہے . یہ بات بہت ہی غور طلب ہے کہ جب بھی یورپ اور انگلینڈ میں مسلمانوں پر لوگوں کا اعتماد بحال ہونے لگتا ہے یا ان کے رویئے میں نرمی آنے لگتی ہے تو ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے بلکہ کر دیا جاتا ہے کہ جس سے یہ اعتماد پھر سے چکنا چور ہو جاتا ہے۔
آخر یہ سب کون کرتا ہے؟ ابھی پچھلے دنوں جب انگلینڈ کے سابقہ وزیر اعظم کواپنے ضمیر کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لیئے یہ کہنا پڑا کہ عراق پر کاروائی اور دوسرے مسلم ممالک پر فوجی بدمعاشی کے لیئے اور مسلم قتل عام کے لیئے جھوٹ بولاگیا تھا.تو وہ کون سی طاقت ہے کہ جسے یہ گوارہ نہ ہوا کہ اس بات کا اعتراف کر کے ان مظلوموں کے ذخموں پر مرہم رکھا جائے . مسلمانوں کے ممالک کو تباہ کرنے کے لیئے منظم صلیبی جنگ میں سب سے بڑا بدمعاش یقینا امریکہ ہی ہے اور امریکہ کو کون نچاتاہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہر گز نہیں ہے۔
مسلمانوں کے نام سے تیار کیئے گیئے اور مسلم ممالک میں یہ بیس پچیس پچیس سال پہلے سے پلانٹ کیئے گیئے امریکی اور یہودی جاسوسوں نے بڑی ہی لمبی اننگ کھیلتے ہوئے ہمیشہ اپنے اہداف پر حملے کیئے ہیں .بلکہ یہ کہنا بھی بیجا نہ ہوگاکہ دنیا بھر کے امن کو تناہ کرنے کا ذمےدار بہر صورت امریکہ ہی ہوتا ہے …. اگر امریکہ کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں پر صدیوں پہلےمجرموںکو ہیلا لا کر آباد کیا جاتا تھا . یعنی کل تک یہ مجرموں کے لیئے “سرزمین سزا” تھی اور رفتہ رفتہ انہی مجرموں کی آ ہوں اور سسکیوں سے اب یہ دنیا بھر کے لیئے” سرزمین بددعا” بن چکی ہے . امریکہ کی ترقی نما روشنی گویا جلتا ہوا سورج ہے . جو یہ نہ دیکھے اسے حرارت نہیں مل پاتی اور جو اسے غور سے دیکھ لے تو اندھا ہو جاتا ہے اور جو اسے چھو لے وہ جل کر بھسم ہو جاتا ہے۔
اسی کایہ کارنامہ ہے کہ دنیا بھر کا بد کردار،بدمعاش ،قاتل،بے دین اور نفسیاتی مریض ایک گروہ کی صورت اکٹھے کئے گئے اور ان سب کو برین واش کر کے دنیا بھر میں مسلمانوں کونشانہ بنانے انہیں قتل کرنے اور اکا دکا کاروائیاں یورپ انگلینڈ اور امریکہ میں کروا کر انہیں مسلمانوں کے سر تھوپنے کے منصوبے پر لگا دیا گیا. یوں مسلمانوں کے قتل عام کے لیئے ہر چار دن بعد ایک کہانی گھڑی جاتی ہے۔
جبکہ نہ تو طالبان کا تعلق کہیں سے بھی اسلام سے ہے نہ ہی انہیں اسلام کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہے اور نہ ہی داعش کے جانوروں کاکوئی تعلق کہیں بھی اسلام سے ہے کہ ان کا بھی نام مسلمان کی حد تک ہونے کے سوا اس دین کے ہزارویں حصے کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے. ورنہ ان کے نناوے فیصد مقتول اور مظلوم اور مشق ستم مسلمانوں ہی پر کیوں ہوتے. لیکن ہمیں امید ہے کہ اس خوفناک واقعہ سے فرانس کے عوام کو جس طرح اپنے پیاروں کے جنازے اٹھانے اور انہیں تڑپتے ہوئے دیکھنے کا خوفناک تجربہ ہوا ہے۔
اس کی روشنی میں انہیں مسلم ممالک اور خصوصا پاکستان کے لوگوں کی تکلیفوں اور اذیتوں اور قربانیوں کو سمجھنے کا ایک بھرپور موقع ملا ہو گا . اللہ پاک فرانس کے لوگوں کے زخموں کو بھر دے . اور انہیں آئندہ ایسے حادثات سے اپنی امان میں رکھے . اور انہیں مسلمانوں کیساتھ ملکر دنیا سے دہشت اور بربریت کے خاتمے کی توفیق عطا فرمائے. کہ بے شک اللہ قرآن میں واضح فرماتا ہے کہ” اللہ زمین پر فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا. ” اور “جس نے کسی ایک جان کو نا حق قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا۔
ہر روز جنازے ڈھو ڈھو کر پورا پاکستان یہ بات جو دنیا کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،ایک مسلمان نام رکھنے سے کوئی مسلمان اور ہندو نام رکھنے سے کوئی ہندو نہیں ہو جاتا . صرف اس مذہب کو بدنام کرنے کا ایک سستا اور گھٹیا طریقہ ہے . ورنہ ان کا شکار ساری دنیا میں مرنے والے ہزاروں مسلمان کبھی نہ ہوتے. فرانسیسی عوام پاکستان کا درد اب اس لیئے بھی بہتر سمجھ سکیں گے کہ اس درد کی ایک لہر نے ان کے سینے پر بھی ایسا گھاو لگایا ہے جو بھر تو جائیگا لیکن ہمیشہ کے لیئے داغ چھوڑ جائے گا۔
تحریر : ممتاز ملک، پیرس