لاہور (ویب ڈیسک) یہ سعودی عدالت کا منظر نامہ تھا۔عدالت حاضرین سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ چونکہ یہ اپنی نوعیت کا انوکھامقدمہ تھا، اس لیے لوگ اس کا فیصلہ سننے کیلئے بے تاب تھے۔ عدالت میں دونوں بھائیوں نے مل کر ماں کو ویل چیئر پر پیش کیا۔ کمرہ عدالت میں بوڑھے بیٹوں
نامور کالم نگار فضل حسین اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کی ماں کے ساتھ محبت و عقیدت کے گلشن و گلستان ضو فشاں تھے۔ جج کی ساری توجہ بوڑھی ماں کی طرف تھی۔اس نے خاتون سے مخاطب ہوکر پوچھا:’’ محترمہ! دونوں بیٹے تمہاری خدمت کیلئے تمہیں اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں کی خواہش ہے، تمہاری خدمت کریں۔ ان میں سے کوئی بھی تم سے جدا ہونے کو تیار نہیں۔ میں نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی ایک اپنی بات سے رجوع کرلے مگر یہ دونوں اپنی بات اور دلیل پر مصر ہیں۔ مجھے اس مقدمے کا فیصلہ کرنے میں بڑی دشواری پیش آرہی ہے۔ اب یہ فیصلہ میرے ہاتھ میں نہیں بلکہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ تم جو کہو گی میں اسی کی بنیاد پر فیصلہ کردوں گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ تم خود بتادو، ان دونوں بیٹوں میں سے کس کے پاس رہنا چاہتی ہو؟‘‘سچ تو یہ ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ جج کیلئے جتنا دشوار تھا، اس سے کہیںزیادہ ماں کیلئے دُوبھر تھا۔ دونوں بیٹے اسکی آنکھوں کاتارے تھے۔ وہ ان دونوں ہی سے بے لوث محبت کرتی اور ان دونوں ہی نے ماں کی خدمت میں بڑے خلوص کا ثبوت دیا تھا۔ ماں کو چپ لگ گئی۔ جج خاتون کے جواب کا شدت سے منتظر تھا۔خاتون نے چند لمحے بعد زبان کھولی اور کہنے لگی:’’ جج صاحب! میں کیا فیصلہ سناؤں؟ آپ نے اپنے فیصلے کا انحصار میرے جواب پر رکھا ہے۔ بھلا میں کیا عندیہ ظاہر کروں؟ میں تو ان دونوں کی ماں ہوں۔ یہ دونوں ہی میرے بچے ہیں۔
میری ایک آنکھ میرے بڑے بیٹے حیزان کی طرف دیکھ رہی ہے اور دوسری آنکھ اسکے چھوٹے بھائی فیضان کی طرف۔ میں دوراہے پر حیران کھڑی ہوں۔ میرے لیے یہ فیصلہ مشکل ہے، میں کس راہ پر قدم بڑھاؤں؟ جج کیلئے اب یہ مقدمہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا۔ اس کیلئے اسکے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق جو مناسب سمجھے وہ فیصلہ سنادے۔ چنانچہ جج نے کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ سنایا:’ستر سالہ حیزان نے ایک عرصے تک اپنی بوڑھی والدہ کی خدمت کی ہے اور اب وہ خود بھی بوڑھا ہوچلا ہے۔ وہ پہلے کی طرح چابکدستی سے اپنی ماں کی خدمت نہیں کرسکتا۔ اس کے مقابلے میں اس کا ساٹھ سالہ چھوٹا بھائی فیضان نسبتاً جوان ہے۔ اسکے پاس ماں کی خدمت کرنے کی بہتر صلاحیت ہے، اس لیے عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ بوڑھی ماں اب اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہے۔‘‘یہ فیصلہ سننا تھا کہ حیزان کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ بھری عدالت میں سسکیاں بھر کر رونے لگا۔ وہ اپنے اوپر افسوس کررہاتھا کہ آہ! آج میں بوڑھا ہوجانے کی وجہ سے اپنی ماں کی خدمت کرنے سے محروم کردیا گیا ہوں۔ عدالت نے میرے خلاف فیصلہ صادر کیا ہے۔ کاش! میں بوڑھا نہ ہوتا، تاکہ اپنی والدہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرکے خوشی مناتا۔‘‘ اس واقعے کو ذہن میں رکھیں اور اپنے گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو کتنی ہی مائیں کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتی نظر آئیں گی جن کے کئی کئی بیٹے ہیں لیکن کوئی ماں کو ساتھ رکھنے پر تیار نہیں ہوتا بعض بیویوں کی وجہ
سے اور بعض بدنصیب اپنی بد فطرت کی وجہ سے ماں کی خدمت کے شرف سے محروم ہیں۔ حیزان اوراس کے بھائی جیسا جذبہ ہر بیٹے کے اندر پیدا ہوجائے تو دارالامانوں میں بوڑھے ماں باپ عید کے تہواروں پر بھی اپنے پیاروں سے ملنے کی حسرت لئے سسکیاں لیتے اور آہیں بھرتے نظر نہ آئیں۔ ڈاکٹر عظمت رحمن نے اس کالم کے پہلے حصہ کے بعد فون پر بیٹے کی ماں سے محبت کا ایک واقعہ سنایا: ان کے سٹاف کا ایک اہلکاراپنے کام میں ماہر نوجوان روز دفتر لیٹ آتا جس پر اس کے ساتھیوں نے بار بار اعتراض کیا۔ میں نے اسے وقت پر آنے کی تنبیہ کی تو وہ خاموش رہا‘ تاہم اگلے روز استعفیٰ لکھ لایا جس میں لکھا تھا ’’میری اہلیہ میری والدہ کا صحیح خیال نہیں رکھتی۔ لہٰذا صبح مجھے والدہ کو وقت دینا پڑتا ہے۔ مجھے نوکری تو اور مل سکتی ہے‘ والدہ نہیں ملے گی‘ لہٰذا میں استعفیٰ دے رہا ہوں۔‘‘ اس کا استعفیٰ منظور نہیں کیاالبتہ اس کی ڈیوٹی ٹائمنگ ایڈجسٹ کر دی تھی۔ بلاشبہ ایسی اولادیں ہی بانصیب ہوتی ہیں۔ یہاں عربی کے صف اول کے شاعر ابوالعلا معریٰ (ان کا حوالہ علامہ اقبال نے بھی دیا ہے۔ علامہ اقبال کا مشہور مصرع ’’ہے جرم ضعیفی کی سزائے مرگ مفاجات‘‘ معریٰ کے ایک شعر سے ماخوذ ہے۔) یاد آگئے۔ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں۔ ’’گدھی کے 20 بیٹے بھی ہوں تو اسے بوجھ اٹھانے کی مشقت سے سبکدوش نہیں کیا جاتا‘ لیکن شیرنی کا ایک بیٹا بھی ہو تو اس کا بڑھاپا آرام سے گزرتا ہے۔‘‘ اس شعر میں کمینے اور اصیل کی سرشت میں فرق بتایا گیا ہے۔ریاست بھی ماں جیسی ہوتی ہے۔ ہر شہری کا تحفظ اس کی ذمہ داری ہے۔ ریاستی امور حکمران طبقہ کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں۔ ان سے رعایا ماں باپ جیسی شفقت اور ریاست صالح اولاد جیسے کردار اور تحفظ کی توقع رکھتی ہے مگر جب حکمران اشرافیہ کی نظریں رعایا کی جائیدادوں اور ہاتھ ریاست کے گریباں کی طرف اٹھتے نظر آتے ہیں تو یہ واقعہ یاد آجاتا ہے۔:حضرت داؤدؑ کواللہ تعالیٰ نے بڑی سلطنت کا بادشاہ بنایا تھا۔ حضرت داؤدؑ کی ننانوے بیویاں تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک ایسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا جس کو پہلے سے ہی ایک آدمی نے نکاح کا پیغام بھیجا ہوا تھا۔لیکن آپ کا پیغام پہنچنے کے بعد اس عورت کے گھر والوں نے اس آدمی کو منع کر دیا اور آپ سے اس عورت کا نکاح ہو گیا۔ (جاری ہے )