تحریر : انجینئر افتخار چودھری
یہ کوئی ایک دو روز کی بات نہیں ہے کراچی کو ناسور بنتے ٣٥ سال لگے ہیں بات کوئی بڑی نہ تھی عبدالستار افغانی کراچی بلدیہ کا ٹیکس مرکز یا صوبے کو دینے کے لئے تیار نہ تھے،جماعت اسلامی ضیاء کا ساتھ دیتے ہوئے بھی اسے کراچی میں ٹف ٹائم دے رہی تھی شہید ضیاء کو ایک اور بھی دبائو ہر وقت رہتا تھا اور وہ تھا پیپلز پارٹی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا شوق ،یہ کام جناب آصف علی زرداری نے گزشتہ حکومت کے دوران پورا کر دیا تھا جسے جناب نواز شریف پھر سے کھڑا کر رہے ہیں ۔کراچی اس عرصے میں کرچی کرچی ہو چکا ہے ایم کیو ایم کا پودہ اب شجر خبیثہ کی شکل اختیار کر چکا ہے یہ صرف میجر جنرل بلال اکبر کی بس کی بات نہیں ہے اس میں جب تک میڈیا کے تمام سیکٹرز سوشل میڈیا ٹی وی چینیلز اور تمام سیاسی پارٹیاں شامل نہ ہوئے تو نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ابابیلوں والا بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس نے اپنے ان کن ٹٹوں کو ہشیار کردیا ہے جو نیٹو کے کنٹینروں کے چوری شدہ اسلحہ اور شپنگ منسٹری کے فائدے سمیٹی ہوئے ایم کیو ایم کو تلقین کی جا رہی ہے کہ اٹھ کھڑے ہو جائو۔
آج کا دور ٧٠ سے بڑی حد تک مختلف ہے اس وقت میڈیا نامی جن موجود نہیں ہوا کرتا تھا۔اس میڈیا کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی آج کے ایکشن کو ہی دیکھ لیں ایم کیو ایم جس فوج کو روز بلایا کرتی تھی رینجرز کی شکل میں جب ٩٠ پہنچی تو اس کی چیخیں نکل گئیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ صرف ایم کیو ایم کو ہی نہیں ہر اس جماعت جس کا عسکری ونگ ہے اسے جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔کام گرچہ مشکل ہے مگر مشکل کام بھی تو کرنے ہوتے ہیں ۔ہمارے اداروں میں اتنی سکت ہے کہ وہ یہ کام بغیر کسی تفریق کے کر سکتے ہیں مگر مشکل ہے کہ جس وقت یہ آپریشن شروع ہے میاں نواز شریف کراچی میں ہیں اور خاموش ہیں لگتا یوں ہے کہ کہ عسکریت کا خاتمہ صرف قومی سلامتی کے ان اداروں کو ہی کرنا ہے جس طرح نثار علی خان اور عمران خان دھڑلے سے اس آپریشن کی حمایت میں سامنے آئے ہیں نواز شریف کیوں نہیں بولے اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ بولیں گے تو تو انہیں اس ملک سے حمایت نہیں ملے گی جس کے بارے میں وہ کہہ چکے ہیں کہ ہم اسی رب کو پوجتے ہیں جسے وہ پوجتے ہیں داخلی طورپر سینیٹ میں حمایت نہیں ملے گی سینیٹ والا مسئلہ شائد انہیں سمجھا دیا گیا ہے کہ مک مکا کے جس فارمولے کے تحت آپ نے تحریک انصاف کو کھڈے لائن لگایا ہے اسی پر عمل کریں۔دھرنے سے کم از کم فوج کو یہ فائدہ ہوا کہ اس نے نواز شریف کی گردن میں ڈلے سریے کو ٹیڑھا کر دیا ہے ورنہ اہل رائے ونڈ سمجھتے تھے کہ پاکستان کی عوام ان کے ساتھ ہے اور وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔
١٢٦ دنوں نے پاکستان کی تاریخ بدل کے رکھ دی ہے بہت سے سیانے کہتے ہیں اب میاں صاحب صرف دلیہ کھا سکتے ہیں ان کی عقل داڑھ تو پہلے ہی غائب تھی باقی دانت بھی نکال دیے گئے ہیں دوسری صورت میں کہنے دیجئے کہ غیر اعلانیہ مارشل لاء لگ چکا ہے اور سچی بات پوچھیں پاکستان کو ان جعلی مینڈیٹ کے حامل سیاست دانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا جو ملٹری عدالتوں میں داڑھی والوں کو ٹرائل کرنے کی بات کرتے ہیں مگر بغیر داڑھی والوں کے لئے وہ عدالتیں رکھی ہوئی ہیں جو آلو پیاز چوری کرنے والوں کو تو سزا دیتی ہیں لیکن ملک کے چوروں کو کھلی چھٹی دے دیتی ہیں آج زرداری نواز اور ان جیسے اربوں لوٹنے والوں کو ان عدالتوں نے کیا سزائیں دی ہیں؟ اپنی مرضی کے فیصلے اپنی مرضی اور منشاء کی حکومتیں تک انہوں نے بنوا لیں۔
ان عدالتوں کے کردار ہمارے سامنے ہیں جسٹس خلیل رمدے کی مثال سامنے رکھ لیجئے افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار کی اربوں کی کرپشن کا کیس دیکھ لیں کیا دیا فیصلہ ان عدالتوں نے؟یہی الطاف پاکستان کے پرچم جلاتا رہا انڈیا میں جا کر پاکستان کے خلاف بولتا رہا کیا کیا ان عدالتوں نے غداران وطن کے ساتھ۔ صولت مرزا کے لئے نئے عدالتی کمیشن گویا جس کو بچانا ہو اس کو بچا لیا۔مولا جٹ نامی افتخار چودھری کی بڑھکیں ایک طرف اور ان کا عملی کردار دیکھ لیں ایک بھی دہشت گرد کو پھانسی نہیں چڑھایا۔پاکستان کو باندھ کر مارنے کی کوشش ہو تہی رہی اور یہ کالے کرتوتوں والے خاموش سویوموٹو لیتے رہے۔مال پانی بنانے کی مشین تھا ان کا سویو موٹو۔فیصل موٹا آزاد پھرتا رہا اور سویو موٹو مال پانی بنانے کے لئے سر گرم ۔اور تو اور بلدیہ ٹائون واقعے کی مشترکہ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹس کو نظر انداز کر دیا گیا۔اب جب آپریشن شروع ہوا ہے تو صولت بھی جائیں گے اور موٹے بھی۔
البتہ فوج کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ فوج سے ریٹائرمینٹ لئے ہوئے جنرل مشرف کے کالے کرتوتوں کو دھونے کی کوشش نہ کرے اسے اپنا نمائندہ نہ ظاہر کرے اس نے قوم کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اسے اس کی سزا دلوائیں عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہے اسے امریکہ سے رہائی دلوانے کی کوشش کرے اور اس حکومت کو کہے کہ بندے دا پتر بن کر اس کی رہائی کے لئے کوشش کرے۔اگر فوج جنرل مشرف کے کالے کرتوت دھونے میں مصروف رہی تو یقین کیجئے اس کا نام بدنام ہو گا،آخر فوج بھی تو انسانوں کا مجموعہ ہے اس میں بھی تو ننگ وطن رہے ہوں گے جنرل اسد درانی کرنل طارق ملک جنرل مشرف راشد قریشی جیسے مادر پدر آزاد لوگ۔انصاف کا تقاضہ ہے کہ انہیں بھی ٹرائل کیا جائے۔جو ڈرتا ورتا نہیں تھا اب ڈھیلی اور گیلی پتلون کے ساتھ فوج کے پیچھے کیوں چھپتا پھر رہا ہے کبھی دل کے امراض کے ہسپتال میں اور کبھی اسی کراچی میں۔مائیں سب کی بیمار رہتی ہیں جنرل مشرف کی ماں کوئی انوکھی ماں نہیں تھی کہ اس کے لئے ہزاروں مائوں کی تڑپ ان کی چیخیں ان کا رونا بھلا دیا جائے ۔لال مسجد کا سنحہ مولوی عبدالعزیز کے کردار تلے دبایا نہیں جا سکتا ان ننھے پھولوں کو بھی پشاور اسکول کے بچوں کی طرح دیکھا جائے۔اے کاش جب جدہ کے لئے ایک عمرہ فلائیٹ پشاور اسکول کے زخمی بچوں اور شہداء کے والدین کو بھیجی جا رہی تھی تو اس میں لال مسجد کے شہداء بچوں کے لواحقین بھی چڑھا دیے جاتے۔میرا بس چلتا تو ڈرون حملوں میں بے گناہ مارے جانے والوں کے رشتہ دار بھی ساتھ ہی آ جاتے۔بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے درتا ہے۔دشمن وہ بھی ہے جو پشاور اسکول کے بچوں پر بزدلوں کی طرح ٹوٹا اور بے غیرت ننگ دیں ننگ وطن وہ بھی جو لا؛ مسجد کے ننھے پھولوں کو مار گیا۔آئو انصاف کریں توتلی زبان میں قرن پڑھتے بچون کے ساتھ اور ڈرون میں مارے جانے والے ننھے شہیدوں کے ساتھ بھی۔اس استاد کو بھی ہلال جر ئت جو قران پڑھتے معصوم بچوں کے ساتھ شہید ہو گیا اور اس ٹیچر کے ساتھ جو طالبان کے سامنے ڈٹ گئی۔
الطاف فوج فوج کرتے تھے اب وہ رینجرز کی شکل میں وہ ان کے دروازے پر پہنچ چکی ہے میں نے اپنے کالموں میں کہا تھا کہ ایم کیو ایم چاہے گی کہ وہ حکومتی اداروں کو کراچی کی گلیوں میں گھسیٹے اور پھر ان کے ساتھ وہ حشر کرے جو مکتی باہنی کی صورت میں عوامی لیگ نے ڈھاکہ میں کیا تھا۔ اب انہوں نے بیان داغ دیا ہے کہ ابابیلوں کی شکل میں ان پر کنکریاں پھینکی جائیں گی۔صورة فیل میں ابرہہ کے لشکر پر اللہ تعالی نے آسمان سے ابابیلوں کی شکل میںغیبی مدد بھیجی تھی ۔کیا الطاف سمجھتے ہیں کہ ٩٠ خانہ ء خدا ہے جس پر پاکستانی رینجرز ابرہہ کا لشکر لے کر چڑھ دوڑی ہے۔کیا وہ چاہیں گے کہ انڈیا کے ٹریننگ کیمپوں میں تربیت یافتہ ابابیل اب ان پر جھپٹیں گے۔اللہ نے چاہا تو ایسا نہیں ہو گا البتہ اسلام کے نام پر حاصل کردہ اس ملک پر طاغوت کی مدد سے سے الطاف حسین عرصہ ء دراز سے جو کوشش کر رہے ہیں ان کو تباہ کرنے پاکستانی ادارے اصلی ابابیلوں کی صورت میں میدان میں نکلے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اب پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں تمام سوشل حلقے اس آپریشن کی ہر طرح مدد کریں۔کہہ دیں کہ اب کسی حکیم سعید کو مارا نہیں جائے گا کسی صلاح الدین کا قتل نہیں ہو گا کوئی زہرہ آپا دروازے پر ماری نہیں جائیں گی۔الطاف صاحب نے فرمایا کہ قاتل میری طرح کسی اور جگہ چھپ سکتے تھے انہوں نے ٩٠ کو کیوں استعمال کیا؟بھائی جان ٩٠ سے بڑھ کر کون سی جگہ محفوظ تھی جہاں پاکستان کے وزیر اعظم دست بستہ کھڑے ہو کر آپ کے بے ہودہ بیانات اور گیت سنا کرتے تھے۔شیریں مزاری نے کہا ہے کہ بریطانیہ دہشت گرد کو گرفتار کرے۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں بی بی بریطانیہ کیوں ایسا کرے گا اس نے ہی تو اسے پال رکھا ہے اور اسی دن کے لئے پال رکھا ہے۔اب دیکھ لیجئے گا بانک مون کو بھی بلایا جائے گا کہ ماورائے تل ہو رہے ہیں آپ کی فرزانہ باری اور عاصمہ جہانگیر بھی میدان میں اتریں گی ھود بھائی بھی واویلا کریں گت دیہاڑی دار تمام این جی اوز بھی ۔اس لسانیت پرست سنپولئے اور ان کے ساتھیوں کو شکنجے میں لے لیا گیا ہے۔اب دیکھتے ہیں کون اس کی مدد کو سامنے آتا ہے۔مادر پدر آزاد این جی اوز پر بھی نظر رکھئے گا یہی تنظیمیں ہوں گی جو انسانی حقوق کے نام پر چیخ اٹھیں گی۔ ہم چاہتے تھے کہ ایم کیو ایم سے سیاسی سطح پر نپٹ کر اس کا قلع قمع کیاجاتا ۔کراچی اب سنبھل رہا تھا ہماری خواہش تھی کہ کراچی کے شہریوں کو صرف دہشت اور خوف سے نجات دلا کر انہیں ایک بار صرف ایک بار ووٹ ڈالنے کا ماحول مہیا کر دیا جاتا ۔لیکن لگتا ہے اس دوران ایم کیو ایم کو ہی جلدی ہے کہ وہ پاکستانی اداروں کے ساتھ کشتی کر کے دیکھ لے۔الطاف حسین کی بگڑتی صحت بھی ان قوتوں کو کہہ رہی تھی کہ پہلوان کے جانے سے پہلے معرکہ سجا دیا جائے۔لیکن اللہ مکر کرنے کے ساتھ بہتر طور پر نپٹنا جانتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک کی بات ہی نہیں کہ الطاف حسین ازلی دشمن بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اسے بریطانیہ میں بھی ایک عرصے سے پناہ میں رکھا گیا ہے کہ پاکستان کا ٹینٹوا دبانے کی جب بھی کوئی ضرورت پڑی اسے دھر لیا جائے گا۔معذرت کے ساتھ جو سیاست دان سمجھتے ہیں کہ بریطانیہ میں بہترین جمہوریت ہے اور وہاں دودھ کی نہریں بہتی ہیں وہ لوگ کسی اور جنت کے باسی ہیں ہم اسی بریطانوی استعمار سے بڑی مشکل سے آزاد ہوئے تھے اسی استعمار نے جاتے جاتے ہمارے لئے گورداس پور کو ہندوستان کو دے کر مصیبت کھڑی کر دی اسی بریطانیہ نے کشمیر کو سلگتی جنت بنا کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے ہے اور جو زیادہ اس کی جمہوریت کے گیت گاتے ہیں انہیں اسرائیل کے پھوڑے کو بھی یاد رکھنا چاہئیے جو عالم اسلام کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔
ہم بھی بھولے بادشاہ ہیں اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی بات کرتے ہیں جس کے سب صرف بیمار ہی نہیں کینسر زدہ ہو گئے ہیں ۔یہی بریطانیہ الطاف حسین کو پال رہا ہے۔یہ مر بھی گیا تو اس کو حنوط کر کے کام لے گا اور وہ کام پاکستان کی بر بادی کے علاوہ کچھ نہیں۔مجھے تشویش اس بات کی ہے کہ دہشت گردی کی ایک جنگ ہم نے اپنے جنوبی بارڈر پر چھیڑ لی ہے آپریشن ضرب عصب جاری و ساری اور دوسری جانب ہم کراچی میں سر دے رہے ہیں۔اب اللہ خیر کرے اس ملک کے ساتھ جو زمینی خدائوں نے سوچ رکھا ہے وہی ہونے جا رہا ہے الجھا الجھا کر ادھ موئا کر کے وہ ہمیں مارنا چاہتے ہیں۔سیاپہ کرنے والی عورتوں کی طرح چند سو عورتیں اب الطافی بین کر رہی ہیں کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے ان سے کوئی پوچھے وردی وردی آپ ہی تو کر رہے تھے اب وردی والے آئے تو چیخنا شروع کر دیا۔میں صبح ہی سے سوچ رہا تھا کہ کسی بے گناہ جوان کی شہادت کیوں ہوئی ہے ایک صاحب سوشل میڈیا پر محو گفتگو تھے میں نے وقاص شاہ کے پیج کا لنک مانگا یقین کیجئے میں نے اسے اچھی طرح سٹڈی کیا یہ لڑکا اس سوچ کا حامل تھا جو سرفراز کیے ٤٩ رنز کو ایم کیو ایم کی فتح قرار دے رہا تھا ایسا بدطینیت کہ جسے یہ بھی خیال نہیں رہا کہ اسی سرفراز کو کھلانے کے لئے گجرانوالہ کی گلیوں میں مظاہرے ہوئے فاروق ستار کی رگیں کھڑی ہو گئیں کہ دیکھا مہاجر کھیلا تو ماحول بدل گیا۔لعنت ہے ایسی سوچ پر جو گیند بلے میں بھی جئے مہاجر تلاش کرتی رہی۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی فلم میں صاف پتہ چل رہا ہے کہ وقاص شاہ کو گولی اس منحوس نے ماری جو اس کے پاس کھڑا تھا۔بعد میں یہ ثابت بھی ہو رہا ہے کہ کہ گولی ٹی ٹی پستول سے چلائی گئی ہے۔فیصل سبزواری کس ڈھٹائی سے اول فول بک رہا تھا کہ اسے رینجرز نے مارا ہے۔رینجرز نے اسے نہیں مارا البتہ اب جو قاتل وہاں سے پکڑے ہیں ان کی پٹائی ہو گی اور وہ دہشت گردی کی عدالتوں کا سامنا کریں گے جہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ہم ایم کیو ایم کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ عدالتی کمیشن بنا کر اس نوجوان کے قتل کی تحقیقات کرا لی جائیں۔ میں وہ شخص ہوں جو ہر قسم کے آپریشنز کے خلاف ہوں لیکن اب جب جنگ کا بگل بج ہی چکا ہے تو آپریشن عضب ہو یا غضب اسے منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیا جائے۔اور پوری قوم کو کراچی واپس دلا دیا جائے جہاں محبت کے زمزمے بہا کرتے تھے مائی کلاچی کا نگر محبتوں کا شہر بشری زیدی کیس کے بعد لہو لہو ہو گیا ہے۔اس شہر کے لوگوں کو اب وہ بھی یاد نہیں جب جب اس منی پاکستان میں سب ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہا کرتے تھے۔غریبوں کو پالنے والا شہر جو اس خطے کا دبئی ہے جہاں لاکھوں بنگالی ہیں افغان ہیں پٹھان اور پنجابی ہیں ایرانی بلوچی سندھی پنجابی ہیں سب اپنے اپنے حصے کا رزق لے کر گھروں کو چلے جاتے ہیں۔عضب بھی جاری رہے اور غضب بھی۔پیار اور رحم پاکستان دوست قوتوں کے لئے نفرت اور غضب اسلامی پاکستان کے دشمنوں کے واسطے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری