تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
تحریکِ انصاف نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے اگر پارلیمنٹ میں22 ویں ترمیم لائی گئی تواِس ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے لیے پارلیمنٹ میںبھی آسکتی ہے ۔تحریک کے اِس بیان کے ساتھ ہی مولانافضل الرحمٰن کے ہاتھوںکے طوطے اُڑ گئے اوراُنہوں نے درِزرداری پہ پناہ لینے میںہی عافیت جانی ۔دو شاطروںکی یہ ملاقات رنگ لائی اورمولانا کے سَرسے 22 ویں ترمیم کی لٹکتی تلوارہَٹ گئی اورفی الحال یہ طے ہوگیا کہ کھوتوںگھوڑوںکی کھلی منڈی میںخریدوفروخت آئین کے عین مطابق ہے ۔زرداری صاحب سے ملاقات کے بعدکھِلتی باچھوںکے ساتھ مولانانے فرمایاکہ کچھ لوگ گائے کی دُم پکڑکر پارلیمنٹ میں آناچاہتے ہیںجو ہمیںمنظور نہیں۔دراصل مولانا یہ کہناچاہتے تھے کہ تحریکِ انصاف پارلیمنٹ میںآنے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے لیکن وہ ایساہونے نہیںدیں گے ۔مولاناکا فرمان بجالیکن مولاناخود بھی توہمیشہ گائے کی دُم پکڑکرہی اقتدارکے ایوانوںمیں آتے رہے ہیں اور اُن کے بارے میںمشہور ہے کہ وہ ہمیشہ اِس تاڑ میںرہتے ہیںکہ کب اُنہیںموقع ملے اوروہ اپنی بلیک میلنگ کاآزمودہ نسخۂ کیمیااستعمال کرسکیں۔
اُنہیں اِس سے کچھ غرض نہیںہوتی کہ حکومت پیپلزپارٹی کی ہے ،نوازلیگ کی یاکسی آمرکی ،اُنہیںتو بَس اُس روزن کی تلاش ہوتی ہے جِس میںگھس کروہ مسندِاقتدار تک پہنچ سکیںلیکن ہمیشہ مسلٔہ یہی آن پڑتاہے کہ موٹے تازے مولانااُسی روزن میںپھَنس کر رہ جاتے ہیں۔بھولی بھالی جماعت اسلامی کوایم ایم اے کی صورت میںاپنے جال میںپھانسا ،عوام نے بھی امریکہ مخالف ووٹ دینے میںکسی بخل سے کام نہیںلیا اورایم ایم اے بڑی شان سے پارلیمنٹ میںپہنچی ۔اُس وقت مولاناوزارتِ عظمیٰ کے گرماگرم اُمیدوارتھے اوراُن کے مُنہ سے اقتدارکی رالیںٹپکتی صاف دکھائی دیتی تھیں،جنہیں وہ اپنے کندھے پہ پڑے رومال سے صاف کرنے کا تکلف بھی نہیںکرتے تھے ۔اُنہوںنے تومغربی سفیروںسے خفیہ ملاقاتیں کرکے اُنہیںیہ یقین دلانابھی شروع کردیاکہ اگروزارتِ عظمیٰ کے حصول کے لیے اُن کی مددکی جائے تووہ اُن کے خادم بلکہ خادمِ اعلیٰ ثابت ہوسکتے ہیںلیکن بُراہو پرویزمشرف کاجس کی نگاہِ انتخاب میرظفراللہ جمالی پرجا ٹھہری اورمولاناکے دِل کے ارماں دِل ہی میںرہ گئے۔
دَورِ مشرف میںساری رسوائیاں جماعت اسلامی کے حصے میںآئیں اورمولانا مرکزمیں قائدِحزبِ اختلاف اور خیبرپختونخوا میںوزارتِ اعلیٰ کے مزے لوٹتے رہے ۔جب پرویزمشرف نے وردی اتارنے کاوعدہ ایفاء نہ کیااورایم ایم اے شدیدتنقید کانشانہ بننے لگی توجماعت اسلامی نے اسمبلیوںسے مستعفی ہوکر سڑکوںپہ آنے کافیصلہ کیالیکن اُس کے اتحادی مولانافضل الرحمٰن نے صاف انکارکردیاکیونکہ اُن پرتو اقتدارکا نشہ چڑھ چکاتھا ۔جماعت اسلامی مستعفی ہوکر اسمبلیوںسے باہر آگئی اورمولانا اقتدارکے مزے لوٹتے رہے ۔پیپلزپارٹی کے دَورِحکومت میںمولانا پیپلزپارٹی کے اتحادی بن کراُبھرے اورایک دفعہ پھراپنا ”نسخۂ کیمیا”استعمال کرنے کے لیے کمربستہ ہوگئے ۔وہ خوب جانتے تھے کہ زرداری صاحب کی کمزورترین حکومت اتحادیوںکے ستونوںپر کھڑی ہے اِس لیے جوںہی اُنہیںموقع ملاوہ اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمینی لے اُڑے ۔دوسری دفعہ پھراُنہوں نے زرداری صاحب کوبلیک میل کرنے کی کوشش کی لیکن تب تک زرداری صاحب ”قاتل لیگ”کو اپنے ساتھ ملاچکے تھے اِس لیے اُنہوںنے مولاناکو گھاس نہ ڈالی اورمولانا روٹھ کرزرداری صاحب سے الگ ہوگئے۔
2013ء کے انتخابات سے پہلے مولانانے نوازلیگ سے ناطہ جوڑلیا کیونکہ وہ خوب جانتے تھے کہ اب پیپلزپارٹی کے پلّے ”کَکھ” نہیںبچااور اقتدارکے مزے لوٹنے کے لیے نوازلیگ سے بہترکوئی آپشن نہیں ۔وہی ہواجس کامولانا اندازہ لگائے بیٹھے تھے ۔اب مولانانے مرکزمیں وفاقی وزراء اور خیبرپختونخوا کی حکومت کی آس لگالی ۔ اُنہوںنے تو خیبرپختونخواکی حکومت کے حصول کے لیے ”ڈنڈبیٹھکیں”بھی لگانا شروع کردی تھیںلیکن میاںصاحب کے جی میںپتہ نہیںکیا آئی کہ اُنہوںنے تحریکِ انصاف کوحکومت بنانے کاموقع دے دیا ۔مولاناچیختے چلاتے بلکہ چنگھاڑتے رہے کہ وہ نوزلیگ کے ساتھ مل کر آسانی سے خیبرپختونخوا کی حکومت پرہاتھ صاف کرسکتے ہیں لیکن میاںنوازشریف صاحب پر”کَکھ” اثرنہ ہوا ۔خیبرپختونخواکی حکومت سونامیے لے اُڑے اورمولاناکے سارے خواب چکناچور ہوگئے ۔تب سے اب تک وہ ماہرشکاری کی طرح گھات لگائے بیٹھے تھے ۔اب جونہی اُنہیںموقع ملا ،اُنہوںنے نوازلیگ کی پیٹھ میںخنجر گھونپ دیا۔اب نوازلیگ یہ بھی نہیںکہہ سکتی کہ
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
کیونکہ مولانا صاحب کے بارے میںتو سبھی جانتے ہیں کہ وہ ایسے ہی تھے ، ہیںاور رہیں گے ۔اب صورتِ حال کچھ یوںہے کہ حکومتی اتحادی مولاناصاحب اپنے دیرینہ دوست جنابِ آصف زرداری کی بانہوںمیں باہیںڈالے کھڑے ہیںاور نوازلیگ ”وَخت”میں کہ سینٹ کی چیئرمینی ہاتھوںسے کھسکتی دکھائی دے رہی ہے پیپلزپارٹی دعویٰ کررہی ہے کہ سینٹ کے الیکشن کے بعد اتحادیوںسے مل کراُس کے پاس 53 ووٹ ہوجائیں گے اوروہ سینٹ کی چیئرمینی لے اُڑے گی ۔لطیفہ یہ کہ خیبرپختونخوا میںپیپلزپارٹی کے 5 ووٹ ہیںاور اُس نے پانچ ہی اُمیدوارکھڑے کیے ہیں جبکہ ایک سینیٹرکے انتخاب کے لیے 17 ووٹ درکارہیں اِس کے باوجود پیپلزپارٹی کویقین ہے کہ وہ خیبرپختونخوا میںاپنے 3 سینیٹر منتخب کروانے میںکامیاب ہوجائے گی ۔اِن تین سینیٹرکے انتخاب کے لیے یاتو مولاناکی دعاؤںکے زیرِاثرآسمان سے فرشتے ووٹ ڈالنے کے لیے اُتریںگے یاپھر کھوتوں، گھوڑوںکی خریداری کی جائے گی۔ اگر کھوتوں گھوڑوں کی خریداری ہوتی ہے توپھر یہ یقیناََ تحریکِ انصاف کے اصطبل سے ہی رسے تڑواکر نکلیںگے۔
اسی لیے ہمارے کپتان صاحب کی بے چینی عروج پرہے اور ”نہ پائے رفتن ،نہ جائے ماندن” کے مصداق کپتان صاحب پریشان۔دو ،چار روزپہلے تک تو گیم اُن کے ہاتھ میںتھی ۔وہ پرویزخٹک صاحب کو ”قائل” کرکے خیبرپختونخوا اسمبلی توڑدیتے اورپھر قہقہے لگاتے ہوئے کہتے کہ ”کھیڈاںگے نہ کھیڈن دیاںگے”لیکن اُنہوںنے ایسانہیں کیا۔شاید وجہ یہ ہوکہ وہ میدانِ سیاست کے نَووارداور نَوآموز ہیں اورابھی مولانافضل الرحمٰن اورآصف زرداری صاحب کی طرح شاطرانہ چالیںچلنے کے ماہرنہیں ہوئے ۔ویسے بھی اب یہ حربہ تو ناقابلِ استعمال ہوچکاکیونکہ کل تو سینٹ کے الیکشن ہیں۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر